نواز طاہر:
پنجاب میں کوٹ ادو مظفر گڑھ کے گائوں میں بچوں کے فحش ویڈیوز (چائلڈ پورنوگرافی) نیٹ ورک کا انکشاف، ایک مقامی غریب محنت کش خاندان کے راتوں رات خوش حال ہونے اور ان کے یہاں ’گورے‘ مہمان کے آنے جانے کے باعث ہوا۔ اس مذموم دھندے کی پول مخبری اور غیر ملکی شہری کی سیکیورٹی سرویلنس سے کھلی اور پھر مکمل معلومات حاصل ہونے پر قانون نافذ کرنے والے مختلف اداروں کی بھاری جمعیت نے نصف شب چھاپہ مار کر چار بچوں اور مرکزی کردار کو گرفتار کر لیا۔
ابتدائی طور پر انہیں ملتان منتقل کیا گیا اور اب ذرائع کا کہنا ہے کہ تمام ملزمان کو اسلام آباد منتقل کردیا گیا جہاں تفتیشی عمل جاری ہے۔ سرکاری طور پر تو اب تک دو افراد کی گرفتاری ظاہر کی گئی ہے۔ تاہم ذرائع کا خیال ہے کہ زیر حراست افراد کی تعداد اس سے زیادہ ہو سکتی ہے۔
یاد رہے کہ دو روز قبل اس گھنائونے دھندے میں ملوث افراد کی گرفتاری کا باقاعدہ اعلان داخلہ امور کے وزیر مملکت طلال چودھری نے اسلام آباد میں نیشنل کرائمز اینڈ انویسٹی گیشن ایجنسی کے ڈائریکٹرجنرل سید وقار الدین کے ساتھ پریس کانفرنس میں کیا تھا۔ جبکہ اس سے پہلے یہ معاملہ میڈیا اور خاص طور پرسوسل میڈیا پر وائرل بھی ہوچکا تھا۔ تاہم سرکاری اعلان مزید کارروائی اور گرفتاریوں کے بعد کیا گیا۔
کوٹ ادو پولیس سرکل کے تھانہ دائرہ دین پناہ کے قریبی اڈہ بہار کے چک نمبر ایک سو چھالیس کے مکین بتاتے ہیں کہ گذشتہ مہینے بائیس اور تئیس مئی کو ان کے گائوں میں پولیس اتنی بڑی تعداد اور گاڑیاں دیکھی گئیں جیسے کسی فلم کا منظر ہو۔ انہوں نے اتنی بڑی تعداد میں اور آپریشن کا منظر پہلے فلموں میں ہی دیکھا تھا۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے شفیع کھوسہ کے گھر کا محاصرہ کیا تو زیادہ تر گائوں والوں کا خیال تھا کہ کسی بڑے ڈاکو، جاسوس یا دہشت گرد کو پکڑا گیا ہے۔
لیکن یہاں سے شفیع کھوسہ کے بیس سالہ بیٹے جنید کو گرفتار کیا گیا تھا جو ان کے لئے ایک حیرانی والی بات تھی کہ ایک لڑکے کو گرفتار کرنے کے اتنا بڑا آپریشن کیا گیا۔ ان کے لئے شفیع کھوسہ کے بیٹے کی سرگرمیاں پہلے سے مشکوک تھیں، خاص طور پر وہاں ایک ’گورے‘ کے آنے جانے سے جنید، گائوں کے لوگوںکی نظر میں تھا۔ آپریشن کے بعد معلوم ہوا کہ یہاں بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا تھا جو انٹرنیٹ پر (ڈارک ویب ) پر نشر کیا جاتا۔ اس سے پہلے گائوں کے کچھ لوگوں میں جنید کی بچوں کے ساتھ غیر اخلاقی حرکات کی چہ میگوئیاں عام تھیں۔ لیکن کسی کے پاس نہ تو ثبوت تھا اور نہ ہی کوئی اس ضمن میں مزاحمتی کردار ادا کرتا تھا۔ خاص طور پر جنید کے گھر گورے (جرمن باشندے) کے آنے جانے کے باعث اسے بااثر بھی سمجھا جانے لگا تھا اور اس گھرانے کی مالی حیثیت بھی مستحکم ہوچکی تھی۔
چک نمبر ایک سو چھالیس اور کوٹ ادو سے ’’امت‘‘ کو حاصل معلومات کے مطابق جنید کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ آل لائن کام کرتا ہے جس سے اچھی خاصی کمائی ہوجاتی ہے۔ لیکن آپریشن کے بعد ا گلے روز انہیں معلوم ہوا کہ درحقیقت جنید ایک مکروہ دھندہ کرتا تھا۔ اگرچہ کچھ لوگ جانتے تھے کہ ان کے بچے جنیدکے پاس جا کر باہم غیر اخلاقی حرکات کرتے ہیں اور اس کے عوض انہیں پیسے بھی ملتے ہیں۔ مقامی لوگ سمجھتے تھے کہ یہ پیسے انہیں جنید اپنی جنسی ہوس پوری کرنے کے عوض دیتا ہے اور شائد اس کا مہمان بھی اسی گھنائونی لت کا شکار ہے جس کے ساتھ بچوں نے ملک کے مختلف شہروں اور خاص طور پر شمالی علاقوں کی سیر بھی کی تھی۔
مقامی لوگوں کے مطابق جنید ان بچوں کو اپنا ساتھی اور دوست کہتا تھا اور اسی دوستی کے ناطے سیر سپاٹے کرواتا تھا اور قیمتی تحفے بھی دیتا تھا۔ لیکن اب مقامی لوگوں کا خیال ہے کہ شائد ان بچوں کی پورن ویڈیو ان تمام مقامات پر بنائی گئی ہوگی جہاں انہیں سیر کے لئے لے جایا گیا تھا۔ لیکن اس کے بارے میں ان کے پاس قیاس ہے، دلیل نہیں۔
دوسری جانب ملزم جنید کے والد شفیع کھوسہ کا کہنا تھا کہ اس کا بیٹا کمپیوٹر پر آن لائن ٹریڈنگ کرتا ہے۔ وہ کوئی غلط کام نہیں کرتا تھا۔ بائیس اور تئیس مئی کی درمیانی شب کے اس آپریشن میں اہلکاروں نے گھر کے اندر ہی بنائے گئے اسٹوڈیو سے کیمرے سمیت مختلف ڈیوائسز بھی قبضے میں لے لی تھیں اور ساتھ ہی چار بچوں سمیت مجموعی طور پر چھ افراد کو حراست میں لیا۔ انہیں وہاں سے ایف آئی اے ملتان مرکز منتقل کرکے تفتیش کی گئی اور بعد میں اسلام آباد منتقل کردیا گیا۔
آپریشن اورگرفتاری کے بعد مرکزی ملزم جنید کے والد شفیع کھوسہ کا کہنا تھا کہ رات اڑھائی بجے سو سے زائد پولیس والے آئے تھے۔ ہر طرف پولیس تھے جو سارا سامان بھی اٹھا کر لے گئے جس میں ایئر کنڈیشنر بھی شامل ہے۔ شفیع کھوسہ کا دعویٰ تھا کہ اس کے بیٹے پر جو الزام لگائے جارہے ہیں وہ بالکل غلط ہیں۔ اس کا بیٹا آن لائن ٹریڈنگ کا کام کرتا تھا۔
ذرائع کے مطابق ابتدائی طور پر مقامی لوگوں نے جنید کی سرگرمیوں اور اس کی آمدنی کے حوالے سے شکوک ظاہر کیے تھے اور مقامی پولیس کو بھی آگاہ کیا تھا۔ لیکن جب اس کے پاس جرمن باشندے نے آنا شروع کیا تو پولیس کی اسپیشل برانچ متحرک ہوگئی۔ ذرائع کے مطابق آپریشن کے بعد ملتان اور ڈیرہ غاذی خان یونٹ میں ابتدائی تفتیش کی گئی تھی۔ دوسری جانب مقامی حکام میڈیا کو اس معاملے میں کسی بھی قسم کی معلومات فراہم کرنے سے گریزاں ہیں۔