ڈاکٹر آصف جاہ۔درد سے درماں تک

تحریر۔علامہ عبد الستار عاصم

پاکستان کی تاریخ، اگرچہ نشیب و فراز سے بھرپور اور محرومیوں سے آشنا رہی ہے، مگر اس کے دامن میں کچھ ایسی روشن کرنیں بھی چمکتی ہیں جن کی ضیاء سے نہ صرف ماضی کا اندھیرا روشن ہوتا ہے،بلکہ حال کی دھند اور مستقبل کی بےیقینی بھی اجالا پکڑتی ہے۔ ہم نے تاریخ کے کئی سنگلاخ مرحلے دیکھے، سیاسی بحرانوں سے لے کر معاشی زبوں حالی تک، مگر ہر تاریکی میں ایک ایسا چراغ ضرور روشن ہوا جس نے امید کی لو کو بجھنے نہ دیا۔
یہ چراغ وہ شخصیات تھیں جو قدرت کی طرف سے اس دھرتی کو بطور تحفہ عطا ہوئیں۔ یہ وہ ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنے قول و فعل، کردار و عمل اور علم و فن سے اس قوم کو جینے کا سلیقہ سکھایا۔ ان کا وجود محض انسان کا نہیں، بلکہ ایک نظریہ، ایک پیغام، اور ایک تحریک تھا۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کسی صلے، کسی ستائش یا شہرت کی طلب کے بغیر ملک و قوم کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
ان میں کچھ نامور ادیب تھے، جن کے قلم نے قوم کی روح کو بیدار کیا۔ کچھ بے مثال معلم و محقق، جنہوں نے علم کے دریچے کھولے۔ کچھ مایہ ناز سائنسدان، جنہوں نے جدید تحقیق کی دنیا میں پاکستان کا نام بلند کیا۔ کچھ ایسے سپاہی اور جرنیل بھی تھے جنہوں نے سرحدوں کی حفاظت کو اپنی سانسوں کا قرض جانا، اور اپنی جان نچھاور کر دی۔ کچھ ایسی باحیا اور باکردار خواتین بھی تھیں جنہوں نے گھروں میں تربیت اور معاشرے میں وقار کی شمعیں جلائیں۔
یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے وطن کو محض ایک جغرافیہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ سمجھا۔ انہوں نے لفظ "پاکستان” کو صرف ایک نام نہیں بلکہ ایک مقصد، ایک نظریہ، اور ایک ذمہ داری کے طور پر اپنایا۔ انہوں نے ملک کے لیے سوچا، جیا، اور یہاں تک کہ جان دی لیکن ان کی فکری روشنی اور خدمات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان ہستیوں کی عظمت کو تسلیم کرنا صرف عوام کی سطح تک محدود نہ رہا۔ ان کی قابلیت، نیک نیتی اور خلوص نے خود حکومتی ایوانوں کو بھی مجبور کیا کہ ان کی خدمات کا اعتراف کریں۔ ان کے لیے تمغے دیے گئے، یادگاریں بنیں، مگر ان کا اصل انعام لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت اور احترام کی صورت میں محفوظ رہا۔
ان شخصیات کا ذکر کرنا فقط تاریخ کی ورق گردانی نہیں، بلکہ ایک ذمہ داری بھی ہے تاکہ ہم جان سکیں کہ جن لوگوں نے یہ مٹی سنواری، ان کی روشنی کیسے باقی رکھنی ہے۔ ہمیں یہ سیکھنا ہے کہ سچے جذبے، بےلوث خدمت اور خالص نیت کے ساتھ کام کیا جائے تو قوموں کا مقدر سنوارا جا سکتا ہے۔
ایسی ہی نادر ہستیوں میں ایک ڈاکٹر آصف محمود جاہ ہیں
ڈاکٹر آصف محمود جاہ… ایک ایسا نام جو صرف حروف کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانیت، ایثار، قربانی، درد مندی اور بے لوث خدمت کی ایک چلتی پھرتی تفسیر ہے۔ ان کے چہرے پر جو روشنی دکھائی دیتی ہے، وہ کسی مصنوعی مسکراہٹ کی پیداوار نہیں بلکہ دل کے اندر اترے ہوئے اخلاص، خلوص اور انسان دوستی کا عکس ہے۔ ان کی شخصیت ایسی تابندہ ستارے کی مانند ہے جو ہر وقت روشنی بکھیرتا ہے، مگر خود کبھی روشنی کا طلبگار نہیں ہوتا۔ وہ ایک ایسا ہیرا ہیں جس کی چمک دوسروں کو اجالا دیتی ہے، مگر کبھی خود نمائی کا شوق اس کے قریب تک نہیں آتا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی زندگی کے اوراق کو پلٹیے تو ہر صفحے پر درد کی ایک کہانی، امید کی ایک کرن اور خدمت کی ایک داستاں رقم نظر آتی ہے۔ ان کے لیے زندگی صرف جینا نہیں بلکہ دوسروں کے لیے جینا ہے۔ ان کے شب و روز کا نصب العین، انسانیت کی خدمت، غمزدوں کے چہروں پر مسکراہٹ لانا اور مصیبت زدگان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہے۔ ان کے نزدیک اپنی ذات، اپنا خاندان یا اپنی آسائشیں کبھی ترجیح نہیں بنیں۔ وہ اپنے بچوں سے زیادہ ان یتیم بچوں کے بارے میں سوچتے ہیں جن کے سروں پر سایہ نہیں رہا، وہ اپنے آرام سے زیادہ ان بے سہارا بزرگوں کی نیند کی فکر کرتے ہیں جنہیں کوئی سہارا میسر نہیں۔


خیبر سے کراچی تک، کشمیر سے تھرپارکر تک، کوہستان سے بلوچستان کے ریگزاروں تک، اور پھر پاکستان سے باہر، لبنان، شام، فلسطین، سوڈان اور ترکی تک جہاں جہاں انسانیت سسکی، جہاں جہاں درد نے آواز دی، وہاں وہاں ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنے ساتھیوں سمیت پہنچے۔ ان کے قدم رکنا نہیں جانتے، ان کی ہمت تھکنا نہیں جانتی، ان کی محبت بانٹنے سے کم نہیں ہوتی۔
ترکی کا زلزلہ ہو یا سیلاب زدہ علاقے، جنگ زدہ پناہ گزین ہوں یا غربت کی چکی میں پسنے والے پاکستانی، ڈاکٹر صاحب ان کے لیے صرف ایک مسیحا نہیں بلکہ امید کی آخری شمع بن کر سامنے آتے ہیں۔ ترکی میں آنے والے شدید زلزلے کے بعد جب تباہی ہر سمت بکھری ہوئی تھی، جب انسانیت سسک رہی تھی، جب بے شمار آنکھیں سوال بن کر آسمان کی جانب اٹھ رہی تھیں، اس وقت بھی وہی مرد درویش، اپنی چھٹیوں کی پروا کیے بغیر، اپنا مال و متاع ساتھ لے کر وہاں جا پہنچا۔ وہ دفتری فائلوں کی دنیا سے نکل کر خیموں، ملبے اور روتے بچوں کی دنیا میں قدم رکھتا ہے، اور ان کے لیے راتوں کی نیند اور دن کا سکون قربان کر دیتا ہے۔
یہ صرف ان کا ذاتی جذبہ نہیں، بلکہ ایک ایسی مقناطیسی شخصیت کا اثر ہے کہ ان کے گرد اہل خیر خود جمع ہو جاتے ہیں۔ جو شخص کبھی اپنی جیب سے ہر ماہ اپنی جمع پونجی نکال کر فلاحی کاموں پر لگاتا ہو، جو اپنی تنخواہ سے زیادہ دوسروں کی ضرورتوں کو اہمیت دیتا ہو، اس پر اعتماد کیوں نہ ہو؟ ان کے دوست، محسن، ہم خیال اور ہمدرد ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے ایک اشارے پر کارواں رواں ہو جاتے ہیں، دنوں کا کام گھنٹوں میں اور کروڑوں کا کام صرف ایک اعلان سے مکمل ہو جاتا ہے۔ گویا ربِ کریم ان کی نیت کے اخلاص کو اتنی برکت عطا کرتا ہے کہ ذرہ بھی آفتاب بن جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی خدمات کا دائرہ صرف میڈیکل کیمپوں تک محدود نہیں۔ وہ تعلیم، خوراک، رہائش، لباس، حتیٰ کہ حوصلہ اور ہمدردی جیسے غیر محسوس مگر قیمتی جذبوں کو بھی تقسیم کرتے ہیں۔ ان کی مسکراہٹ ہی ان کی سب سے بڑی دوا ہے، ان کا لہجہ ہی ایک تسکین بخش نسخہ ہے، اور ان کا وجود ہی زندگی کی نوید ہے۔ وہ جہاں بھی جاتے ہیں، وہاں صرف دوا نہیں دیتے، دعا بھی لے کر آتے ہیں، اور جب واپس لوٹتے ہیں تو پیچھے امید کے چراغ جلا جاتے ہیں۔
ان کے شب و روز کا ایک ایک لمحہ انسانیت کی خدمت میں گزرتا ہے۔ وہ کسی این جی او کے نمائندے نہیں، کسی فنڈ ریزنگ ادارے کے سی ای او نہیں، وہ ایک درد دل رکھنے والےپاکستانی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کا ہر لمحہ ان لوگوں کے لیے وقف کر دیا ہے جنہیں زندگی نے سہارا دینا بھلا دیا تھا۔ وہ نہ صرف جسموں کے معالج ہیں بلکہ روحوں کے بھی مسیحا ہیں۔
ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ چراغ جو ہر طوفان میں جلتا رہے، وہ دریا جو ہر پیاسے کو سیراب کر جائے، وہ دعا جو ہر محروم کی زبان پر خود بخود آ جائے،ڈاکٹر آصف محمود جاہ انہی میں سے ایک ہیں۔ وہ خدمت کے اس قافلے کے سالار ہیں جو منزلوں کی طلب میں نہیں، راہوں کے ساتھیوں کی راحت میں خوش رہتے ہیں
ان کی زندگی کا آغاز ایک سادہ مگر باوقار پس منظر سے ہوا۔ وہ پنجاب کے معروف اور زرخیز خطے سرگودھا میں پیدا ہوئے، جہاں کے کھیتوں میں محبت اگتی ہے اور گلیوں میں خلوص بستا ہے۔ ان کے والد ایک دیندار اور متقی انسان تھے جن کا رجحان ہمیشہ دین کی طرف رہا۔ ان کی تربیت ایک ایسے ماحول میں ہوئی جہاں علم کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور دین داری کو بھی بڑی اہمیت حاصل تھی۔
تعلیم کا آغاز انہوں نے ایک نہایت سادہ اور بنیادی سطح کے سکول، خالقیہ پرائمری سکول سے کیا، جہاں بچے ٹاٹوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب سہولیات محدود تھیں، مگر علم کی پیاس بے پناہ تھی۔ انہی ابتدائی دنوں میں ان کی ذہانت، سنجیدگی اور لگن نے یہ عندیہ دینا شروع کر دیا تھا کہ یہ بچہ عام نہیں، کچھ خاص ہے۔
میٹرک کے لیے وہ سرگودھا کے ممتاز تعلیمی ادارے امبالہ مسلم ہائی سکول میں داخل ہوئے۔ یہاں بھی ان کی کارکردگی مثالی رہی۔ انھوں نے ہر امتحان میں امتیازی نمبر حاصل کیے اور اپنے اساتذہ کی آنکھ کا تارا بنے رہے۔ اس کے بعد ایف ایس سی کے لیے انہوں نے گورنمنٹ کالج سرگودھا کا رخ کیا، جو کہ اس وقت علمی و ادبی سرگرمیوں کا گہوارہ سمجھا جاتا تھا۔ یہاں ان کی محنت نے نئی رفعتیں چھوئیں، اور انہوں نے سرگودھا بورڈ میں دوسری پوزیشن حاصل کی، جو اس وقت ایک غیر معمولی کامیابی شمار ہوتی تھی۔
ایف ایس سی میں شاندار کارکردگی کے بعد ان کے لیے پاکستان کے سب سے باوقار اور تاریخی میڈیکل ادارے، کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) کے دروازے کھل گئے۔ وہاں داخلہ محض کامیابی نہیں، بلکہ ایک خواب کی تعبیر ہوا کرتا تھا۔ انہوں نے اس خواب کو حقیقت بنایا اور نہ صرف اس ادارے میں داخلہ لیا بلکہ وہاں بھی نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ دورانِ تعلیم ان کا رجحان صرف کتابوں تک محدود نہ رہا بلکہ رفتہ رفتہ ان کے دل میں خدمت خلق کا ایک مضبوط اور سچا جذبہ پرورش پانے لگا۔ خاص طور پر تیسرے یا چوتھے سال کے دوران، جب ایک طالبعلم عملی طور پر مریضوں سے رابطے میں آتا ہے، ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے دل میں دکھی انسانیت کی خدمت کا چراغ روشن ہوا۔ یہ چراغ پھر کبھی بجھا نہیں۔
ڈاکٹری کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ان کے کیریئر کا نیا باب شروع ہوا۔ انہوں نے کسٹمز کے محکمے کا انتخاب کیا، اور یوں وہ صرف ایک طبیب نہ رہے بلکہ ایک ذمہ دار سول سرونٹ بن گئے۔ لیکن یہاں بھی ان کی فطرت کی اصلی جہت، یعنی خدمتِ خلق کا جذبہ مزید مضبوط ہو چکا تھا۔ انہیں محسوس ہوتا تھا کہ اللہ نے انہیں ایک ایسا مقام عطا کیا ہے جہاں وہ مزید لوگوں کے کام آ سکتے ہیں، اور زیادہ بڑے پیمانے پر فلاحی منصوبے چلا سکتے ہیں۔
1997ء کے آخر میں ان کی ٹرانسفر لاہور ہو گیا۔ لاہور، جہاں ترقی، وسائل اور مواقع کے دروازے زیادہ کھلے تھے، وہیں درد و دکھ کی بستیاں بھی آباد تھیں۔ لاہور کی گلیوں، اسپتالوں، جھونپڑیوں، اور پناہ گزین بستیوں میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں کو انسانیت کے نفع کے لیے وقف کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ان کے جذبے کو عملی شکل ملنے لگی، اور ان کی شخصیت ایک نئے باب میں داخل ہوئی،جہاں ایک سول سرونٹ اور ڈاکٹر کا امتزاج ایک سماجی رہنما، ایک فلاحی کارکن، اور ایک مخلص انسان دوست کی صورت اختیار کر گیا۔
یہ سفر جو ٹاٹ والے سکول سے شروع ہوا، کنگ ایڈورڈ کی سیڑھیاں چڑھتا ہوا، کسٹمز آفیسر کے دفتر تک پہنچا، آخرکار ان گلیوں، بستیوں اور میدانوں میں جا پہنچا جہاں زندگی زخم خوردہ تھی، اور کسی مسیحا کی منتظر۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ نے اپنی زندگی کو صرف کامیابی کے ترازو میں نہیں تولا، بلکہ اسے خدمت، قربانی اور ایثار کی میزان میں پرکھا—اور یہی وہ پیمانہ ہے جس نے ان کی شخصیت کو ایک مثالی کردار میں ڈھال دیا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کے فلاحی سفر کی داستان ایک مسجد کے سادہ سے کمرے سے شروع ہو کر پوری دنیا میں پھیلنے والی روشنی کی کہانی ہے۔ سن 1998ء کی بات ہے، لاہور کے ستلج بلاک، علامہ اقبال ٹاؤن کی نورانی مسجد میں مغرب کی نماز کے بعد وہ ایک چھوٹے سے کمرے میں بیٹھ کر مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے۔ وہ مسجد کلینک ان کی بے لوث خدمت کا پہلا پڑاؤ تھا۔ دن کو سرکاری ذمہ داریوں میں مصروف رہتے اور شام کو مسجد کے گوشے میں بیٹھ کر مسیحا بن جاتے۔ اسی دوران قلم بھی رواں دواں رہا—1996ء میں ان کی دوسری کتاب "ہیلتھ کیئر” منظر عام پر آئی، جو ان کے علم، مشاہدے اور درد مندی کا عکس تھی۔
پھر ایک تربیتی کورس کے سلسلے میں جاپان جانے کا موقع ملا۔ وہ سفر ایک نئی کتاب کی صورت اختیار کر گیا—1998ء میں "سورج دیوتا کے دیس میں” کے عنوان سے وہ یادداشتیں قارئین کے سامنے آئیں۔ زندگی کی رفتار تیز ہوتی گئی۔ کچھ عرصہ لاہور ایئرپورٹ پر تعیناتی رہی، جہاں بڑے بڑے سمگلروں کا سامنا ہوا۔ یہاں ڈاکٹر صاحب نے نہ صرف اپنی ایمانداری کا لوہا منوایا بلکہ بے شمار بڑے کیسز کی روک تھام کی۔ ایک موقع پر تو پچیس کلو سونا پکڑا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا فلاحی کام بھی پوری دلجمعی سے جاری رہا۔
سن 2000ء میں ان کی تعیناتی ڈرائی پورٹ پر ہو گئی۔ یہ وہ وقت تھا جب ان کی خدمت کا دائرہ محض لاہور تک محدود نہ رہا۔ کشمیر میں قدرتی آفات نے جب تباہی مچائی، تو وہ اپنے قافلے سمیت وہاں پہنچے۔ متاثرین کی امداد، علاج، اور بعد ازاں بحالی کے لیے انہوں نے دن رات ایک کر دیے۔ زیارت میں زلزلہ آیا، تو سب سے پہلے ان کی ٹیم وہاں پہنچی اور پچاس سے زائد سٹیل کے مضبوط گھر تعمیر کیے۔ اس دوران ایک اور کتاب نے جنم لیا: "زلزلہ، زخم اور زندگی”۔ یہ کتاب صرف الفاظ کا مجموعہ نہیں، بلکہ آنکھوں سے دیکھے گئے دکھ، چہرے پر اترتے زخم، اور دل میں چبھتے نوکیلے لمحوں کی ترجمان تھی۔
اسی خدمت کے سفر میں ایک ٹیم وجود میں آئی—شروع میں صرف لاہور کی سطح پر محدود تھی، مگر آہستہ آہستہ دلوں کے دروازے کھلتے گئے، لوگ جڑتے گئے، اور فلاحی قافلہ پورے ملک تک پھیل گیا۔ 2006ء تک جو کلینک ایک کمرے میں تھا، وہ اب ایک باقاعدہ گھر میں منتقل ہو چکا تھا، جہاں باقاعدگی سے مریضوں کا علاج ہوتا۔
پھر آیا 2009ء کا سال—جب سوات میں دہشت گردی اور آپریشن کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے۔ مئی کا مہینہ تھا، اور مردان، صوابی، کاٹلنگ جیسے علاقوں میں تیس لاکھ افراد مہاجر بن کر آ بسے۔ اس انسانی المیے نے سب کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ ڈاکٹر آصف محمود جاہ اپنی ٹیم کے ساتھ کئی ٹرک سامان بھر کر مردان پہنچے۔ وہاں سب سے بڑا مسئلہ حاملہ خواتین کی طبی نگہداشت کا تھا، جس پر کسی کی توجہ نہیں گئی تھی۔ انہوں نے مردان کے قریب ایک مکمل میٹرنٹی ہوم قائم کیا۔ وہیں ایک دن ایک بچہ پیدا ہوا، اور اظہارِ تشکر کے طور پر اس کا نام "آصف خان” رکھا گیا۔ یہ ایک علامت تھی—کہ زندگی، امید اور خدمت کا سلسلہ جاری ہے۔
اس بحران پر اقوامِ متحدہ کی رپورٹس آئیں کہ پاکستان کی معیشت تباہ ہو جائے گی، مہاجرین واپس نہیں جائیں گے، مگر حیرت انگیز طور پر وہ سب جولائی تک اپنے گھروں کو لوٹ گئے۔ اس عظیم انسانی خدمت کی روداد ڈاکٹر صاحب نے کتاب "سوات، ہجرت اور خدمت” میں رقم کی، جو اس دور کی تصویر اور ان کے جذبے کی صدا ہے۔

ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی فلاحی خدمات کا دائرہ نہ صرف وسیع ہوتا گیا بلکہ جہاں ایک بار قدم رکھ دیا، وہاں خدمت کا چراغ روشن ہو گیا جو پھر کبھی بجھا نہیں۔ ان کے قائم کردہ مراکز محض وقتی امدادی کیمپ نہیں، بلکہ مستقل بنیادوں پر کام کرنے والے فلاحی ادارے بن چکے ہیں۔
سن 2015ء میں چترال میں شدید سیلاب آیا۔ وادی کیلاش اور خاص طور پر بمبوریت کی سڑکیں مکمل طور پر تباہ ہو چکی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنی ٹیم کے ساتھ اس دشوار گزار علاقے میں داخل ہونے کا فیصلہ کیا۔ سامان گدھوں پر لادا، کئی میل کا سفر پیدل طے کیا، اور جب تھک گئے تو کچھ فاصلہ گدھوں پر بیٹھ کر طے کیا۔ وہاں انہوں نے نہ صرف کافری قبیلے کو گھروں کی فراہمی یقینی بنائی بلکہ بمبوریت میں ایک شاندار مسجد بھی تعمیر کروائی۔ اس کے بعد ایک اور مسجد اور ایک کمیونٹی سنٹر کا قیام عمل میں آیا۔ آج چترال کی مختلف وادیوں میں ان کے چھ کلینکس کام کر رہے ہیں۔ رمضان اور عیدین کے مواقع پر باقاعدہ ریلیف سرگرمیاں جاری رہتی ہیں، اور قربانی کے موقع پر ہر گاؤں میں جانور ذبح کیے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر صاحب کی خدمت کا دائرہ کسی مذہب یا نسل تک محدود نہیں۔ انہوں نے جہاں جہاں ضرورت محسوس کی، وہاں پہنچ کر بلا امتیاز انسانیت کی خدمت کی۔ وہ گرجا گھروں میں بھی گئے اور عیسائی برادری کو بھی امداد فراہم کی۔ 2013ء میں بلوچستان کے علاقے آواران میں زلزلہ آیا—ایک ایسا خطہ جہاں علیحدگی پسندوں کی اکثریت تھی۔ ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ آپ وہاں نہ جائیں، کیونکہ حالات خطرناک تھے۔ اسی دوران ایک میجر جنرل کے ہیلی کاپٹر پر حملہ بھی ہو چکا تھا۔ مگر ڈاکٹر صاحب اپنے مشن سے پیچھے نہ ہٹے اور چند ساتھیوں کے ساتھ آواران پہنچ گئے۔
وہاں کی حالت دیکھ کر دل دہل گیا—غربت کی انتہا، اجڑے گھر، مسمار شدہ مساجد، اور پچاس کلومیٹر کا فاصلہ چھ گھنٹوں میں طے ہوتا۔ وہ ایک مسجد میں قیام پذیر رہے اور فیصلہ کیا کہ یہاں کے لوگوں کو گھروں کی چھتیں دیں گے۔ لوگوں کے تعاون سے پکے گھر بنائے گئے۔ ابتدا میں جن لوگوں کو پنجابیوں کا ذکر بھی گوارا نہ تھا، وہی اب ڈاکٹر صاحب کو کھانا پیش کرنے کے لیے بے تاب رہتے۔ جب واپسی کا وقت آیا تو گاؤں کے لوگ آبدیدہ ہو گئے اور "پاکستان زندہ باد” کے نعرے لگا کر ان کی رخصتی کی۔ یہی وہ گاؤں تھا جہاں پہلے دیواروں پر پاکستان مخالف نعرے درج تھے، اور 14 اگست و یومِ قائداعظم کو یومِ سیاہ کے طور پر منایا جاتا تھا۔ وہاں کے اسکولوں میں "بلوچستان کی آزادی” کے نغمے گائے جاتے تھے—لیکن خدمت نے دلوں کو بدل دیا۔
اسی جذبے کے ساتھ 2014ء میں وہ تھر کے ان علاقوں میں پہنچے، جہاں بچوں کی اموات کی خبریں میڈیا پر چھائی ہوئی تھیں۔ ہرنگر اور ہرگوٹھ جیسے دور دراز گوٹھوں میں ان کی ٹیم پہنچی۔ اب تک تھر میں وہ میٹھے پانی کے سات سو کے قریب کنویں کھدوا چکے ہیں۔ پہلے یہ کنویں ہاتھ سے چلنے والے طریقے پر بنائے گئے، بعد میں سولر پینلز کے ذریعے جدید سسٹم سے پانی فراہم کیا جانے لگا۔ ڈاکٹر صاحب کا مشن صرف ریلیف فراہم کرنا نہیں بلکہ تھر کو سرسبز، شاداب اور باوقار بنانا ہے۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی خدمت کا کارواں اب پاکستان تک محدود نہیں تھا بلکہ انسانیت کی پکار جہاں سے بھی آئی، وہ وہاں پہنچے۔ سن 2016ء کے آخر میں ایک قریبی دوست ترکی سے ملنے آئے اور انہوں نے شام کے مہاجرین کی دردناک صورتحال بیان کی۔ ان کی باتوں نے دل میں ہلچل مچا دی، چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے فوراً ترکی کا سفر اختیار کیا۔ وہاں انہوں نے شام سے آئے مظلوم مسلمانوں کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ ’عرفہ‘ کے مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا، جہاں بے سروسامانی کے عالم میں زندگی گزارنے والے لوگ موجود تھے۔
ڈاکٹر صاحب نے ترکی کے جذبۂ انسانیت کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ترک حکومت نے شامی مہاجرین کو صرف پناہ نہیں دی بلکہ انہیں مکمل شہری سہولیات فراہم کیں۔ وہ انہیں اپنے جیسا سمجھتے اور رکھتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی ٹیم نے بھی ان مظلوموں کے لیے کام کیا۔ پاکستان سے لوگوں نے دل کھول کر عطیات دیے، اور بہت سا امدادی سامان کنٹینروں کے ذریعے ترکی بھیجا گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ 2010ء کے بعد جب بھی کہیں کوئی قدرتی آفت آتی، لوگ سوال کرنے لگتے کہ "آپ کی ٹیمیں اب تک کیوں نہیں پہنچی؟” یہ اس اعتماد کی علامت تھی جو قوم نے ان کے مشن پر کر لیا تھا۔ اب ان کی فلاحی ٹیمیں باقاعدہ منظم ہو چکی ہیں، ہر شعبے میں کام کی ذمہ داریاں تقسیم ہیں اور ہر آفت کے وقت فوری رسپانس دیا جاتا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بقول 2005ء کے زلزلے کے وقت ان کے بچے بہت چھوٹے تھے، لیکن ان کی اہلیہ نے مثالی کردار ادا کیا۔ ان کی فلاحی سرگرمیوں میں ہمیشہ پیچھے سے مضبوط سہارا بنی رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے بچوں کو بھی ساتھ لے جا کر زلزلہ زدہ علاقوں کی حالت دکھائی، تاکہ وہ بھی انسانیت کی خدمت کے جذبے سے آشنا ہوں۔
آج ملک بھر میں ان کے ادارے کی 36 ڈسپنسریاں کام کر رہی ہیں، جہاں ہزاروں مریضوں کو مفت طبی سہولیات دی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ 10 اسکول ایسے ہیں جہاں بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کی جاتی ہے۔ خواتین کے لیے ’اپنا روزگار‘ کے نام سے ایک شاندار سکیم شروع کی گئی ہے۔ اس میں خواتین کو کڑھائی، سلائی اور دیگر ہنر سکھائے جاتے ہیں، اور سیکھنے کے بعد انہیں سلائی مشینیں فراہم کی جاتی ہیں تاکہ وہ باعزت روزی کما سکیں۔
تھر کے صحرا میں بھی خدمت کی فصل لہلہا رہی ہے۔ ’تھرگرین‘ کے نام سے ایک منصوبہ جاری ہے، جس کے تحت اب تک تقریباً 30 فارم قائم کیے جا چکے ہیں اور 70 ایکڑ اراضی پر سبزیاں، گندم اور دیگر فصلیں کاشت کی جا رہی ہیں۔ مزید 10 سے 12 ایکڑ زمین کو آباد کرنے کا عمل بھی جاری ہے۔
یہ سب کچھ محض خدمت کا عمل نہیں، بلکہ ایک سوچ ہے—وہ سوچ جو بکھرے ہوئے انسانوں کو جوڑتی ہے، بھوکے کو کھانا دیتی ہے، بیمار کو دوا، اور بے آسرا کو سہارا۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کی زندگی کا ہر پہلو عشقِ رسول ﷺ اور انسانیت سے محبت کی جھلک پیش کرتا ہے۔ وہ خود فرماتے ہیں کہ ان کی اصل انسپائریشن رسول اکرم ﷺ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اسی جذبے نے انہیں ایک سرکاری افسر ہونے کے باوجود ایک ہمہ جہت فلاحی کارکن بنا دیا۔
ڈاکٹر آصف کے والد ایک استاد تھے، جنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت علم، اخلاق اور خدمتِ خلق کی بنیاد پر کی۔ آج بھی ان کے والدین حیات ہیں، جو ان کی کامیابیوں پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ان کے آٹھ بہن بھائی ہیں، جن میں سے ایک بھائی ڈاکٹر ہیں، دوسرا پروفیسر، ایک بھائی نجی ملازمت سے وابستہ ہے اور ایک کا اپنا کاروبار ہے۔ تین بہنیں بھی ہیں، جن میں سے ایک درس و تدریس کے شعبے میں خدمات انجام دے رہی ہیں۔
ڈاکٹر آصف محمود جاہ کا ایک اور نمایاں پہلو ان کی ادبی خدمات ہیں۔ وہ اب تک 26 کتابوں کے مصنف ہیں، جن میں زندگی کے مشاہدات، انسانی درد، سفرنامے اور فلاحی کاموں کے تجربات قلمبند کیے گئے ہیں۔
حکومتِ پاکستان نے ان کی بے مثال خدمات کو سراہتے ہوئے 2016ء میں انہیں "ستارۂ امتیاز” سے نوازا، اور پھر 2020ء میں ملک کا ایک بڑا سول اعزاز "ہلالِ امتیاز” بھی ان کے حصے میں آیا۔ ان ایوارڈز سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ایک سرکاری افسر ہونے کے باوجود وہ سماجی خدمات میں ایک مثالی کردار ادا کر رہے ہیں—ایسا کردار جو رہنمائی کا مینار بن چکا ہے۔
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں عبد الستار ایدھی کے بعد سب سے ذیادہ فلاحی کام ان کا ہے ڈاکٹر صاحب کی زندگی کا مشن اس شعر کی عملی تفسیر ہے
خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کو لمبی زندگی دے تاکہ وہ اسی طرح دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہیں
آمین