سائنسدان بلآخریہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں کہ مشہورپوپ اسٹارمائیکل جیکسن کس طرح ڈانس کے دوران 45 ڈگری زاویے پر خود کو جھکا لیتا تھا اور نیچے گرتا بھی نہیں تھا ۔ یہ ایک ایسا راز تھا جو مائیکل جیکسن کی موت کے خاصے عرصے بعد کھلا ہے ۔ مائیکل جیکسن کی زندگی اوران کی موت کی بعد بھی بہت سے فنکاروں اور ڈانسرزنے45 ڈگری کے زاویے پرجھک کرکسی سہارے کے بغیرڈانس کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ یہ خصوصیت صرف مائیکل جیکسن کے حصے میں آتی ہے کہ وہ اس حد تک نیچے جا کر45 ڈگری زاویے پرجھک کرڈانس کرنے کی مہارت رکھتا تھا ۔ اس طرح کے ڈانس میں مائیکل جیکسن کشش ثقل کو بظاہر بے اثرکردیتا تھا لیکن سائنسدانوں نے بڑی محنت کے بعد اس کا سرغ نکلا ہے ۔
یہ راز کیا تھا ؟
سائنسدان کہتے ہیں مائیکل جیکسن کی انوکھی اورمنفرد صلاحیت دراصل ایک ’’ چالاک ترین اقدام میں چھپا فریب نظر‘‘ تھا ۔ مائیکل جیکسن نے کسی سہارے کے بغیر45 ڈگری زاویے پرجھکتے ہوئے نیچے گرے بغیرڈانس کرنے کی یہ وڈیو’’ اسموتھ کرمنل وڈیو‘‘ کے نام خود بنائی تھی۔ اپنی نوعیت کا یہ منفرد ڈانس سب سے پہلے1987 میں منظرعام پر آیا جب اس کی وڈیو ریلیز کی گئی۔ بعد میں مائیکل جیکسن نے اپنے کئی لائیو پروگراموں میں یہ منفرد ڈانس پیش کیا ۔ مائیکل جیکسن کے کئی مداحوں اورپیشہ ورحریفوں نے ایسا منفرد ڈانس پیش کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے کیونکہ 45 ڈگری زاویے پرکسی سہارے کے بغیرجھک کررقص کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن تھا ۔
نیوروسرجنزکی ٹیم نےسراغ لگایا
مائیکل جیکسن کے ایک دیرینہ مداح ’’ نشانت یاگ نِک ‘‘ کی قیادت میں 3 نیوروسرجنز پرمشتمل ٹیم نے اس منفرد اورانوکھے ڈانس کے پیچھے کارفرما حکمت عملی کا سراغ لگایا ۔ اپنی اس کوشش اورتحقیق کے دوران نیورو رسرجنز کی ٹیم نے یہ جانا کہ دنیا کا کوئی بھی ڈانسر کسی سہارے کے بغیر 25 سے 30 ڈگری زاویے سے زیادہ نیچے نہیں جھک سکتا کیونکہ قدرتی طورپرکسی شخص کی ریڑھ کی ہڈی میں اتنی لچک ہوہی نہیں سکتی ۔ نیورو سرجنز کی اس ٹیم نے’’ ان جرنل آف نیوروسرجری: اسپائن ‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک عام انسان ایک مخصوص حد تک ہی اپنی ایڑی اورپنڈلی پرزورڈال کر کسی سہارے کے بغیر نیچے کی جانب جھک سکتا ہے مگرسوال یہ تھا کہ صرف مائیکل جیکسن ہی اس سے زیادہ 45 ڈگری زاویہ پرکیسے کسی سہارے کے بغیر جھک کر ڈانس کرسکتا ہے۔ مائیکل جیکسن کے 45 ڈگری زاویے پرترچھے ہوکر جھکنے سے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس نے کشش ثقل کے قانون کو بے اثر کردیا ہے ۔ اگرچہ یہ تسلیم کرنا اتنا آسان نہیں تھا لیکن سوال پھر بھی اپنی جگہ قائم تھا کہ مائیکل جیکشن کے پاس ایسا کیا جادو تھا کہ وہ 45 ڈگری زاویہ پر اپنی ریڑھ کی ہڈی میں خم ڈالے بغیر کسی سہارے کے بنا نیچے کیسے جھک سکتا ہے ؟؟
یہ وہ سوال تھا جو مائیکل جیکسن کی زندگی اوراس کی موت کے بعد لوگوں کے ذہنوں میں موجود رہا ۔ مائیکل جیکسن کی موت کے بعد اس کے نام سے رجسٹرڈ ایک شے سے یہ راز کھلا ۔ حقیقت یہ ہے کہ مائیکل جیکسن نے اپنے اس انوکھے ڈانس کیلئے ایک مخصوص جوتا تیارکرایا تھا جس کا علم صرف اسے اورجوتا تیارکرنے والے ہی کو تھا۔ یہ ایک ایسا جوتا تھا جس کی ایڑی میں لکڑی کا ایک تکون ٹکڑا رکھا گیا تھا جو ڈانس فلورسے جڑے ایک دھاتی ٹکڑے سے منسلک ہوجاتا تھا اوراس کیلئے ٹائمنگ بہت اہم تھی ۔ یہ مخصوص ڈیوائس ڈانس فلورسے منسلک ہونے کے باوجود ہروقت سامنے نظرنہیں آتا تھا اور مخصوص ٹائمنگ میں فرش سے اوپرابھرکرمائیکل جیکسن کے مخصوص جوتے کی ایڑی میں بنے تکون حصے سے منسلک ہوجاتا تھا جس کی مدد سے مائیکل جیکسن ڈانس کے دوران کسی سہارے کے بنا اپنی ریڑھ کی ہڈی میں خم ڈالے بغیر45 ڈگری زاویے پرترچھا ہوکر لوگوں کو حیران کردیتا تھا ۔
مئیکل جیکسن کی جسمانی مہارت بھی قابل تحسین
تاہم اس معاملے پرتحقیق کرنے والے سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اس چلاکی اورمخصوص ایڑی والے جوتے کے باوجود مائیکل جیکسن کی اپنی جسمانی صلاحتیوں نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا اوراسے کامیابی سے ہمکنارکیا ۔