عمران خان :
وفاقی کابینہ سے منظوری کے ڈیڑھ برس بعد آخرکار نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی، ایف آئی اے سے علیحدہ ہو کر باقاعدہ وجود میں آگئی۔ ملک بھر میں پیکا ایکٹ کے تحت سائبر کرائمز کے انسداد کے ذمے دار اس نئے ادارے کے لئے وقار الدین سید، ایجنسی کے پہلے ڈی جی کے طور پر چارج سنبھال چکے ہیں۔
آئندہ دو ہفتوں کے اندر ایجنسی کے رولز تیار ہوں گے جن پر کام شروع کردیا گیا ہے۔ اس کے بعد پولیس سمیت ملک بھر سے تمام سائبر کیس، ایجنسی کو منتقل ہوجائیں گے۔ ملک میں سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز، انتہا پسندانہ ، گستاخانہ ، مذہبی و سیاسی منافرت پر مشتمل رویوں کی روک تھام کے لئے اس نئی ایجنسی کا نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی ( نیکٹا ) کے ساتھ اہم اشتراک ہوگا۔ نیکٹا کی رپورٹوں کی روشنی میں ریاست مخالف پراپیگنڈا میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائیاں این سی سی آئی اے سے کروائی جائے گی۔
اطلاعات کے مطابق پاکستان کو سائبر کرائمز کے مقدمات میں مطلوب بیرون ملک موجود عناصر تک رسائی کے لئے بین الاقوامی اداروں سے خط و کتابت کا اختیار رکھنے والے اس ادارے کے پہلے ڈی جی کے سامنے موجود چیلنجز میں سب سے بڑا چیلنج یہ ہوگا کہ وہ اس ادارے کے اندر پیکا رولز کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹرز کی تعلیم سے آشنا افسران کی اہم عہدو ں پر تعیناتی کا راستہ ہموار کرکے سائبر کرائمز کے انسداد کی اس ایجنسی کی افادیت کو یقینی بناسکیں۔ بصورت دیگر روایتی طور پر پولیس رولز کے تحت چلنے والے اداروں کی طرح پی ایس پیز کی بے جا اور اضافی پوسٹنگ سے نئے ادارے کے قیام کا مقصد فوت ہوسکتا ہے۔
موصول دستاویزات اور اطلاعات کے مطابق گزشتہ روز گریڈ بیس کے وقار الدین سید کو نئی قائم کردہ نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی ( این سی سی آئی اے) کا پہلا ڈائریکٹر جنرل تعینات کردیا گیا۔ اس ضمن میں فیڈرل اسٹیبلشنٹ ڈویژن سے باقاعدہ نوٹیفیکشن جاری کیا گیا۔ جس کے بعد عملی طور پر اسلام آباد، پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اورخیبر پختونخواہ میں موجود تمام دو درجن سائبر کرائمز ونگز کے تھانے جو پہلے ایف آئی اے کے سائبر کرائمز ونگ کے سائبر کرائمز رپورٹنگ سینٹر کہلاتے تھے، اب وہ ڈائریکٹوریٹ جنر، نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی( این سی سی آئی ) کے ماتحت آگئے ہیں۔ اس نوٹیفیکیشن کے بعد ماضی کے ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کا تمام اسٹاف ڈی جی ایف آئی اے کے بجائے این سی سی آئی اے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے ماتحت کام کرے گا۔
یہ تحقیقاتی ایجنسی بھی ایف آئی اے کی ہی طرح وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت ہے۔ اس کے ساتھ ہی سائبر ونگ کے تمام مقدمات بھی این سی یس آئی اے کو منتقل ہو گئے ہیں۔ تاہم ادارے میں پوسٹنگ پر موجود ایف آئی اے کے افسران ڈیپوٹیشن پر کچھ وقت کے لئے بدستور این سی سی آئی اے میں تفتیشی افسران کے طور پر کام کرتے رہیں گے جب تک کہ این سی سی آئی اے اپنے ادارے کے تحت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور فارنسک میں مہارت رکھنے والے افسران اور اہلکار بھرتی کرکے اپنے افرادی وسائل میں خود کفالت حاصل نہ کرلے۔ تاہم ڈائریکٹر جنرل کے لئے یہ ایک چیلنج ہوگا ہ وہ اس پروسس کو بغیر کسی دبائو کے جلد از جلد مکمل کرلیں۔
اسلام آباد میں موجود ذرائع کے مطابق آئندہ 2 سے 3 ہفتوں میں ایجنسی کے لئے نیا ڈائریکٹر جنرل منتخب ہونے کے بعد اب بعد ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ ایف آئی اے اسلام آباد ہیڈ کوارٹرز سے باقاعدہ طور پر ختم کرکے نیشنل پولیس فائونڈیشن اسلام آباد کی عمارت میں پہلے سے سائبر کرائم ونگ کے پاس موجود دفتر میں منتقل کردیا جائے گا۔ جس کا کرایہ پہلے سے سائبر کرائمز ونگ کے تحت ہی ادا کیا جاتا ہے اور یہاں ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل سائبر کرائمز ونگ ڈی جی ایف آئی اے کے ماتحت بیٹھا کرتا تھا۔ تاہم سائبر کرائم ونگ کے صوبائی دفاتر اور مختلف شہروں میں قائم تھانے اگلے بجٹ تک بدستور انہی مقامات پر رہیں گے جہاں ابھی موجود ہیں۔
نئے دفاتر کے قیام اور شفٹنگ میں کچھ ماہ لگ سکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایجنسی کے لئے فارنسک اور جدید تفتیش کے نئے آلات کی خریداری اورنئے دفاتر کے قیام کا مرحلہ بھی مکمل کرلیا جائے گا۔ جس کے لئے آئندہ بجٹ میں فنڈز مختص کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت ہیڈ کوارٹرز سمیت دیگر سائبر کرائمز دفاتر میں ایف آئی اے سائبر کرائمز ونگ کے بجٹ سے خریدی گئی گاڑیوں، آلات اور دیگر سامان کی فہرستیں بنائی جا رہی ہیں تاکہ انہیں ایف آئی اے ڈائریکٹوریٹ جنرل سے لے کر نئی ایجنسی این سی سی آئی اے کو جلد از جلد فراہم کردیا جائے۔
ذرائع کے بقول وفاقی حکومت کی جانب سے سائبر کرائمز کی تحقیقات کے لئے علیحدہ سے نیشنل سائبر کرائمز انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈی جی کی تعیناتی کے بعد اس ایجنسی کو چلانے کے لئے انکوائریز اینڈ انویسٹی گیشن رولز کی تیار پر بھی کام شروع کردیا گیا ہے جنہیں اگلے دو ہفتوں کے اندر حتمی شکل دے کر نافذ العمل کردیا جائے گا۔ یہ رولز پیکا ایکٹ دو ہزار سولہ ترمیم دو ہزار پچیس کے کی روشنی میں بنائے جا رہے ہیں جن میں دیگر قسم کے سائبر کرائمز بشمول آن لائن مالیاتی فراڈز، بلیک میلنگ ، ہراسانی ، فحاشی ،گستاخانہ مواد کے پھیلائو کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگو لیٹری کو مد نظر رکھا جا رہا ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ آنے والے دنوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے شخصیات، اداروں اور ریاست کے حوالے سے ہونے والے بے لگام پراپیگنڈے کے پھیلائو پر سخت کارروائیاں ہوں گی۔
این سی سی آئی اے کا تحقیقاتی ادارہ ایکٹ کی شق 29 کے تحت قائم کیا گیا ہے۔ این سی سی آئی اے ایکٹ کے تحت حاصل اختیارات استعمال کرے گی۔ این سی سی آئی اے بین الاقوامی تعاون کے حوالے سے نامزدہ ادارہ ہوگا۔ اس کے تحت پاکستان کو سائبر کرائمز کے مقدمات میں مطلوب بیرون ملک موجود عناصر تک رسائی کے لئے بین الاقوامی اداروں سے خط وکتابت کا اختیار بھی اس ایجنسی کو حاصل ہوگا۔ سائبرکرائم کے حوالے سے ہونے والے تمام جرائم نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی کو بھیجے جائیں گے۔ سائبر کرائم سے متعلق تمام مقدمات اندراج اور پراسیکیوشن این سی سی آئی اے خود کرے گی اور اس کے اپنے تھانے ہوں گے۔ افسران کو سائبر کرائمز سے متعلق خصوصی تربیت دی جائے گی۔ ملک بھرمیں سوشل میڈیا اور ایپس سے متعلق تمام معاملات بھی این سی سی آئی اے دیکھے گی۔
اطلاعات کے مطابق سائبر کرائمز کے انسداد اور سوشل میڈیا کی سرگرمیوں کو ریگو لیٹ کرنے کے لئے اس نئی تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی کوششیں دو ہزار تیئیس میں شروع کردی گئی تھیں جس کے بعد مختلف سفارشات کی روشنی میں دو ہزار چوبیس میں جنوری کے مہینے میں عبوری حکومت میں کابینہ سے اس کی منظوری لے لی گئی تھی۔ تاہم بعد ازاں نئی حکومت آنے کے بعد پانچ ماہ تک یہ معاملہ التواء میں چلاگیا تھا۔ تاہم دو ہزار چوبیس کے مئی کے مہینے میں ایجنسی کے قیام کا مجوزہ اعلان کیا گیا۔ تاہم اس کے بعد بھی بجٹ کے معاملات کی وجہ سے اس کا گزٹ نوٹیفیکیشن جاری نہ ہوسکا۔
تاہم دو ہزار چوبیس میں ستمبر کے مہینے میں بالآخر اس ایجنسی کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ لیکن اس کے لئے ڈائریکٹر جنرل کی تعیناتی کرکے ایف آئی اے سے انتظامی طور پر علیحدہ کرنے میں مزید سات ماہ لگ گئے اور اب جا کر اس نئی ایجنسی کے ڈی جی کی تعیناتی عمل میں لائی گئی ہے۔ تاہم اس دوران سات ماہ کی آخری تاخیر کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ پیکا ایکٹ میں ہونے والی ترمیم کا تنازع شامل رہا ہے جس پر اپوزیشن جماعتوں سمیت صحافتی ، سماجی اور وکلا کے ایک بڑے طبقے کو شدید تحفظات رہے ہیں جس کا اظہار ملک بھر میں صحافی تنظیموں کی جانب سے احتجاج کی صورت میں بھی سامنے آچکا ہے۔ تاہم اس کے باجود اس کو موجودہ وقت میں ریاستی سلامتی کی ضرورت قرار دے کر ایوان سے منظور کرلیا گیا۔
اسی کے تحت اب یہ نئی ایجنسی آزادانہ طور پر اپنے پاس موجود قانون اور رولز کی روشنی میں انکوائریوں اور کیسوںپر کام کرے گی جس کے تفتیشی افسران کو پہلے سے زیادہ اختیارات حاصل ہوںگے۔ اس نئی ایجنسی کے قیام کا گہرا تعلق ملک کی حالیہ صورتحال سے منسلک ہے جس میں سوشل میڈیا پر ریاست اور ملکی اداروں کے خلاف منفی مہم زوروں پر ہے اور ریاستی ادارے اس بات پر متفق ہیں کہ پراپیگنڈا کے ذریعے ملک اور ریاست کو نشانہ بنانے کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا وقت آچکا ہے۔