محمد نعمان :
کراچی میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں شہر کے مختلف علاقوں میں 5 لاکھ سے زائد ٹھیلے اور پتھارے لگائے گئے۔ عام دنوں میں یہ تعداد 3 لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ ’’امت‘‘ سروے اور تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ہر ٹھیلے و پتھارے اور کیبن سے اوسطاً ایک ہزار روپے وصول کیے گئے۔
ڈیفنس، کلفٹن، طارق روڈ، بہادرآباد سمیت حیدری اور گلشن اقبال کے علاقوں میں پتھارے اور کیبن کا ریٹ دو ہزار روپے سے 2 ہزار روپے تک مقرر تھا۔ جبکہ صدر، لیاقت آباد، نیو کراچی، نارتھ کراچی، سرجانی، ناظم آباد، لانڈھی، کورنگی اور اورنگی ٹاؤن سمیت دیگر علاقوں میں ٹھیلے پتھارے اور کیبن کا ریٹ 500 روپے سے ایک ہزار روپے تک وصول کیا گیا۔ یوں شہر بھر میں اوسطاً فی ٹھیلہ پتھارا یا کیبن سے آخری عشرے کے دوران ایک ہزار روپے سے 5 ہزار روپے تک بٹورے گئے۔ یوں مجموعی طور پر آخری عشرے میں ٹھیلے پتھاروں سے یومیہ 50 کروڑ روپے وصول کیے گئے، دس دنوں میں یہ رقم 5 ارب روپے بنتی ہے۔
شہر میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں ٹھیلے پتھاروں کی تعداد 5 لاکھ سے تجاوز کرگئی تھی۔ ٹاؤنز انتظامیہ، کے ایم سی، ضلعی انتظامیہ، کنٹونمنٹ بورڈز، ٹریفک پولیس سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے عیدی ڈبل کرنے کے لیئے گلی محلوں میں ٹھیلے پتھاروں کے علاوہ کیبن اور پکی تجاوزات بھی قائم کروادی تھیں۔
دوسری جانب شہر میں ایک بار پھر سے غیر قانونی تجاوزات سے کروڑوں روپے عیدی جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ شہر کے 7 اضلاع میں 25 ٹاؤنز بنائے گئے ہیں جن میں کورنگی ٹاؤن، ماڈل ٹاؤن، شاہ فیصل ٹاؤن، لانڈھی ٹاؤن، صدر ٹاؤن، لیاری ٹاؤن، اورنگی ٹاؤن، مومن آباد ٹاؤن، منگھوپیر ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن، ملیر ٹاؤن، ابراہیم حیدری ٹاؤن، نیو کراچی ٹاؤن، ناظم آباد ٹاؤن، گلبرک ٹاؤن، نارتھ ناظم آباد ٹاؤن، لیاقت آباد ٹاؤن، ماڑی پور ٹاؤن، مورڑو میر بہر ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، سہراب گوٹھ ٹاؤن، صفورہ ٹاؤن، گلشن اقبال ٹاؤن، جناح ٹائون اور چنیسر ٹاؤن شامل ہیں۔ ان ٹاؤنز میں 7 ڈپٹی کمشنرز کے علاوہ 20 سے زائد اسسٹنٹ کمشنرز ہیں اور کے ایم سی عملے کی بات کی جائے تو 20 سے زائد ڈپٹی ڈائریکٹرز تعینات ہیں۔ اس کے علاوہ کنٹونمنٹ بورڈز کی حدود میں آنے والے بازار اور گلی محلوں میں بھی بیٹرز تعینات ہیں۔
’’امت‘‘ کو کے ایم سی کے محکمہ اینٹی انکروچمنٹ کے ایک افسر نے نام نہ ظاہر کرنے پر بتایا کہ عام دنوں میں ٹھیلے پتھاریداروں کی تعداد 3 لاکھ کے قریب ہوتی ہے۔ لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرے میں یہ تعداد 5 لاکھ سے تجاوز کرجاتی ہے اس کی بڑی وجہ بھتہ ڈبل کرنا ہوتا ہے۔ کئی سال سے کے ایم سی ان ٹھیلے پتھاریداروں سے بھتہ وصولی کرتی آرہی ہے۔ لیکن اب ٹاؤن چیئرمینز نے انہیں چالان جاری کرکے قانونی شکل دینے کی کوشش کی ہے جو کہ غیر قانونی عمل ہے۔ ہم نے اس معاملے پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کو شواہد بھی پیش کیے لیکن انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
افسر نے بتایا کہ غیر قانونی تجاوزات سے کروڑوں روپے بٹورے جاتے ہیں اور اس حوالے سے ایک میٹنگ بھی رکھی جاتی ہے جس کی سربراہی ڈپٹی کمشنرز، ٹائون چیئرمین یا پھر کوئی اورمتعلقہ افسر کرتا ہے۔ افسر نے بتایا کہ بہار کالونی، دریا آباد، نیاآباد، لیاقت کالونی، کھڈا مارکیٹ، موسیٰ لین، نوالین، سنگولین، جھٹ پٹ مارکیٹ، شاہ بھٹائی روڈ، شاہ ولی اللہ روڈ، ٹینری روڈ، چاکیواڑہ روڈ، کلاکوٹ، لی مارکیٹ، مرزا آدم خان روڈ، احمد شاہ بخار ی روڈ، جامع مسجد روڈ بہار کالونی، تاج مسجد روڈ آگرہ تاج، علامہ اقبال کالونی، پرانا جاجی کیمپ، میمن سوسائٹی، بغددادی، گارڈن، کھارادر، سٹی ریلوے کالونی، نانکواڑا، ملت نگر، یوسی 8 صدر، سول لائن، مچھر کالونی، ماڑی پور، میٹھادر، رام سوامی، بوہرا پیر، ایس آئی یو ٹی چاند بی بی روڈ، پان منڈی، جٹ لائن ، سینٹرل جیک لائن، جمشید کوارٹر ، فاطمہ جناح کالونی، گارڈن ایسٹ، سولجر بازار، پاکستان کوراٹر، اختر کالونی، منظور کالونی، اعظم بستی، چنیسر گوٹھ، محمودآباد، یوسی 6 منظور کالونی، گلشن زون کے علاقے، سوک سینٹر، پی آئی بی کالونی، عیسیٰ نگری، گلشن اقبال، شانتی نگر، جمانی کالونی ، گلشن اقبال، نیو دھوراجی، پھلوان گوٹھ، میٹرویل کالونی، گزار حجری، صفورا گوٹھ ، قائدآباد، لانڈھی ، گلشن حدید ، مراد میمن گوٹھ، گڈاپ ، یوسف گوٹھ، منگھوپیر ، ماڈل کالونی یوسی ایک، جعفرطیار، غازی بروہی گوٹھ، اتحاد ٹائون، اسلام نگر، سعید آباد، مسلم مجاہد کالونی، مہاجر کیمپ، مومن آباد، مدینہ کالونی، بلال کالونی، اقبال بلوچ کالونی، بلوچ گوٹھ، پاک کالونی، فرنٹیئر کالونی، بنارس ، کورنگی کے علاقے 48 بی ،48 سی ،کوزگارڈ چورنگی ،34ون ،34ٹو، کبڈی گراونڈ،شاہ فیصل کالونی ، معین آباد ،ماڈل کالونی ،کالا بورڈ، جو سعود آباد،کوثر ٹائون،انڈس مہران،پاک کوثر ،گیلان آباد،صابر کالونی ،ایف این،ڈی ون ،ڈاکخانہ، جی ایریا،ایچ ایریا،لیاقت مارکیٹ،جناح اسکوائر،ایف سائوتھ،محمد کالونی ،شادمان ٹائون، اے ایریا سمیت دیگر علاقوں میں تجاوزات قائم کردی گئی ہیں۔ ان ٹھیلے پتھاروں سے یومیہ 500 روپے سے ایک ہزار روپے تک وصولی کی جارہی ہے۔
خبر پر موقف کے لیے وزیر بلدیات کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا، تاہم ان سے رابطہ نہ ہوسکا۔