عمران خان :
ایف آئی اے کی تحقیقات میں غیر ملکی باشندوں اور مقامی شہریوں پر مشتمل اربوں روپے فراڈ کا بڑا نیٹ ورک بے نقاب ہو گیا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے پورے ملک میں چلنے والے اس نیٹ ورک میں اب تک، 36 کمپنیوں کے اکائونٹس سامنے آگئے ہیں۔ جن سے اربوں روپے کی ٹرانزیکشنز کی گئیں۔ ابتدائی تحقیقات میں ایف آئی اے (فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی) اور سائبر کرائم کے افسران کی سہولت کاری کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جس پر مزید تفتیش جاری ہے۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جعلی کال سینٹرز کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ اور مالیاتی فراڈ کا بڑا انکشاف ہوا ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی خفیہ رپورٹ کی بنیاد پر وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے کمرشل بینکنگ سرکل نے مقدمہ درج کرتے ہوئے ابتدائی طور پر ایک خاتون اور ایک بینک منیجر کو گرفتار کرلیا ہے۔ جبکہ اس نیٹ ورک میں دو غیر ملکی باشندے بھی شامل پائے گئے ہیں۔
اربوں روپے کے فراڈ کا یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ ملک بھر میں مختلف ناموں سے رجسٹرڈ 36 کمپنیوں کے بینک اکائونٹس کے ذریعے اربوں روپے کی مشکوک ٹرانزیکشنز کی گئی ہیں۔ ان کمپنیوں کی بظاہر کوئی واضح کاروباری سرگرمیاں موجود نہیں تھیں، اور یہ کہ ان کے اکائونٹس میں آنے والی بھاری رقوم کی نوعیت غیر واضح اور مشتبہ پائی گئیں۔ تحقیقات کے دوران انکشاف ہوا کہ یہ نیٹ ورک جعلی کال سینٹرز، قرض فراہم کرنے والی موبائل ایپس، آن لائن جوا، فحش ویب سائٹس، اور جعلی سرمایہ کاری اسکیموں کے ذریعے پاکستان کے عوام سے رقوم بٹورتا تھا۔ یہ رقوم پھر مختلف کمپنیوں کے ذریعے منی لانڈرنگ کے عمل سے گزار کر بیرونِ ملک منتقل کی جاتی تھیں۔
ذرائع کے مطابق اس غیر قانونی نیٹ ورک کی سربراہی عائشہ نام کی ایک خاتون کر رہی تھیں۔ جو دو غیر ملکی شہریوں کے ساتھ مل کر اس پورے آپریشن کو کنٹرول کرتی تھیں۔ سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ایف آئی اے اور سائبر کرائم ونگ کے بعض اعلیٰ افسران کی اس نیٹ ورک میں ممکنہ شمولیت کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان افسران کی جانب سے نیٹ ورک کو ’’تحفظ‘‘ فراہم کیا جا رہا تھا۔ اس حوالے سے انکوائری جاری ہے، اور کچھ اہلکاروں کو جلد معطل کیے جانے کا امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایک سینئر افسر نے تصدیق کی ہے کہ اس معاملے میں ابتدائی طور پر دو گرفتاریاں عمل میں لائی گئی ہیں، اور مزید افراد کی گرفتاریوں کے لیے ملک کے مختلف شہروں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ مقدمہ درج کرلیا گیا ہے، اور شواہد کی بنیاد پر تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے۔ جبکہ سائبر کرائم اور مالیاتی امور کے ماہرین نے اس واقعے کو ملکی مالیاتی نظام کے لیے انتہائی خطرناک علامت قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق، ایسے نیٹ ورکس کی موجودگی نہ صرف عوام کی معاشی سلامتی کو خطرے میں ڈالتی ہے۔ بلکہ بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی مالیاتی شفافیت پر بھی سوالات اٹھاتی ہے۔
وفاقی تحقیقاتی ادارے نے عوام کو خبردار کیا ہے کہ وہ مشکوک کالز، غیر مصدقہ سرمایہ کاری اسکیموں، اور قرض فراہم کرنے والی موبائل ایپس سے ہوشیار رہیں، اور کسی بھی مشتبہ سرگرمی کی صورت میں فوری طور پر سائبر کرائم ونگ کو اطلاع دیں۔ اس اہم کیس کی تحقیقات ابھی جاری ہیں، اور آئندہ دنوں میں مزید سنسنی خیز انکشافات اور گرفتاریاں متوقع ہیں۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ اسی دوران گزشتہ ہفتے تھانہ شالیمار پولیس کا سیکٹر E-11/3 میں کال سینٹر پر چھاپہ مارا گیا۔ دو غیر ملکی باشندوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ جن کو بعد ازاں ایف آئی اے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ کیونکہ اس معاملے میں کال سینٹر ملوث تھا۔ اس ضمن میں ذرائع کا کہنا ہے کہ گرفتار شدگان کو اسی وقت مذکورہ کال سینٹر سے حراست میں لیا گیا۔
ذرائع کے مطابق پولیس کی جانب سے یہ کارروائی مشکوک افغان باشندوں کو یہاں رکھنے اور ان سے کام کروانے کے حوالے سے کی گئی تھی۔ تاہم جب اس ’’غار‘‘ سے نکلنے والی دم کے پیچھے ہاتھی باہر آیا تو اس پر دیگر اداروں نے بھی تحقیقات میں حصہ لے لیا۔ اسی دوران چونکہ ایف آئی اے میں بھی اس معاملے پر پہلے سے انکوائری کی جا رہی تھی۔ اس لئے دوبارہ یہاں کارروائی کی گئی اور اس میں کمپیوٹر سسٹم اور دیگر آلات کے ساتھ کیمروں کی فوٹیج اور دفتر کا ریکارڈ بھی قبضے میں لے کر اس کی فارنسک چھان بین شروع کر دی گئی ہے۔
ذرائع کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ ابتدا ہی میں اس معاملے کو دبانے کی کوشش کی گئی تھی۔ کیونکہ اس میں بعض با اثر افراد سرپرستی کر رہے تھے۔ جن میں ایف آئی اے، پولیس اور سائبر کرائمز سے متعلق ادارے کے اہلکار بھی شامل تھے۔ تاہم بعد ازاں جب معاملہ بڑا نکلا اور حساس ادارہ اس میں شامل ہوا تو ایف آئی اے میں فوری طور پر اس پر مقدمہ درج کرلیا گیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ابھی بھی اس اہم معاملے میں ایف آئی اے کی ٹیم پر دبائو ہے۔ جس کی وجہ سے ابھی تک افغانیوں کے سہولت کاروں کو نہیں پکڑا گیا۔ چند دن قبل ہی اسی کال سینٹر پر چھاپہ مارا گیا اور غیر مقیم افغانیوں کو حراست میں لیا گیا تھا۔ تاہم پھر اس معاملے کو خاموشی سے دبا دیا گیا۔ ذرائع کے بقول ان افغانیوں کو کال سینٹر میں بھرتی کرنے والے سفیان اور کوئی عائشہ نامی لڑکی ہے۔ جن کی ابھی تک گرفتاریاں نہیں ہو سکی تھی۔