عمران خان :
پاکستان سے یورپی ممالک بھجوانے والا انسانی اسمگلنگ کا بڑا نیٹ ورک چلانے والے مرکزی ملزم عمران عرف ٹونی کی قاہرہ سے گرفتاری کے بعد کی جانے والی تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ ملزم عمران عرف ٹونی گزشتہ کئی برسوں سے لیبیا سے انسانی اسمگلنگ کا بین الاقوامی نیٹ ورک چلا رہا تھا۔ وہ غیر قانونی طریقے سے پاکستانی شہریوں کو یورپ بھجوانے میں ملوث تھا۔ اس مقصد کے لیے اس نے مختلف سیف ہائوسز قائم کر رکھے تھے، جہاں لوگوں کو عارضی طور پر رکھا جاتا اور پھر کشتیوں کے ذریعے انہیں خطرناک سمندری راستوں سے یورپ روانہ کیا جاتا۔
موصول معلومات کے مطابق ایف آئی اے گوجرانوالہ زون نے انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک بڑی پیش رفت کرتے ہوئے خطرناک بین الاقوامی انسانی اسمگلر عمران عرف ٹونی کو مصر سے گرفتارکرواکر پاکستان منتقل کیا۔ مذکورہ کارروائی انٹرپول کی معاونت سے عمل میں آئی۔ ایف ائی اے حکام کے مطابق عمران ٹونی کے خلاف ریڈ نوٹس گوجرانوالہ زون کی جانب سے جاری کیا گیا تھا، جس پر مصری حکام نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اسے حراست میں لیا۔ بعد ازاں ضروری قانونی کارروائی کے بعد عمران کو پاکستان کے حوالے کر دیا گیا، جہاں وہ اس وقت ایف آئی اے کی حراست میں ہے اور اس سے تفتیش جاری ہے۔
ایف آئی اے کے مطابق عمران ٹونی کا تعلق جون 2023ء میں پیش آنے والے یونان کشتی حادثے سے بھی ہے۔ جس میں 350 سے زائد پاکستانی نوجوان سمندر میں ڈوب کر جاں بحق ہو گئے تھے۔ یہ کشتی یونان کے ساحلی علاقے پیلوس کے قریب الٹ گئی تھی۔ یہ واقعہ عالمی سطح پر انسانی اسمگلنگ کی خطرناک حقیقت کو بے نقاب کرنے والا سانحہ ثابت ہوا۔ متاثرین کے اہلِ خانہ کی جانب سے درج کرائی گئی ایف آئی آرز نمبر 197/2023، 198/2023، 199/2023 اور 235/2023 میں عمران ٹونی کو مرکزی ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ ان مقدمات میں امیگریشن آرڈیننس 1979 کی دفعات 17 اور 22 جبکہ انسدادِ اسمگلنگ آف مائیگرینٹس ایکٹ 2018 کی دفعات 3 اور 6 شامل کی گئی ہیں۔
تحقیقات کے مطابق عمران ٹونی متاثرین سے یورپ میں ملازمتوں کا جھانسہ دے کر فی کس 9 ہزار امریکی ڈالر اور ایک لاکھ پاکستانی روپے تک رقم وصول کرتا تھا۔ متاثرہ خاندانوں کے مطابق اس نے نوجوانوں کو ایک بہتر مستقبل کا خواب دکھا کر ان کی زندگیاں خطرے میں ڈالیں، جو بالاخر جان لیوا ثابت ہوئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے گوجرانوالہ کی ٹیم عمران ٹونی سے تفتیش کے دوران اس کے دیگر مقامی و بین الاقوامی سہولت کاروں کی معلومات حاصل کرنے میں مصروف ہے۔ ملزم کے زیر استعمال مواصلاتی ذرائع، مالی ریکارڈز اور ڈیجٹل شواہد کا جائزہ لیا جا رہا ہے تاکہ پورے نیٹ ورک کو بے نقاب کیا جا سکے۔ ایف آئی اے نے عندیہ دیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید گرفتاریاں اور عدالتی کارروائیاں متوقع ہیں، جن کے ذریعے انسانی اسمگلنگ کے اس نیٹ ورک کی جڑیں کاٹنے کی کوشش کی جائے گی۔
ایف آئی اے کے مطابق عمران ٹونی کی گرفتاری انسانی اسمگلنگ کے خلاف پاکستان کے عزم اور بین الاقوامی تعاون کا مظہر ہے۔ یونان کشتی سانحہ جیسے واقعات نہ صرف ملک کا عالمی امیج متاثر کرتے ہیں بلکہ ہزاروں خاندانوں کی زندگیاں تاریکی میں دھکیل دیتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ایسے جرائم کے خلاف مزید مربوط اور دیرپا اقدامات کیے جائیں۔ اس سے قبل رواں برس مارچ کے مہینے میں ہی ایف آئی اے نے پاکستان سے یورپ تک انسانی اسمگلنگ کا نیٹ ورک چلانے والے دو بڑے گروپوں ججہ گروپ اور سنیارا گروپ کو ٹریس کر کے ان کے اہم ملزمان کو گرفتار کرنے کا دعویٰ بھی کیا تھا۔ تاہم ایف آئی اے کے تفتیشی افسران ان اہم ملزمان نے ان کے لیبیا، مصر، مالٹا، الجزائر، مراکش، یونان، اٹلی سمیت بیرون ملک پھیلے نیٹ ورک سے منسلک اہم کارندوں سے متعلق اہم معلومات حاصل کرکے ان کے خلاف موثر کارروائی کرنے میں تاحال ناکام رہے۔
اس کے ساتھ ان گروپوں کے پاکستان میں موجود ملزمان کو کئی برسوں تک ایف آئی اے سے سمیت کئی سرکاری اداروں کی کالی بھیڑوں کی مکمل سہولت کاری برسوں سے حاصل ہونے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔ جبکہ گروپ کا سرغنہ خرم ججہ بھی اپنے دیگر قریبی ساتھیوں سمیت ایف آئی اے کی گرفت سے باہر ہے۔ پنجاب کے شہر سیالکوٹ کی تحصیل پسرور سے تعلق رکھنے والے اس گروپ ایجنٹ پاکستان کے علاوہ ترکی، لیبیا، یونان، اٹلی اور دیگر ممالک میں سرگرم ہیں۔ جن کے پاکستان سے لے کر بحیرہ روم تک بین الاقوامی انسانی اسمگلروں اور لانچوں اور ڈنکی میں استعمال ہونے والی دیگر گاڑیوں کے مالکان سے انتہای مضبوط تعلقات ہیں۔ ججا گروپ کے حوالے سے معلوم ہوا کہ مارچ کے آغاز میں ایف آئی اے نے انٹیلی جنس بیورو کے ساتھ مل کر پاکستان سے نوجوانوں کو غیر قانونی طور پر یورپ بھجوانے میں ملوث ایک بڑے اور اہم نیٹ ورک ’’ججہ گروپ‘‘کے مرکزی کردار عثمان ججہ کو ٹریس کرکے گرفتار کیا۔
ملزم کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ وہ اس گروپ کے دیگر اہم کارندوں کی طرح سیالکوٹ کے علاقے پسرور میں گائوں مہر کے ججہ سے تعلق رکھتا ہے۔ ایف آئی اے کے مطابق عثمان ججا ضمانت ملنے کے بعد گرفتاری سے بچ رہا تھا۔ تاہم انہیں ایف آئی اے نے 10 مارچ 2025ء کو انسانی اسمگلنگ کے متعدد مقدمات میں گرفتار کیا تھا۔ وہ گزشتہ سال یونان میں کشتی کے حادثے کا بھی ایک اہم ملزم ہے۔ اس سے قبل عثمان ججہ ضمانت پر سیالکوٹ ڈسٹرکٹ جیل سے رہا ہونے کے بعد گرفتاری سے بچ گیا تھا۔ ملزم کو کم از کم 19 مقدمات میں گرفتار کیا گیا۔ عہدیدار نے بتایا کہ مشتبہ شخص بدنام زمانہ خرم ججا گروپ کا رکن ہے جو 2024ء میں یونان کشتی حادثے میں ملوث رہا۔ جبکہ ملزم سیالکوٹ جیل سے رہا ہونے کے بعد گلگت بلتستان فرار ہوگیا تھا۔ کیونکہ اسے پولیس نے پرتشدد تصادم کے ایک معاملے میں گرفتار کیا تھا۔ اور یونان میں کشتی الٹنے سے ہلاکتوں کا افسوسناک واقعہ اس وقت پیش آیا جب وہ جیل میں تھا۔
ایف آئی اے ذرائع کے بقول ججہ گروپ کا سرغنہ عثمان کا بھائی خرم ہی ہے جو بیرون ملک موجود ہے۔ اس گروپ اور اس کے ہم پلہ سنیارا گروپ کے سرغنے لیبیا، ترکی، یونان، اٹلی اور دیگر ممالک میں موجود ہیں جن کے کارندے عراق، مصر، مراکش، تیونس، سینیگال ،آسٹریا، بوسنیا اور دیگر بلقان ریاستوں میں بھی موجود ہیں۔ ان دونوں گروپوں کے اہم کارندوں کے حوالے سے ایف آئی اے کے اعلیٰ افسر احسان صادق کی انکوائری رپورٹ میں بھی نشاندہی کی گئی ہے جس میں جن ایجنٹوں کے نام بتائے گئے ہیں۔ ان میں سعد، شہروز فوجی، علی، خرم، سلیمی، نبیل احمد، ندیم، عثمان، ثاقب ارشد، قیصر رئوف، آصف ججا، مٹھو اور حاجی جبار شامل ہیں۔