فائل فوٹو
فائل فوٹو

بد عنوان افسران کو بچایا جانے لگا

عمران خان :
کراچی کی بندرگاہوں سے اندرون ملک خشک گودیوں ( ڈرائی پورٹس ) تک ٹرانسشپمنٹ پرمٹ پر جانے والے درآمدی سامان کی کلیئرنس کے لئے آن لائن جمع کروائے گئے گڈز ڈیکلریشن فارمز ( جی ڈیز ) میں تبدیلیوں کا انکشاف ہونے کے بعد تحقیقات میں پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) اور پاکستان ریونیو آٹو میشن لمیٹڈ (پرال ) کے افسران نے ذمے دار ایک دوسرے پر ملبہ ڈال کر بچنے کی کوشش شروع کردی ہے۔ جبکہ معاملے کا سارا ملبہ درآمدی کمپنیوں پر ڈال کر سہولت کاروں کے خلاف تحقیقات کو متاثر کیا جا رہا ہے۔ اب تک کی تحقیقات میں 10 ہزار گڈز ڈکلریشن کے ابتدائی آڈٹ میں ڈھائی ہزار کے لگ بھگ گڈز ڈکلریشن یعنی درآمدی کھیپوں کے کوائف میں رد و بدل کرکے تقریباً 14ارب روپے کا قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کا انکشاف ہوچکا ہے۔

موصول معلومات کے مطابق مذکورہ اسکینڈل کا انکشاف اس وقت ہوا جب ایف بی آر کے ایک ٹیکس چوری کے کیس میں سہولت کاری کے الزام میں پاکستان ریونیو آٹو میشن لمیٹڈ کمپنی کے ایک اہلکار سے جوائنٹ انٹروگیشن کے دوران حساس ادارے کو معلوم ہوا کہ طویل عرصہ سے کراچی کی بندرگاہوں پر بیرون ملک سے در آمد ہو کر آنے والے سامان کو ملک کے بالائی علاقوں کے شہروں میں قائم خشک گودیوں پر منتقل کرنے کے بعد کلیئرنس میں بڑے پیمانے پر ڈیوٹی ٹیکس چوری کئے جا رہے۔

اس اہلکار نے مزید انکشاف کیا کہ اس کے لئے ایک منظم وادات کا طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہے جس میں در آمدی کھیپوں کی کلیئرنس کے لئے آن لائن سسٹم میں پہلے سے اپ لوڈ کی جانے والی گڈز ڈکلریشن کے کوائف میں ردو بدل کیا جا تا ہے یعنی جب یہ در آمدی سامان کراچی کی بندرگاہوں پر پہنچتا ہے تو اس کے لئے کسٹمز کے آن لائن سسٹم میں تاجروں اور ایجنٹوں کی جانب سے اپ لوڈ کی جانے والی دستاویزات میں مقدار، وزن، مالیت اور نوعیت کچھ اور ہوتی ہے۔ تاہم جب یہ فیصل آباد، لاہور، سرگودھا، ملتان، پشاور اور کوئٹہ کے ڈرائی پورٹس پر پہنچا تو وہاں کلیئرنس کے عمل انجام دینے تک ان کھیپوں کے پہلے سے آن لائن اپ لوڈ ہونے والے کوائف میں چھیڑ چھاڑ کرکے تبدیل کردیا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہر کھیپ پر اسی سے نوے فیصد ٹیکس چوری کرلی جاتی ہے۔

واضح رہے کہ پاکستان ریونیو آٹو میشن لمیٹڈ ( پرال ) وہ کمپنی ہے جو کہ گزشتہ دو دھائیو ں سے ایف بی آر اور کسٹمز کے تمام آن لائن سسٹمز ، سافٹ ویئرز چلانے کی ذمے دار ہے۔ شہریوں کی جانب سے بنائی گئی لاکھوں این ٹی این ، آئی ڈیز کے علاوہ کسٹم ایجنٹوں اور کمپنیوں کی ویبوک آئی ڈیز فائلر آئی ڈیز کی سیکورٹی بھی اسی کمپنی کی ذمے داری ہے۔ جس کے لئے ہر سال اربوں روپے کا بجٹ لیا جاتا ہے اور اس سسٹم کے فول پروف ہونے کے دعوے کئے جاتے ہیں۔

ذرائع کے بقول اسکینڈل سامنے آنے کے بعد ایف بی آرکی جانب سے جنوری 2020ء سے 2025ء کے دوران لاہور، پشاور، سیالکوٹ، اسلام آباد، کوئٹہ، رسالپور اور ملتان ڈرائی پورٹس ردوبدل کی گئی 2300 ٹی پی کے کنسائمنٹس کی جانچ پڑتال کی گئی تو انکشاف ہواکہ مذکورہ جی ڈیزمیں ردو بدل کرکے کنسائمنٹس کوکلیئرکرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ ان وارداتوں میں بنیادی طور پر پاکستان بھر میں ڈرائی پورٹس کو نشانہ بنایا گیا۔ پشاور میں سب سے زیادہ 1,671 ٹی پی کے کنسائمنٹس اور لاہور میں522 ٹی پی کنسائمنٹس میں ردوبدل کیاگیا۔ دیگر متاثرہ مقامات میں سیالکوٹ، اسلام آباد، کوئٹہ، رسالپور اور ملتان شامل ہیں۔ اسی ابتدائی آڈٹ کے نتیجے میں ایف بی آر نے اب تک 14 ارب روپے سے زائد ٹیکس چوری کی نشاندہی کرلی ہے۔ جس کے لئے 2300 سے زائد کسٹم گڈز ڈکلریشن یں چھیڑ چھاڑ کرنے پر 463 درآمد کنندگان، 106 کلیئرنگ ایجنٹس اور پاکستان ریونیو آٹومیشن لمیٹڈ (پی آر اے ایل) اور پاکستان سنگل ونڈو (پی ایس ڈبلیو) کے متعدد عہدیداروں کے خلاف قانونی کارروائی شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع کے بقول پرال افسران نے یہ کہہ کر جان چھڑانے کی کوششیں شروع کردی ہیں کہ دو ہزار بائیس کے بعد سے یہ نظام پاکستان سنگل ونڈو کمپنی( پی ایس ڈبلیو ) کی ذمے داری ہے۔ تاہم پی ایس ڈبلیو کے افسران یہ کہہ کر خود کو بچانے لگے ہیں کہ یہ فراڈ کی وارداتیں پہلے سے ہو رہی ہیں ان کی نشاندہی کرنا پرال انتظامیہ کا کام تھا جس میں وہ ناکام رہے۔ اور یہ بھی سسٹم میں جتنی بھی چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے وہ باہر سے انٹر نیٹ رائوزر کو استعمال کرکے درآمدی کمپنیوں اور ان کے کسٹمز ایجنٹوں نے کی ہے۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ سسٹم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنا کسٹم ایکٹ کی متعدد شقوں کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

جبکہ پی ایس ڈبلیو نے 2022ء میں پرال سے سسٹم سنبھالا تو موجودہ کمی کو دور کرنے اور سیکیورٹی کو بڑھانے کے لیے ایک نئی ٹیم بنانے کے بجائے پرال کے ان ہی اہلکاروں کو برقرار رکھا، جس سے فراڈ کو بلا روک ٹوک جاری رہنے دیا گیا۔ اس طرح دونوںکے اندر موجود کالی بھیڑیں سہولت کاری میں ملوث رہی ہیں کیونکہ ایک بار تاجر یا ایجنٹ اپنی آئی ڈی سے گڈز ڈکلریشن اپ لوڈ کردیں تو پھر ان کے پاس اس میں ترمیم کی رسائی ختم ہوجاتی ہے اور یہی اس سسٹم کی خصوصیت اور تحفظ کی ضمانت ہے جس کے اربوں روپے شہریوں کے ٹیکس کے پیسے سے وصول کئے جاتے ہیں۔ اس معاملے میں جب تک اندر سے سہولت کاری نہ ہو یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

ذرائع کے مطابق مذکورہ معاملہ سامنے آنے کے بعد ابتدائی طور پر گزشتہ تین سال کی جی ڈیز کے ریکارڈ کا آڈٹ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاہم زیادہ ثبوت و شواہد سامنے آنے پر بعد ازاں اس کا دائرہ گزشتہ 10 برسوں کے ڈیٹا کی چھان بین تک بڑھایا جا سکتا ہے۔

ذرائع کے مطابق فی الوقت اس اسکینڈل کو دبانے کی کوششیں بھی جاری ہیں اور اس کو سسٹم کی خرابی قرار دے کر اس کی سنگینی کو کم کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اگر اس پر وسیع پیمانے پر تحقیقات شروع ہوئیں تو موجود صورتحال کے تناظر میں اس میں حساس ادارے بھی شامل ہوسکتے ہیں جس سے گزشتہ برسوں میں ٹی پی پرمٹ کے سامان کی آڑ میں لاہور، فیصل آباد، ملتان، پشاور اور کوئٹہ سمیت دیگر ڈرائی پورٹس سے ہونے والی اربوں روپے کی انڈر انوائسنگ، مس ڈکلریشن کا نیٹ ورک کسٹمز ایف بی آر میں موجود سہولت کاروں سمیت سامنے آجائے گا۔ ذرائع کے بقول گزشتہ برسوں میں کراچی کی بندرگاہوں سے کلیریئنس کے لئے ڈرائی پورٹس پر لے جائے گئے سامان میں ٹیکس چوری اور اسمگلنگ کے کئی بڑے اسکینڈل سامنے آچکے ہیں تاہم وقت کے ساتھ ان کی تحقیقات کسٹمزاپریزمنٹ، کسٹمز انٹیلی جنس اور ایف آئی اے تک میں دبا دی گئیں اور ان میں ملوث اصل پردہ نشین بینیفشری کردار اور سہولت کار ہمیشہ بچا لیے گئے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔