فوڈ اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، فائل فوٹو
فوڈ اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، فائل فوٹو

کراچی میں چھپرا ہوٹل بیماریاں پھیلانے لگے

اقبال اعوان :

کراچی کے چھپرا ہوٹل شہریوں میں بیماریاں بانٹنے لگے۔ سندھ فوڈز اتھارٹی اور دیگر متعلقہ ادارے کے کرپٹ افسران و اہلکار اپنا بھتہ وصول کر کے خاموش بیٹھے ہیں۔ شہر سے جانے والی ہائی ویز، صنعتی زونز، کچی آبادیوں میں واقع لگ بھگ 8 ہزار سے زائد چھپرا ہوٹلوں میں جہاں غیر معیاری کھانے فروخت ہوتے ہیں، وہیں بیمار، مردہ جانوروں، مرغیوں کے گوشت اور مضر صحت گھی تیل، مصالحہ جات کا استعمال کیا جاتا ہے، جبکہ من مانے ریٹ وصول کیے جاتے ہیں۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ہوٹل شہریوں میں مختلف بیماریاں بانٹ رہے ہیں۔ سندھ فوڈز اتھارٹی، کوالٹی کنٹرول، پرائس کنٹرول کمیٹی اور دیگر ادارے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ واضح رہے کہ مضر صحت اور غیر معیاری کھانے پینے کی اشیا سے شہری معدے، جگر، پیٹ، آنتوں کے علاوہ گردوں، دل کے امراض میں مبتلا ہورہے ہیں۔ نیشنل ہائی وے، سپر ہائی وے، آر سی ڈی ہائی وے پر آئے روز مردہ مرغیوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔

جبکہ جنوبی پنجاب اور سندھ سے بیمار مردہ جانوروں کا گوشت کئی بار کراچی میں پکڑا جا چکا ہے اور ملزمان اعتراف کر چکے ہیں کہ چھپرا ہوٹلوں پر فراہم کرتے ہیں۔ شہر میں چھپرا ہوٹل، شہر کے تمام صنعتی زونز سائٹ کورنگی، لانڈھی، فیڈرل بی ایریا، نیوکراچی، نوری آباد، ابراہیم حیدری سمیت دیگر جگہوں پر سیکڑوں چھپرا ہوٹل قائم ہیں وہاں فیکٹری ورکرز یا راہ گیر کھانا کھاتے ہیں۔ اسی طرح دالیں، سبزیاں، گوشت، مرغی، انڈے کے سالن بنتے ہیں۔ ان ہوٹلوں کے علاوہ کچی آبادیوں اور ہائی ویز پر چھپرا ہوٹل قائم ہیں جہاں گاڑی والے، مال بردار گاڑی، ٹینکرز، کوچوں کے مسافر جاتے ہیں۔ لگ بھگ سائٹ ایریا میں 3 ہزار سے 4 ہزار ہوٹل قائم ہیں۔ ان ہوٹلوں پر متعلقہ اداروں کے لوگ بھتہ خوری کر کے حصہ وصول کرتے ہیں۔

سندھ فوڈز اتھارٹی، کوالٹء کنٹرول، پرائس کنٹرول کمیٹی سمیت پولیس کے مختلف شعبوں کے لیے یہ چھپرا ہوٹل سونے کی چڑیا بنے ہوئے ہیں۔ یہاں پر ناقص، مضر صحت، غیر معیاری کھانے پینے کی اشیا کی بھرمار ہوتی ہے۔ ایک ہوٹل والے کا کہنا ہے کہ جنوبی پنجاب کے شہروں سے جو بسیں آتی ہیں ان میں بیمار، مردہ جانوروں کا گوشت کپڑوں اور بوریوں میں لایا جاتا ہے۔ بکرے کی جگہ کٹے کا گوشت بکرے کے گوشت کی قیمت میں فروخت کرتے ہیں۔ ٹھٹھہ، سجاول اور دیگر ساحلی آبادیوں میں واقع پولٹری فارم سے روزانہ مرنے والی مرغیاں سوزوکی، ڈاٹسن یا دیگر گاڑیوں میں لائی جاتی ہیں اور پکا کر فروخت کی جاتی ہیں۔ اسی طرح ملیر ندی یا دیگر ندی نالوں کی سبزیاں فراہم کی جاتی ہیں۔ کیڑے والی پرانی دالیں پکائی جاتی ہیں۔ دودھ جو چائے میں ڈالا جاتا ہے وہ دودھ کیمیکل والا ہوتا ہے۔ اس طرح سستی اشیا حاصل کر کے تیاری کے بعد فروخت کی جاتی ہیں کہ ان چھپرا ہوٹلوں پر بھتہ وصولی والے بہت آتے ہیں ان کو کھانا بھی مفت کھلائو۔ اور بھتہ بھی ادا کرو۔

کورنگی صنعتی ایریا میں واقع ہوٹل والے جبار کا کہنا ہے کہ منافع خور، بے ضمیر لوگ منافع حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ شہری مجبوری میں پوری قیمت دے کر بھی مطلوبہ ڈش حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔ یہاں پر شہر کے مقابلے میں گوشت، دال، چاول، سبزی، مرغی، چائے، روٹی ہر چیز مہنگی ہوتی ہے یہاں پر کوئی چیک نہیں کرنے آتا ہے بلکہ سیٹنگ کرنے آتا ہے۔ ہوٹل کھول کر سیٹنگ کر کے خوب کمائو، کوچوں، کمرشل گاڑیوں، بسوں کے لوگ بھی ناقص، غیر معیاری کھانے کھاتے ہیں۔ اب کونسا ادارہ ان کو صحت مند یا اچھا کھانا دلوائے گا۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ آج کل سالن کے اندر ناقص، غیر معیای گھی تیل ڈالتے ہیں۔ ہڈیوں، چربی، آنتوں کا ناقص گھی، تیل استعمال کرتے ہیں۔ مصالحہ جات ملاوٹ والے استعمال کرتے ہیں۔ آج کل دل کی بیماریاں اسی وجہ سے بڑھ رہی ہیں گردں کا فیل ہونا، جگر، آنتوں، معدے کی بیماریاں جہاں بڑھ رہی ہیں۔ وہاں ناقص اشیا کا استعمال بینائی اور دماغ پر بھی پڑ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چھپرا ہوٹلوں میں کیا کھلایا جارہا ہے۔ اس حوالے سے کوئی ادارہ ذمے داری پوری کرنے پر تیار نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔