محمد قاسم :
افغان مہاجرین، پشاورکے بازاروں میں عید الفطر کی آخری خریداری کر ہے ہیں۔ کیونکہ وفاقی حکومت کی جانب سے انکار کے بعد پاکستان میں مزید ٹھہرنے کی ان کی تمام امیدیں دم توڑ گئی ہیں۔ جبکہ شہر کی مختلف مساجد میں اعتکاف پر بیٹھے افغان مہاجرین کو بھی واپسی سے متعلق آگاہ کر دیا گیا۔
دوسری جانب افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے حکومت پاکستان نے عارضی کیمپ قائم کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے تمام سہولیات فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق 31 مارچ واپسی کی ڈیڈ لائن قریب آنے پر افغان مہاجرین نے پشاورکے بازاروں کا رخ کرتے ہوئے عید الفطر کی آخری خریداری کر لی جس کے بعد وہ اپنے وطن میں جا کر اگلی عید منائیں گے اور خاص کر بورڈ بازار، ابدرہ سمیت شاہین بازار اور کوہاٹی کے بازاروں میں افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے گزشتہ روز خریداری کیلئے رخ کیا جس میں افغان خواتین اور بچوں کی تعداد بھی زیادہ تھی۔ جبکہ افغان باشندوں نے پشاوری چپل سمیت ملبوسات ، واسکٹ وغیرہ کی خریداری کی۔
اسی طرح پشاور کے پیپل منڈی بازار سے تسبیح، مسواک اور سفید و مختلف رنگوں کی ٹوپیاں بھی خریدیں۔ پشاور کے قصہ خوانی بازار سے دینی کتب کی خریداری میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا جہاں پر ایک دکاندار محمد صادق نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد گزشتہ ایک ہفتے سے بازار کا رخ کر رہی ہے اور دینی کتب کی خریداری میں اضافہ ہوا ہے جس میں درس و تدریس اور مختلف وظائف کی کتابوں کی خریداری بڑھی ہے۔ جبکہ اسٹیشنری کے کاروبار سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ واپس جانے والے افغان مہاجرین اسکول بیگز، کلرز، بال پین، قلم دوات سمیت دیگر سامان بڑے پیمانے پر خرید رہے ہیں۔
ہشت نگری بازار سے خریداری کرنے والے ایک افغان مہاجرین حشمت اللہ نے بتایا کہ ان کے بچے اسکول جانے کے قابل ہو گئے ہیں اور اگلے سال ان کو اسکول میں داخلہ دلوانا ہے اور چونکہ پاکستان کی حکومت نے ان کو 31 مارچ واپس جانے کی تاریخ دی ہے اسی لئے بچوں کیلئے اسکول بیگز، رجسٹرڈ، کاپیاں اور دیگر سامان خرید رہے ہیں۔ ان کو معلوم نہیں کہ یہ سامان افغانستان میں کس قیمت پر ملے گا اور کہاں سے ملے گا، اسی لئے پہلے سے ہی خریداری کرلی ہے۔ جبکہ بازاروں میں افغان خواتین بچوں کیلئے کپڑے، جوتے ، بچیوں کے لئے چوڑیاں، بالیاں اور مہندی وغیرہ خرید رہی ہیں۔
بیشترافغان خواتین کا کہنا تھا کہ اس بار ایک عید پاکستان میں منائیں گی اور ان کی دوسری عید اپنے وطن افغانستان میں ہو گی۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں بھی ان کو بہت زیادہ عزت و احترام ملا ہے۔ اسی طرح پشاور کے پیپل منڈی بازار سے تسبیح ، مسواک ، رومال اور ٹوپیوں کی فروخت میں بھی اضافہ دیکھا گیا ہے۔
ایک دکاندار حبیب اللہ نے بتایا کہ افغان مہاجرین کی بڑی تعداد نے بازار کا رخ کیا ہے اور تسبیح ، رومال، جائے نماز ، مسواک سمیت دیگر سامان خرید رہے ہیں۔ پشاور میں مقیم ایک افغان مہاجر رحیم کریمی نے بتایا کہ چونکہ کافی سال بعد افغانستان جانا ہے، اسی لئے ضروری عبادت کا سامان خرید رہے ہیں اور کچھ دوستوں کیلئے بھی ساتھ لے کر جائیں گے۔ دوسری جانب پاکستان میں مقیم افغان مہاجرین کی واپسی کے لئے تیاریاں بھر پور طریقے سے جاری ہیں اور اس سلسلے میں 2 عارضی کیمپ پشاور جمعہ خان کالونی اور لنڈی کوتل گلاب گرائونڈ میں قائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔
ضلع خیبر کی انتظامیہ کا اس حوالے کہنا ہے کہ افغان مہاجرین کی وطن واپسی کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے پشاور اور خیبر میں 2 عارضی کیمپوں کے قیام کی منظوری دے دی گئی اور اس سلسلے میں صوبائی محکمہ داخلہ نے اعلامیہ جاری کردیا ہے۔ افغان مہاجرین کی واپسی کی مناسبت سے کیمپوں میں بیک وقت 1500 افراد رکھنے کی گنجائش ہوگی۔ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خیبر ارشاد خان کے مطابق لنڈی کوتل میں عارضی کیمپ کے قیام پر باقاعدہ کام شروع کردیا ہے اور لنڈی کوتل میں عارضی کیمپ یکم اپریل سے باقاعدہ طورپر فعال کیا جائے گا۔
اسی طرح ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر خیبر کے مطابق کیمپ میں یو این ایچ سی آر، امیگریشن سمیت دیگر متعلقہ محکموں کے اہلکار تعینات ہوں گے اور غیر قانونی رہائش پذیر غیر ملکیوں کے حوالے سے قانونی کارروائی کے بعد طورخم سرحدی گزرگاہ سے ملک بدر کیا جائے گا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پنجاب سمیت سندھ کے علاقوں سے افغان باشندوں کی ایک بڑی تعداد نے صوبہ خیبرپختونخوا کا رخ کرنے کا ارادہ کیا کہ یہاں پر ان کو پناہ مل جائے گی اور مزید وقت اگر نہ بھی ملے تو وفاقی اور صوبائی حکومت افغان مہاجرین کے معاملے پر آمنے سامنے آ جائیں گی، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اور اب افغان مہاجرین کو دی گئی 31 مارچ کی ڈیڈ لائن میں توسیع کا کوئی امکان نہیں ۔