امت رپورٹ:
مہاراشٹر کے شہر ناگپور میں حالیہ تشدد کی لہر کے بعد ہندوتوا تنظیموں اور مودی سرکار کے رہنمائوں کی جانب سے عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کا مقبرہ مسمار کرنے کی تحریک زور پکڑ گئی ہے۔ سترہ مارچ کو ناگپور میں ہندوتوا تنظیموں کی جانب سے اورنگ زیب کا پتلا جلا کر احتجاج کے دوران ایک کپڑے پر قرآنی آیت کو جلانے کی افواہ کے بعد تشدد پھوٹ پڑا تھا، جس میں تقریباً تیس افراد زخمی ہوئے۔ آتشزنی کے واقعات کے دوران ہجوم نے کچھ گھروں میں توڑ پھوڑ کی اور کئی گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ اب بھی یہ چنگاری بھڑکانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ تشدد اور تنازعہ راتوں رات پیدا نہیں ہوا۔ اس حوالے سے گرائونڈ بہت پہلے سے بنایا جارہا تھا۔ اس سلسلے میں انتہا پسند بھارتی سیاست دانوں کے ماضی قریب کے بیانات ریکارڈ پر ہیں۔
اس کی شروعات گزشتہ برس نومبر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کی تھی، جب انہوں نے مہاراشٹر کے سنبھاجی نگر میں تقریر کرتے ہوئے کانگریس پارٹی کو نشانہ بنایا اور کہا کہ انہیں ’’چھتر پتی‘‘ سنبھاجی مہاراج کے نام پر اعتراض ہے اوریہ ان کے قاتل اورنگ زیب میں اپنا مسیحا دیکھتے ہیں، یہ لوگ مہاراشٹر اور مراٹھیوں کے وقار، عزت نفس اور شناخت کے خلاف کھڑے ہیں۔
یہاں بتاتے چلیں کہ ’’چھترپتی‘‘ ہندوستان میں مراٹھا قوم کا شہنشاہ کے مترادف استعمال ہونے والا لقب ہے۔ اسے سب سے پہلے مراٹھا سلطنت کے حکمران شیواجی نے اپنایا، جس کے بڑے بیٹے سنبھا جی کو مسلمانوں کے قتل عام کا جرم ثابت ہونے پر اورنگ زیب عالمگیر کے حکم پر سن سولہ سو نواسی میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا تھا۔ یہی سزائے موت آج تقریباً سوا تین سو سال بعد ہندوتوا کے حامیوں کو اچانک یاد آنے لگی ہے۔ اور وہ اس تین صدیوں پرانے قصے کو جو خالصتاً اقتدار کی جنگ تھا، ہندو مسلم تنازعہ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ اس پر آگے بات کرتے ہیں۔ پہلے یہ بیان کرتے چلیں کہ کس طرح الیکشن میں کانگریس اور مسلم مخالف جذبات بھڑکا کر بی جے پی کو ووٹ دلانے کے لیے مودی نے اورنگزیب کے خلاف بیان دیا، جس کے بعد بی جے پی سیاست دان اور انتہا پسند ہندو تنظیموں نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔
پونے میں ایک پریس کانفرنس میں وشوا ہندو پریشد کے کشور چوہان نے اورنگ زیب کے مقبرے کو ہندوئوں کے ساتھ غداری، نفرت اور ظلم و جبر کی علامت قرار دیا۔ بی جے پی لیڈر اور سابق ایم پی، نونیت رانا نے اورنگ زیب کی قبر کو اکھاڑ پھینکنے کی بات کرتے ہوئے کہا کہ اورنگ زیب سے محبت کرنے والوں کو ان کی قبر اپنے گھروں میں سجانا چاہیے۔
بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ادین راجے بھوسلے نے کہا کہ قبر کی کیا ضرورت ہے؟ جے سی بی مشین لاکر قبر کو گرا دو۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے بھوسلے کی حمایت کی اور کہا کہ وہ بھی یہی چاہتے ہیں۔
اس ساری زہریلی بیان بازی کے دوران جلتی پر تیل کا مزید کام ایک فلم نے کیا۔
آلٹ نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اورنگ زیب سے متعلق تازہ تنازعہ اور اس کے بعد ناگپور میں ہونے والے تشدد کا تعلق حال ہی میں ریلیز ہونے والی فلم ’’چھاوا‘‘ سے ہے، جس میں شیواجی مہاراج کے بیٹے چھترپتی سنبھاجی مہاراج کی زندگی اور مغل بادشاہ اورنگ زیب کی طرف سے ان پر ڈھائے جانے والے نام نہاد مظالم کو دکھایا گیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے فلم ’’چھاوا‘‘ کے بارے میں بھی مختصر بتاتے چلیں۔
فروری میں ریلیز ہونے والی فلم ’’چھاوا‘‘ میں اداکار وکی کوشل نے مرکزی کردار ادا کیا ہے۔ کمائی کے ریکارڈ قائم کرنے والی اس فلم میں جھوٹ کے بھی ریکارڈ بنائے گئے ہیں۔ فلم میں چھترپتی سنبھاجی مہاراج کو جو اورنگ زیب کی قید میں بے بسی سے مارا گیا، ایک دلیر جنگجو اور سرفروش کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ مغل شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر کو ظالم اور ہندوئوں سے نفرت کرنے والے حکمراں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ تاریخ کو مسخ کرکے مسلمانوں کے خلاف تعصب اور نفرت کو فروغ دینے والی اس فلم کے ڈائریکٹر لکشمن اتیکر کی یہ کوشش ان معنوں میں تو کامیاب رہی کہ ماضی کی محرومیوں کے شکار ہندو انتہا پسندوں کو اس سے دلی راحت ملی۔ اور انہوں نے جوق در جوق اس فلم کو دیکھ کر فلمساز کی تجوری بھردی۔
دوسری جانب آلٹ نیوز کے مطابق اس فلم نے انتہا پسند ہندو ناظرین کو اس قدر مشتعل کر دیا کہ کئی سنیما گھروں سے ایسے ویڈیو کلپ سامنے آنے لگے، جن میں ان کو نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، ان میں بہت چھوٹے بچے بھی شامل تھے۔ ملک کے مختلف حصوں میں بہت سے انتہا پسند ہندو ناظرین سنبھاجی مہاراج پر تشدد کے مناظر پر پاگل ہوگئے اور انہوں نے سنیما ہال کے پردے تک پھاڑ دیئے۔ اندازہ کیجئے ان کے بڑے تو تین صدیوں تک کچھ نہ کرسکے، غصہ بھی یوں نکالا کہ اپنے ہی سنیما گھروں کے پردے پھاڑ ڈالے۔
اس سارے ہنگاموں کے دوران کئی ہندوتوا لیڈروں اور بی جے پی سیاست دانوں نے فلم ’’چھاوا‘‘ کی تشہیر کی۔ خود ساختہ سنت دھیریندر شاستری کے باگیشور دھام نے ’’چھاوا‘‘ کی عوامی اسکریننگ کواسپانسر کیا۔ حتی کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی نئی دہلی میں آل انڈیا مراٹھی ساہتیہ سمیلن سے خطاب کرتے ہوئے ’’چھاوا‘‘ کی تعریف کی۔ دی وائر کی ایک رپورٹ کے مطابق اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مختلف مقامات پر مظاہرے شروع ہو گئے۔
بی جے پی رہنمائوں نے بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد جیسی ہندوتوا تنظیموں کے ساتھ مل کر اورنگ زیب کے مقبرے کو یہ کہتے ہوئے گرانے کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا کہ اس نے ہندوئوں پر ظلم و تشدد کیا تھا۔ ہندوتوا تنظیموں کے کارکنوں نے پورے مہاراشٹر میں احتجاجی مظاہرے کیے اور مقبرہ گرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے مقامی حکام کو میمورنڈم پیش کیا۔ کئی مقامات پر مظاہرین نے مقبرے کے ایک ڈیمو ماڈل کو تباہ کرنے کے لیے ہتھوڑوں کا استعمال بھی کیا۔ یہ آگ اب تک لگی ہوئی ہے۔
بجرنگ دل اور وشوا ہندو پریشد نے اورنگ زیب کے مقبرے کو مسمار کرنے کا مطالبہ تیز کر دیا ہے اور دھمکی دی ہے کہ اگر حکومت اس پر عمل کرنے میں ناکام رہی تو وہ ‘‘کار سیوا‘‘شروع کریں گے۔ یعنی جیسے ہندو کارسیوکوں نے بابری مسجد شہید کی تھی، اورنگ زیب کا مقبرہ توڑنے کے لیے بھی ایسا ہی ایکشن لیا جائے گا۔ پاگل پن کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شیو سینا کے کارکنوں نے اورنگ زیب کی قبر گرانے والے کے لیے پانچ بیگھہ زمین اور گیارہ لاکھ روپے انعام کا اعلان کیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں مہاراشٹر انتظامیہ نے اگرچہ اورنگ زیب کے مقبرے کی سائٹ پر پچھلے کئی دنوں سے سیکورٹی بڑھادی ہے، لیکن جب سارے معاملے کے پیچھے خود ہندوتوا حکومت ہو تو یہ حفاظتی انتظامات کیا معنی رکھتے ہیں۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ مارچ سترہ سو سات میں وفات پا نے والے اورنگ زیب عالمگیر کو خلدآباد میں دفن کیا گیا تھا۔ بھارتی حکومت نے ان کے مقبرے کو انیس سو اٹھاون کے ایک قانون کے تحت آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے ذریعہ قومی اہمیت کی یادگار کے طور پر محفوظ رکھا ہے، جو اسے مسمار کرنے سے روکتا ہے۔ اب اگر جنونی ہندو کار سیوک، حکومت کی ملی بھگت سے اسے گراتے ہیں تو اپنے ہی نام نہاد سیکولر چہرے پر کالک ملیں گے، اورنگ زیب کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اب مختصر ذکر اورنگ زیب عالمگیر کی شخصیت اور حکمرانی کا ہوجائے۔
محی الدین محمد عرف اورنگ زیب کے نام سے مشہور وہ مغلیہ سلطنت کے چھٹے شہنشاہ تھے۔ ان کے دور حکومت میں مغلوں نے سب سے زیادہ فتوحات حاصل کرکے پورے برصغیر کو اپنے زیر نگیں کیا۔ وہ مغلیہ سلطنت کے آخری عظیم الشان شہنشاہ تھے۔ اورنگ زیب نے ’فتاویٰ عالمگیری‘ کو مرتب کیا اوروہ برصغیر پاک و ہند میں شریعت اور اسلامی معاشیات کو مکمل طور پر قائم کرنے والے چند بادشاہوں میں سے ایک تھے۔
انہوں نے شاہی احاطے میں شراب، موسیقی اور رقص پر پابندی لگادی تھی۔ اورنگ زیب اپنی مذہبی پرہیزگاری کی وجہ سے مشہور تھے۔ انھوں نے قرآن حفظ کیا، احادیث کا مطالعہ کیا اور اسلام کی رسومات پر سختی سے عمل کیا اور قرآن کریم کے نسخے نقل کیے۔ ان کا تعلق امیر تیموری خاندان سے تھا۔ اورنگ زیب کو مورخین، ہندوستانی تاریخ کے عظیم ترین شہنشاہوں میں سے ایک مانتے ہیں۔ ان کے دور میں ہندوستان دنیا کا امیر ترین ملک تھا۔ جس طرح فلم ’’چھاوا‘‘ میں مبالغہ کی حد تک اورنگزیب کو ایک ظالم اور متعصب مسلمان کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ اس کے برعکس انہوں نے جہاں بادشاہی مسجد لاہور سمیت درجنوں مساجد تعمیر کرائیں،
وہیں شریعت کے مطابق اعلان کیا کہ ہندوئوں کو ریاستی تحفظ دیا جائے گا اور مندروں کو مسمار نہیں کیا جائے گا، لیکن کسی بھی نئے مندر کی تعمیر پر پابندی رہے گی۔ اورنگ زیب نے اپنے دور حکومت میں سگے بھائیوں سمیت کئی بغاوتوں کا سامنا کیا۔ ان میں مسلمان اور ہندو دونوں حکمران شامل تھے ۔ ان میں سے ہی ایک شیواجی بھی تھا، جس نے مغل وائسرائے شائستہ خان پر اچانک حملہ کر دیا اور اورنگ زیب کے خلاف جنگ شروع کر دی۔
شیواجی اور اس کی افواج نے دکن، جنجیرہ اور سورت پر حملہ کیا اور وسیع علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کی۔ تاہم اورنگ زیب کی فوجوں نے شیواجی کو شکست دی اور اس کے بیٹے سنبھاجی کو پکڑ لیا، بعد ازاں اسے مسلمانوں کے قتل عام کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت دے دی گئی۔ یعنی یہ اقتدار کی جنگ تھی، ہندو مسلم تنازعہ نہیں جیسا کہ فلم ’’چھاوا‘‘ میں پیش کیا گیا ہے اور ہندوتوا کی تنظیمیں اس پروپیگنڈے کو ہوا دے رہی ہیں۔