عمران خان :
ایف آئی اے کراچی کی تحقیقات کی میں نومولود بچوں کی اسمگلنگ کا متعدد با اثر خواتین پر مشتمل ایک ایسا بھیانک نیٹ ورک سامنے آیا ہے جس کے تانے بانے کراچی سے افریقہ اور کینیڈا تک پھیلے ہوئے ہیں۔ اس نیٹ ورک میں لیڈی ڈاکٹرز، اسپتالوں کی تجربے کار نرسیں، دائیاں اور ولدیت تبدیل کرکے جعلی پیدائشی سرٹیفکیٹ بنانے والے شامل ہیں جو مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔
گروپ کی سرغنہ لیڈی ڈاکٹر کا تعلق شہر کی ایک بڑی سیاسی تنظیم سے ہے، جس کا سیاسی سرگرمیوں پر مشتمل واٹس ایپ گروپ بھی اسی کے موبائل سے چلایا جاتا ہے۔ اس تنظیم کے ایک مرکزی عہدیدار، مذکورہ لیڈی ڈاکٹر سے قریبی روابط رکھتے ہیں۔
’’امت‘‘ کو ملنے والی معلومات کے مطابق اس نیٹ ورک کے حوالے سے سب سے سنگین حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ بچوں کے حصول کے لئے معصوم لڑکیوں کی خفیہ ڈیلوریز کی جاتی ہیں۔ ایک بچہ 15 سے 20 لاکھ کے پیکج میں فروخت کیا جاتا ہے۔ اب تک 10برسوں میں یہ نیٹ ورک 2 درجن سے زائد بچے فروخت کرچکا ہے، جس کے شواہد ملے ہیں۔ تاہم یہ تعداد کہیں زیادہ ہوسکتی ہے۔ اس وقت ایف آئی اے کراچی کے حکام تیزی سے تحقیقات آگے بڑھا رہے ہیں اور ملزمان کے خلاف انسانی اسمگلنگ اور جعلسازی کے ساتھ اینٹی منی لانڈرنگ کے تحت تحقیقات کر کے بیرون ملک مقیم ملزمان کو انٹر پول کے ذریعے گرفتار کرنے کے لئے مضبوط کیس بنانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
اس ضمن میں معتبر ذرائع نے بتایا کہ چند روز قبل یہ اسکینڈل اس وقت سامنے آیا جب کراچی کے جناح انٹرنیشنل ائیرپورٹ پر 9 جون کو ایف آئی اے امیگریشن کے اہلکاروں نے ایک خاتون کرن سہیل کو اْس وقت روک لیا جب وہ افریقی ملک موزمبیق جانے والی پرواز ET 695 پر سوار ہونے جا رہی تھی۔ خاتون کے ہمراہ موجود نومولود بچے کے سفری دستاویزات پر شکوک و شبہات پیدا ہوئے، جس کے بعد معاملہ انسانی اسمگلنگ کے سنگین کیس میں تبدیل ہوگیا۔
امیگریشن حکام کی ابتدائی تفتیش کے مطابق کرن سہیل اس نومولود کی حقیقی والدہ نہیں تھی۔ اس نے خود اعتراف کیا کہ بچے کی حوالگی اور سفری دستاویزات گارڈن ایسٹ کی ایک خاتون یاسمین نے دیئے تھے، جو ’’جمانی سینٹر‘‘ کی رہائشی ہے اور بظاہر فلاحی کاموں میں سرگرم رہتی ہے۔ تحقیقات سے پتا چلا کہ جعلی برتھ سرٹیفکیٹ ڈاکٹر ممتاز ویانی نے اپنے کلینک سے جاری کیا، جس کی بنیاد پر نادرا کا سرٹیفکیٹ اور پاسپورٹ بنوایا گیا۔ برتھ سرٹیفکیٹ میں بچے کی پیدائش کی تاریخ 2 ستمبر 2024ء درج تھی، جبکہ اس کے برعکس بچہ واضح طور پر نومولود تھا۔ تحقیقات کے مطابق موزمبیق میں کرن سہیل کے شوہر سہیل علی عرف شازی علی کا بھائی سیول پہلے سے موجود ہے، جس نے وہاں پر سفری دستاویزات تیار کروائے۔ اطلاعات ہیں کہ اس بچے کو موزمبیق پہنچانے پر ممکنہ طور پر 50 لاکھ روپے وصول کیے جانے تھے۔
ایف آئی اے نے اس کیس میں درج مقدمے کے مطابق 7 افراد کو نامزد کیا ہے، جن میں سے اب تک 4 کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ان ملزمان میں کرن سہیل (جعلی ماں)، سہیل سلطان (شوہر)، یاسمین ماوانی (بچے کی "ڈیل’’ کرنیوالی خاتون)، ڈاکٹر ممتاز ویانی (جعلی سرٹیفکیٹ جاری کرنے والی ڈاکٹر) اور دیگر نامزد افراد میںکینیڈا میں مقیم حمیدہ عرف میجر مان (دارخانہ جماعت خانہ سے وابستہ) اور ڈاکٹر لبنیٰ صدیقی شامل ہیں۔
ذرائع کے بقول کرن کی ایئر پورٹ سے گرفتاری کے بعد اس کے شوہر اور والدہ کو ایئر پورٹ کے احاطے سے حراست میں لیا گیا، جہاں وہ اس کو چھوڑنے آئے تھے۔ کرن نے اپنے بیان میں بتایا کہ اس کو کینیڈا میں موجود میجر مان کی کال آئی تھی کہ ’’یاسمین تمہیں بچہ ہینڈ اوور کرے گی اور تم نے یہ بچہ افریقہ میں بھائی کے پاس پہنچا دینا ہے۔‘‘ جبکہ یاسمین سے معلوم ہوا کہ یہ بچہ ڈاکٹر لبنیٰ کے ذریعے حاصل کیا گیا جس کے لئے دستاویزات ڈاکٹر ممتاز کریم آباد والی سے بنوائی گئیں۔
یہ بھی انکشاف ہوا کہ ڈاکٹر لبنیٰ جو کئی برسوں سے سماجی حوالے سے معروف ہیں اور اکثر میڈیا پر خواتین اور بچوں کے مسائل پر گفتگو کے لئے آتی رہتی ہیں۔ ان کے موبائل کی ابتدائی چھان بین کی گئی تو آن لائن بچوں کی بکنگ کی متعدد چیٹس مل گئیں۔ یہ بھی انکشاف ہوا کہ مذکورہ خاتون 2014ء سے یہ کام کر رہی ہے اور متعدد علاقوں سے ناجائز بچوں کی ولادت ہونے کے بعد انہیں خاموشی سے اس نیٹ ورک کے ذریعے خریدنے والوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔ ایسے ہی ایک کیس میں ایک خوبرو لڑکی نے اپنی پسند سے چھپ کر نکاح کیا جس کے بعد وہ حاملہ ہوگئی۔ تاہم اس کے شوہر نے اس بچے کا باپ ہونے سے انکار کردیا اور لڑکی کو چھوڑ کر چلا گیا، جس کے بعد ایک خفیہ ڈیلوری کے بعد نرس یعنی دائی کے توسط سے یہ بچہ لبنیٰ تک آیا جہاں سے اسے یاسیمن تک پہنچا دیا گیا اور میجر مان کے کہنے پر اسے بیرون ملک منتقل کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایف آئی اے کی جانب سے مقدمہ کے اندراج کے بعد گزشتہ روز ان خواتین کو ریمانڈ کے لئے عدالت میں پیش کیا گیا۔ کیونکہ ابھی کیس کی ابتدا ہے اور اس پر مزید تحقیقات ضروری ہیں۔ معلوم ہوا کہ عدالت میں ملزمان کی جانب سے اعترافی بیان قلمبند کروانے کے لئے رضامندی ظاہر کی گئی۔ تاہم انہیں جوڈیشل کسٹڈی میں دے دیا گیا۔ یوں ان کا 144 کا بیان قلمبند نہیں ہوسکا تھا۔
ذرائع کے مطابق ابھی اس کیس میں بہت کچھ سامنے آنا باقی ہے۔ کیونکہ ملزمان کے پاس موجود موبائلوں میں موجود شواہد مزید سنسنی خیز حقائق سامنے لاسکتے ہیں۔ جبکہ اس نیٹ ورک کی سرپرتی کرنے والوں کو بھی بے نقاب کرنا باقی ہے۔ا س کے ساتھ ہی ملزمان کی جانب سے بچوں کی خرید و فروخت کے ذریعے کمائی گئی دولت کو منی لانڈرنگ قوانین کے تحت منجمد کرکے ضبط کرنے کی کارروائی پر بھی رپورٹ بنائی جارہی ہے، تاکہ اس کی منظوری لے کر باقاعدہ پروسس شروع کیا جاسکے۔
یہ کیس پاکستان میں نومولود بچوں کی اسمگلنگ سے متعلق ایک خطرناک، مگر تلخ حقیقت کی جھلک دکھاتا ہے۔ حال ہی میں بچوں کی اسمگلنگ کا ایک ایسا ہی نیٹ ورک اس وقت منظر عام پر لانے کا دعویٰ کیا گیا جب ایف آئی اے حکام نے معروف سماجی تنظیم کے سربراہ صارم برنی پر بچوں کی خریدو فروخت کے الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا اور ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ اگر صارم برنی ٹرسٹ کیس کی طرح یہ معاملہ بھی پسِ پشت ڈال دیا گیا تو اس کا مطلب صرف ایک بچہ کا نقصان نہیں، بلکہ ہزاروں مستقبل کے بچوں کے لیے خطرہ ہوگا۔