داعش حملوں کے پیش نظر اہم رہنمائوں کو عوامی عیدگاہوں کا رخ کرنے سے منع کیا گیا تھا، فائل فوٹو
 داعش حملوں کے پیش نظر اہم رہنمائوں کو عوامی عیدگاہوں کا رخ کرنے سے منع کیا گیا تھا، فائل فوٹو

طالبان حکومت پاکستان کے حق میں ڈٹ گئی

محمد قاسم:

افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ اور دیگر اعلیٰ حکومتی عہدیداروں اور رہنمائوں نے پہلی بار سعودی عرب کے بجائے سات جون کو پاکستان کے ساتھ عید الاضحی منائی۔ افغان طالبان کے سربراہ مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے قندھار کی جامعہ مسجد میں عید الاضحی کی نماز ادا کی۔

اس موقع پر ہزاروں افراد نے ان کا خطبہ سنا اور ایک ہزار کے قریب افغان علما نے ان کے ہاتھ پر بعیت کی اور ان کی جانب سے دیئے جانے والے فتوے کی مکمل حمایت کی کہ افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک میں ’’جہاد‘‘ اب جائز نہیں ہے، لہذا طالبان جنگجو پاکستان کا رخ کرنے سے گریز کریں۔

قندھار میں موجود ذرائع کے مطابق ایک ہزار علما وہ ہیں جن میں بعض نے حال ہی میں ان کے فتوے سے اختلاف کیا تھا اور انہیں وارننگ جاری کر دی گئی تھی، جس کے بعد ان علما نے قندھار جا کر عید کے روز بعیت کی اور پاکستان کے خلاف ’’جہاد‘‘ جائز قرار دینے کے اپنے بیانات واپس لے لیے۔

اسی طر ح مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے عید کے خطبے میں اپنے فتوے کی دوبارہ تجدید کرتے ہوئے یہ بات کہی کہ پڑوسی ممالک میں جہاد جائز نہیں ہے۔ افغان طالبان ، حکومتی اہلکاروں کو افغانستان کی تعمیر نو پر توجہ دینی چاہیے اور ہمسایہ ممالک کے اندر مداخلت سے باز رہیں۔ ان کے عید کے خطبے کا زیادہ حصہ فلسطین کے مسئلے پر تھا اور انہوں نے فلسطین کے مسئلے پر اسلامی ممالک کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ایک طرف اسلامی ممالک آپس کے اختلافات میں پھنسے ہوئے ہیں اور مغربی دنیا کو خوش کرنے میں لگے ہیں۔

جبکہ دوسری جانب امریکا کی حمایت اور مغرب کی سرپرستی میں فلسطین میں بچوں کو ذبح کیا جارہا ہے اور روزانہ پچاس سے زائد خواتین ، بچوں اور مردوں کو شہید کیا جارہا ہے جو جدید تاریخ میں کہیں پر بھی رونما نہیں ہوا ہے۔ انسانی حقوق کی نام نہاد تنظیمیں جن کو افغانستان کے موجودہ نظام پر اعتراضات ہیں اور آئے روز بیانات جاری کرتے ہیں لیکن غزہ کے مسئلے پر تمام کے تمام چپ بیٹھے ہیں اور مغربی دنیا اسرائیل کو نا صرف گولہ بارود فراہم کررہی ہے بلکہ ان کو تمام سہولیات بھی فراہم کی جارہی ہیں۔

اسرائیل کے بجائے امریکا اور مغربی ممالک اس کے زیادہ ذمہ دار ہیں۔ نماز عید کے بعد مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ نے گورنر ہائوس قندھار میں لگ بھگ بیس دنبے ذبح کئے جس میں چار دنبوں کی قربانی ان کی ذاتی تھی۔ جبکہ بقایاسولہ دنبے ان کے والد کے مدرسے مولوی عبد الستار کے مدرسے کے طلبا کے لئے لوگوں نے دیئے تھے۔ اسی لئے ان دنبوں کو ذبح کرنے کے بعد مدرسے کے طلبا کے حوالے کیا گیا۔

قربانی کے بعد مختلف وفود نے مولوی ہیبت اللہ اخونزادہ کے ساتھ ملاقات کی اور انہیں عید کی مبارکباد دی۔ افغان وزیراعظم مولانا محمد حسن اخوند اور افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی اور دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے وزار ت مہاجر ین کے سبزہ زار میں نماز عید ادا کی اور وہاں پر لوگوں سے مبارکباد وصول کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں پر قربانی کی۔ نماز عید کے خطبے سے خطاب میں مولوی محمد حسن اخوند نے امریکا اور نیٹو کے ساتھ کام کرنے والوں کے حوالے سے انہیں عام معافی دینے کا اعلان کیا اور کہا کہ جن لوگوں نے نیٹو کے ساتھ کام کیا ہے وہ افغانستان واپس آ سکتے ہیں، انہیں کچھ نہیں کہا جائے گا اور اس حوالے سے ان کا تحفظ یقینی بنایا جائے گا۔

مولوی احمد حسن اخوند نے یہ بات گزشتہ دنوں یورپ میں خود کو آ گ لگانے والے ایک افغان باشندے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہی جنس نے خود کو آگ لگائی تھی کیونکہ امریکا نے افغانوں پر نا صرف ویزے بند کر دیئے ہیں، بلکہ جن افغانوں نے امریکی فوج کے ساتھ کام کیا تھا انہیں امریکا سے نکالنے کے لئے اقدامات بھی شروع کر دیئے ہیں۔ ان افغانوں نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ افغانستان واپس بجھوائے جانے پر ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی نے کابل میں وزارت داخلہ کی مسجد میں نماز عید ادا کی اور انہوں نے عید کے خطبے کے موقع پر افغانوں کے درمیان اختلافات ختم کرنے پر زور دیا اور ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت سے باز رہنے کی تلقین کی۔ انہو ں نے کہا کہ اب ہمارے اوپر افغان قوم کی ذمہ داری ہے اور ان کو سہولیات فراہم کرنا اور افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ ڈالنا ہر چیز سے ضروری ہے۔

دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت نا صرف افغانوں کی فلاح و بہبود سے توجہ ہٹائے گی بلکہ افغانستان کے اندر بھی انتشار کو موقع دے گی۔ دوسری جانب عید کی نماز کے دوران افغان طالبان کے اہم رہنمائوں اور سرکاری اہلکاروں کو عوامی عیدگاہوں میں نماز ادا کرنے سے روک دیاگیا تھا، کیونکہ داعش کے حملوں کا خطرہ تھا۔ تاہم اس بار افغانستان میں عید الاضحیٰ مکمل خیر و عافیت سے گزر گئی اور پہلی بار داعش کی جانب سے کوئی بڑی کارروائی سامنے نہیں آسکی۔

افغانستان میں عید کے بعد بازار اور مارکیٹیں کھل گئی تھیں۔ تاہم اس موقع پر سخت حفاظتی انتظامات کئے گئے تھے۔ افغان حکومت نے پاکستان سے آنے والے مہاجرین کی عید کے خصوصی انتظامات کئے تھے اور انہیں قربانی کا گوشت پہنچانے کا بھی خصوصی انتظام وزارت مہاجرین اور سرحدی امور کے ذمے لگایا گیا تھا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔