فوٹومقامی میڈیا
فوٹومقامی میڈیا

ملیرجیل کے مفرور قیدی چھلاوہ بن گئے

سید حسن شاہ :
کراچی کی ملیر جیل توڑ کر فرار ہونے والے 225 میں سے 79 قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری پولیس حکام کے لئے چیلنج بن گئی۔ مفرور قیدیوں کی رہائش گاہ، رشتے داروں اور دوستوں کے گھروں، بس اڈوں، ریلوے اسٹیشنوں سمیت دیگر جگہوں پر چھاپوں اور تلاشیوں کے باوجود کامیابی نہیں مل سکی ہے۔ مذکورہ مفرور قیدیوں کے کراچی سے باہر روپوش ہونے کے پہلو پر بھی تحقیقات کی جارہی ہیں۔

دوبارہ گرفتار ہونے والوں اور رضاکارانہ طور پر گرفتاری دینے والے مجموعی طور پر 146 قیدیوں پر جیل توڑنے کر فرار ہونے، پولیس مقابلہ ، اقدام قتل ، سرکاری اسلحہ چھیننے ، املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ جیل حکام کی جانب سے رضاکارانہ طور پر خود کو پولیس کے حوالے کرنے والے قیدیوں پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ نہ چلانے کی سفارش بھی کی جائے گی۔

واضح رہے کہ 2 جون 2025ء کو ملیر جیل سے 200 سے زائد قیدی زلزلے سے پیدا ہونے والی افراتفری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جیل توڑ کر فرار ہوئے تھے۔ زلزلہ آنے پر بیرکوں میں بند قیدی خوف کا شکار ہوئے اور افراتفری مچ گئی۔ جیل حکام کے مطابق ملیر جیل میں اس وقت 6 ہزار 22 قیدی موجود تھے۔ زلزلہ آنے پر دو ہزار سے زائد قیدیوں نے بیرکوں کے دروازے اور کنڈے توڑ دیے جس کے بعد وہ ماڑی کا دورازہ توڑ کر بھاگنا شروع ہوئے۔ اس دوران فائرنگ اور شیلنگ بھی ہوئی، تاہم 225 سے زائد قیدی فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے تھے۔

مذکورہ واقعے کا مقدمہ تھانہ شاہ لطیف میں درج کیا گیا ہے جس میں جیل توڑنے کر فرار ہونے، پولیس مقابلہ، اقدام قتل، سرکاری اسلحہ چھیننے اور املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دہشت گردی کی دفعات شامل کی گئی ہیں۔ مقدمہ میں بتایاگیا کہ زلزلے کے جھٹکوں کی وجہ سے ملیر جیل میں بیرکوں میں بند قیدی چیخ و پکار کرنے لگے۔ زیادہ تر قیدیوں نے اپنے دوسرے ساتھی قیدیوں کو اکسایا اور متعدد سرکلز کے کنڈے و تالے توڑ کر بیرکوں سے نکل کر جیل ٹاور کی طرف آئے۔ جیل انتظامیہ نے سیکیورٹی عملے کے ساتھ قابو پانے کی کوشش کی مگر قیدیوں نے کار سرکار میں مزاحمت کرتے ہوئے سریے، ڈنڈوں سے حملہ کرتے ہوئے پولیس اہلکاروں سے سرکاری اسلحہ چھین لیا اور خوف و ہراس پھیلاتے ہوئے فائرنگ شروع کردی۔ قیدیوں کی فائرنگ سے ایف سی اہلکار عمران خان، سپاہی شاہ محمد و دیگر اہلکار زخمی ہوئے ۔

اس کے علاوہ قیدیوں کی فائرنگ سے جیل میں موجود دیگر قیدی اختر ندیم ، طاہر ، عبدالہادی ، محمد فہیم ، عادل حسین ، سکندر ، شیراز و دیگر زخمی ہوئے۔ سیکورٹی عملے نے حفاظت خود اختیاری کا نفاذ کرتے ہوئے چھینا گیا اسلحہ واپس قبضے میں لیا۔ مشتعل قیدی جیل اسپتال کا مرکزی گیٹ، انٹر ویو بوتھ، ای کورٹ ، سی پی ایل سی ، سی آر او و دیگر دفاتر کے دروازے ، کھڑکیاں ، فرنیچر ، کمپیوٹرز اور سامان توڑ پھوڑ کرتے ہوئے مین گیٹ کی طرف آئے اور مین گیٹ کو توڑ کر 216 قیدی جیل سے فرار ہوئے جس پر بذریعہ وائرلیس کنٹرول میسج کروایا تو ضلع ملیر پولیس و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا عملہ جیل پہنچا اور حالات پر قابو پایا گیا۔

پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے فرار ہونے والے قیدیوں کی گرفتاری کا عمل جاری ہے اور اب تک مجموعی طور پر 146 قیدیوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے جن میں متعدد ایسے قیدی بھی شامل ہیں جنہوں نے رضاکارانہ طور پر خود کو سرینڈر کیا ہے۔ تمام قیدیوں کو پولیس کی جانب سے جیل توڑنے کر فرار ہونے ، پولیس مقابلہ ، اقدام قتل ، سرکاری اسلحہ چھیننے ، املاک کو نقصان پہنچانے سمیت دہشت گردی کی دفعات درج ہونے والے مقدمہ میں گرفتار کیا گیا ہے اور انہیں جیل بھیج دیا گیا ہے۔

مذکورہ دفعات کے تحت زیادہ سے زیادہ سزا عمر قید اور کم سے کم سزائیں بھی 16 سال قید کے ساتھ جرمانوں کی ہیں۔ ملیر جیل توڑ کر فرار ہونے والے 225 میں سے 79 قیدیوں کی دوبارہ گرفتاری پولیس حکام کے لئے چیلنج بن گئی ہے۔ ملیر جیل توڑ کر فرار ہونے والے قیدیوں کی گرفتاری کے لئے پولیس اور تحقیقاتی ٹیم کی جانب سے ان قیدیوں کے گھروں ، دوستوں ، رشتے داروں ، بس اڈوں ، مسافر خانوں ، ریلوے اسٹیشنوں سمیت دیگر جگہوں پر چھاپے اور تلاشی لی گئی مگر اب تک مکمل طور پر کامیابی نہیں مل سکی ہے۔

پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ ملیر جیل میں چوری، ڈکیتی، منشیات فروشی سمیت دیگر معمولی جرائم میں گرفتار قیدی موجود ہیں اور تمام قیدی انڈر ٹرائل ہیں جس کی وجہ سے انہیں خاص قسم کا لباس نہیں دیا گیا تھا۔ قیدی فرار ہوئے تو وہ عام لوگ کی طرح لباس میں تھے، بہت سے قیدی جیل کے اطراف کی آبادی میں داخل ہوئے جنہیں علاقہ مکینوں کی مدد اور آپریشن کے دوران گرفتار کرلیا گیا۔ جبکہ کئی قیدی اب تک روپوش ہیں جنہیں ٹریس کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ تفتیشی ٹیمیں ان قیدیوں سے متعلق معلومات حاصل کررہی ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ تفتیشی حکام کی جانب سے گرفتار ہونے والے قیدیوں سے بھی فرار قیدیوں سے متعلق معلومات حاصل کی گئی ہیں۔ جبکہ عدم گرفتار قیدیوں کے کراچی سے باہر روپوش ہونے کے پہلو پر بھی تحقیقات اور قیدیوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں۔
جیل ذرائع کے بقول جیلوں کے حفاظتی شعبے میں نفری کی کمی کا سامنا ہے جو ملیر جیل توڑ کر قیدیوں کے فرار ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے۔ اس وقت کراچی سمیت سندھ بھر کی جیلوں کے حفاظتی شعبے میں 2 ہزار 257 اہلکاروں کی کمی ہے۔ کیونکہ جیلوں میں اس وقت گنجائش سے کئی گنا زیادہ قیدی موجود ہیں۔

دستیاب معلومات کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر کی جیلوں میں مجموعی طور پر 6 ہزار462 اسامیاں ہیں جن میں سے 3 ہزار 592 اسامیوں پر ملازمین فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ مجموعی طور پر 2 ہزار 870 اسامیاں خالی ہیں۔ خالی اسامیوں میں سب سے زیادہ جیلوں کی حفاظت کرنے والے اہلکاروں کی ہے جس کی مجموعی طور پر 5 ہزار 34 اسامیاں ہیں ان میں سے 2777 اسامیوں پر اہلکار فرائض انجام دے رہے ہیں۔ جبکہ 2257 اسامیاں خالی پڑی ہیں۔ جیلوں میں اہلکاروں کی کمی کے باعث قیدیوں کو سنبھالنا درد سر بن جاتا ہے۔ جیلوں میں رات کے اوقات قیدیوں پر نظر رکھنے، ملاقات کے دوران قیدیوں اور ان سے ملنے والوں پر نظر رکھنے میں بھی مشکلات کا سامنا ہے۔

جیلوں میں مختلف تنظیموں اور فرقوں سے تعلق رکھنے والے قیدی، کالعدم تنظیموں ، لیاری گینگ وار اور دہشت گردوں سمیت خطرناک قیدی موجود ہیں جن کو ایک دوسرے سے الگ رکھنے میں بھی سخت مشکل پیش آتی ہے۔ جیلوں میں اہلکاروں و عملے کی کمی کے باعث قیدیوں سے خدمات حاصل کی جارہی ہیں۔ نفری کی کمی کے باعث انتظامیہ کی جانب سے رات کے اوقات ہر بیرک میں 5 قیدیوں کی ڈیوٹیاں لگائی جاتی ہیں جو بیرک میں موجود قیدیوں پر نظر رکھتے ہیں۔

ملیر جیل کے سپریٹنڈنٹ شہاب صدیقی نے رابطہ کرنے پر ’’امت‘‘ کو بتایا ’’جیل کی پچھلی انتظامیہ کی جانب سے فرار ہونے والے قیدیوں کی تعداد 216 بتائی گئی تھی، جس میں سے ایک قیدی کی خودکشی کی بعد یہ تعداد 215 ہوگئی تھی۔ اس کے بعد جب چارج میرے پاس آیا تو میں نے قیدیوں کی دوبارہ سے گنتی کرائی۔ عام دنوں میں قیدیوں کی گنتی کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ عید تعطیلات کے دوران قیدیوں کی دوبارہ گنتی کرائی گئی تو معلوم ہوا کہ مزید 10 قیدی غائب ہیں۔ اس طرح فرار ہونے والے قیدیوں کی مجموعی تعداد 225 ہوگئی۔ اس کے بعد میں نے پولیس اور تفتیشی حکام کو اس حوالے سے آگاہ کردیا۔ کیونکہ فرار قیدیوں کی گرفتاری پولیس اور تفتیشی حکام کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید بتایا ’’کچھ قیدیوں کی جانب سے رضا کارانہ طور پر بھی خود کو سرینڈر کیا گیا ہے۔ کچھ قیدیوں نے ہم سے سرینڈر کے لئے رابطہ کیا اور وہ جیل واپس آئے جس پر ہم نے متعلقہ پولیس کو بلایا اور گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ جن قیدیوں کو پولیس گرفتار کررہی ہے اور جو خود کو سرینڈر کررہے ہیں، ان تمام قیدیوں سے جرم تو ہوا ہے جس پر ان کے خلاف الگ سے مقدمہ چلے گا۔ جبکہ جن قیدیوں نے رضاکارانہ طور پر سرینڈر کیا ہے ان قیدیوں کے لئے ہم سفارش کریں گے کہ ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ نہیں چلایا جائے، بلکہ ماتحت عدالت میں چلایا جائے۔‘‘

ان کا کہنا تھا ’’ملیر جیل سے فرار ہونے والے قیدیوں میں کوئی بھی ہائی پروفائل قیدی نہیں تھا۔ ملیر جیل میں چھوٹے مقدمات میں گرفتار ہونے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔ جو قیدی فرار ہوئے تھے ان پر چوری ، ڈکیتی ، گٹکا ماوا ایکٹ ، منشیات سمیت دیگر مقدمات درج تھے۔ جیل میں اس وقت سیکورٹی سخت کردی گئی ہے۔ ایف سی کے اہلکار ہمارے پاس پہلے سے موجود تھے، جبکہ رینجرز اور پولیس کی اضافی نفری تعینات کی گئی ہے۔ اسی طرح جیل کے اطراف پٹرولنگ کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے۔‘‘