گورنر نے ٹرمپ کیخلاف مقدمے کا عندیہ دے دیا، فائل فوٹو
گورنر نے ٹرمپ کیخلاف مقدمے کا عندیہ دے دیا، فائل فوٹو

لاس اینجلس خانہ جنگی کے دہانے پر پہنچ گیا

نمائندہ امت :
لاس اینجلس میں مظاہرین ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف بپھر گئے ہیں۔ امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر لاس اینجلس میں امیگریشن حکام کے چھاپوں کے خلاف ہزاروں مشتعل مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے جہنوں نے ماسک پہن کر سرکاری املاک کو شدید نقصان پہنچایا اور درجنوں گاڑیوں کونذر آتش کرنے کے ساتھ مرکزی شاہراہیں بند کر رکھی ہیں۔ جبکہ قانون نافذ کرنے والے حکام کے زیر استعمال گاڑیوں پر پتھراؤ کے بعض واقعات بھی پیش آئے، جس سے کئی اہلکار زخمی بھی ہوئے۔

شہر میں خانہ جنگی کے ماحول کے سبب بعض علاقوں میں کرفیو کا سماں ہے جبکہ زندگی معمولات ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں۔ ایل اے پولیس کا کہنا ہے کہ مظاہرین ڈاؤن ٹاؤن ایریا تک پہنچ گئے تھے، جہاں سے اب وہ باہر نکل گئے ہیں۔ واضح رہے کہ جمعے کے روز امیگریشن اور کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے وفاقی ایجنٹوں کے جانب سے متعدد چھاپوں کے دوران درجنوں افراد کی گرفتاری کے بعد پرتشدد مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔

امیگریشن حکام کے چھاپوں کے بعد علاقے کے ہزاروں افراد ان کارروائیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں درجنوں افراد کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ محکمہ پولیس کا کہنا ہے کہ لاس اینجلس میں بدامنی کے دوران اب تک کم از کم 39 افراد کو گرفتار کیا گیا اور پولیس نے متنبہ کیا ہے کہ مزید گرفتاریاں بھی ہوں گی۔ مقامی پولیس نے اس احتجاج کو روکنے کے لیے ’غیر قانونی اجتماع‘ پر پابندی کا بھی اعلان کیا ہے۔

پولیس چیف جم میکڈونل نے بتایا کہ ’’گزشتہ رات 29 افراد کو گرفتار کیا گیا، جبکہ کم از کم تین پولیس افسران کو معمولی چوٹیں آئیں۔ ہم لوگوں کو جواب دہ بنائیں گے اور اس تشدد کو روکنے کے لیے ہم جو کچھ بھی کر سکتے ہیں، کریں گے۔‘‘ دوسری جانب امریکی صدر ٹرمپ نے اس دوران اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹروتھ سوشل پر اس احتجاج پر غصے کا اظہار کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن پر زور دیا۔

ایک پوسٹ میں ٹرمپ نے لکھا کہ ’’ایل اے پولیس کے سربراہ جم میکڈونل نے کہا ہے کہ وہ ایل اے میں مسلح دستے لانے کے بارے میں صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیں گے۔ انہیں چاہیے کہ ان ٹھگوں کو اس سے بھاگنے نہ دیں۔ امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں!‘‘ انہوں نے اپنی ایک اور پوسٹ میں لکھا ’’لاس اینجلس میں واقعی سب کچھ برا دکھائی دے رہا ہے، مسلح دستے بلائیے!”۔ اسی طرح ریاست کیلیفورنیا کے گورنر گیون نیوزوم کا کہنا ہے کہ صورتحال مزید شدت اختیار کر سکتی ہے اور ’میرینز کی تعیناتی کا خدشہ‘ بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے لاس اینجلس میں ہونے والے مظاہروں کے دوران میرینز کی تعینات کرنے کی دھمکی صورتحال کو مزید خراب کر رہی ہے۔ واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ’’امن و امان کے تحفظ‘‘ کے لیے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کے اپنے فیصلے کا دفاع کیا ہے، جبکہ امریکی وزیر دفاع پیٹ ہیگستھ نے خبردار کیا ہے کہ پینٹاگون قانون نافذ کرنے والے وفاقی اداروں کی مدد کے لیے لاس اینجلس میں فعال ڈیوٹی میرینز بھیجنے کے لیے تیار ہے۔ کیلیفورنیا کے گورنر نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو ’’غیر قانونی‘‘ اور ’’غیر اخلاقی‘‘ فعل قرار دیتے ہوئے ٹرمپ انتظامیہ کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی بھی دی ہے۔

انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ’’ڈونلڈ ٹرمپ نے وہ حالات پیدا کیے ہیں، جس سے ریاست میں خانہ جنگی کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں۔ ریاستی گورنر نے صدر ٹرمپ کی جانب سے نیشنل گارڈز کی تعیناتی کو ایک غیر آئینی عمل قرار دیتے ہوئے کہا، ’’ہم کل اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے بارے میں غور کرنے والے ہیں۔‘‘ لاس اینجلس کی میئر کیرن باس نے بھی ٹرمپ انتظامیہ پر الزام عائد اور کہا کہ وائٹ ہاؤس ہی شہر میں کشیدگی میں اضافے کا ذمہ دار ہے۔

انہوں نے مظاہرین پر زور دیا کہ وہ پرامن رہیں اور (امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ) کی انتظامیہ کے ہاتھوں میں نہ کھیلیں۔‘‘ صحافیوں سے بات کرتے ہوئے میئر باس نے کہا کہ ایل اے میں منظر عام پر آنے والی ’’افراتفری (ٹرمپ) انتظامیہ کی جانب سے اکسائے جانے کا نتیجہ ہے۔‘‘ اتوار کے روز لاس اینجلس میں تعینات کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے سینکڑوں ارکان کو صدر ٹرمپ نے گورنمنٹ گیون نیوزوم کی خواہش کے خلاف بلایا۔ یہاں تک کہ وفاقی امیگریشن اور ہوم لینڈ سیکیورٹی کے افسران اور سٹی پولیس نے مظاہرین پر ہجوم کو کنٹرول کرنے والے گولہ بارود سے فائرنگ کی۔

یاد رہے کہ جمعہ کو احتجاج اس وقت شروع ہوا جب وفاقی ایجنٹوں نے شہر کے گارمنٹ ڈسٹرکٹ میں ایسے کارکنوں کی تلاشی لی جن پر انہیں غیر دستاویزی تارکین وطن ہونے کا شبہ تھا۔ کیلیفورنیا نیشنل گارڈ کے تقریباً 300 ارکان نے شہر میں پوزیشنیں سنبھال لیں۔ لاس اینجلس کے مرکز میں کئی ڈرائیور لیس Waymo کاروں کو آگ لگا دی گئی۔ حکام نے بتایا کہ جمعہ سے اب تک لاس اینجلس میں 150 سے زائد افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ سان فرانسسکو میں تقریباً 60 مزید افراد کو گرفتار کیا گیا، جہاں اتوار کی رات مظاہرین اور پولیس افسران کے درمیان سڑک پر لڑائی ہوئی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔