ایک جدید تحقیق میں یہ حیران کن انکشاف ہوا ہے کہ گرمی جتنی بڑھتی ہے طلبا کی کارکردگی اتنی ہی خراب ہوتی ہے اورغالباً زیادہ گرمی سے زیادہ طلبا فیل ہوسکتے ہیں ۔
ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ درجہ حرارت کا تعلیمی کارکردگی سے گہرا تعلق ہے۔ ایک جائزے میں سیکنڈری اسکولوں کے ایک کروڑ طلباء کے تیرہ سال کے دوران امتحانی نتائج کے مطالعے سے پتہ چلا کہ گرمی کے موسم کا طلباء کی کارکردگی پر منفی اثر پڑا ہے۔
تحقیق کے مطابق اس مسئلے کا ایک حل یہ ہوسکتا ہے کہ ایئرکنڈیشنرکا زیادہ استعمال کیا جائے۔ جن طلباء نےگرمی کی شدید لہر کے دوران امتحانات دیئے ہیں انھوں نے ہمیشہ یہ شکایت کی ہوگی کہ موسم ان کے لئے تکلیف کا باعث ہے۔
ہارورڈ یونیوسٹی، یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس، اورجیارجیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین کی تحقیق میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ پہلی مرتبہ وہ واضح طورپرثابت کررہے ہیں کہ جب درجہ حرارت اوپرجاتا ہے تو اسکولوں میں کارکردگی کا گراف نیچے آتا ہے۔
محققین نے امریکا میں مختلف موسموں والے کئی علاقوں میں 2001 سے 2014 کے دوران طلباء کی امتحان میں کارکردگی کا جائزہ لیا۔
امریکی نیشنل بیورو آف اکنامک ریسرچ کی جانب سے شائع کی گئی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ جن برسوں کے دوران زیادہ گرمی پڑی ان میں طلباء کی کارکردگی ان برسوں کی نسبت خراب رہی جن کے دوران درجہ حرارت کم رہا۔
ہیٹ اینڈ لرننگ نامی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ گرمی کے باعث اسکول میں سبق پردھیان دینا اورگھر آنے کے بعد ہوم ورک پر توجہ دینا مشکل ہوجاتا ہے۔
محققین نےاندازہ لگایا ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں تقریباً صفراعشاریہ چھ ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے سے تعلیمی کارکردگی میں ایک فیصد کمی آئی۔
نسبتاً ٹھنڈے دنوں میں کارکردگی پر کوئی فرق نہیں پڑا لیکن جب درجہ حرارت اکیس ڈگری سنٹی گریڈ سے بڑھا تو کارکردگی پراثرات نمایاں ہونے لگے۔
درجہ حرارت بتیس درجے سے زیادہ ہونے پرتعلیمی کارکردگی تیزی سے خراب ہوئی اوراڑتیس ڈگری سینٹی گریڈ کے بعد اس رفتار میں اوربھی اضافہ ہوا۔
تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گرمی سے کم آمدنی والے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلباء زیادہ متاثر ہوئے۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ طلباء کی کارکردگی خراب ہونے پر متمول خاندانوں نے ٹیوشن جیسے ذرائع کے استعمال سے اس کے حل کی کوشش کی۔
لیکن تحقیق کا کہنا ہے کہ ایک نسبتاً سادہ وضاحت یہ ہوسکتی ہے کہ امیرگھرانوں میں اوران اسکولوں میں جہاں ان کے بچے پڑھتے تھے وہاں اے سی کی بہتر سہولت مہیا تھی۔
ہارورڈ کینیڈی اسکول کے ایسوسی ایٹ پروفیسر جوشوا گڈمین کا کہنا ہے کہ گرمی کے باعث طلباء میں دھیان بٹا ہوا ہونا ، بے چین ہونا، اورتوجہ نہ دے پانا جیسے مسائل کا امکان بڑھ جاتا ہے۔
مسٹرگڈمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسی طرح کی تحقیق برطانیہ جیسے ملک کے تعلیمی نظام کے حوالے سے کرنا مشکل ہوتا کیونکہ وہاں موسمی حالات میں اس قدرتنوع نہیں۔
امریکا میں چونکہ موسم کی نوعیت مـختلف علاقوں میں خاصی مختلف ہے اس لیے ایک ہی سال کے دوران یا گزشتہ برسوں کے دوران طلباء کی کارکردگی کا تقابلی جائزہ لینا ممکن ہے۔
جوشوا گڈ مین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان نتائج سے کچھ اہم سوال جنم لیتے ہیں مثلاً یہ کہ موسمیاتی تبدیلی اورگلوبل وارمنگ اسکولوں میں طلباء کی کارکردگی کو کس طرح متاثر کریں گے۔
تحقیق میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ کے مختلف حصوں میں کارکردگی اورکامیابی کے فرق کے پیچھے زیادہ درجہ حرارت کا ہاتھ ہو۔
شمالی ریاستوں مثلاً میسا چوسٹس نے بین الاقوامی سطح پر ہونے والے امتحانات میں بہترکارکردگی دکھائی ہے جبکہ جنوبی ریاستوں مثلاً الباما اورمسیسپی کی کارکردگی یورپی ممالک سے کم ہے اور ترکی اور میکسیکو کے قریب قریب ہے۔
محقیقین نے اس بات پر بھی بحث کی ہے کہ امریکا کی نسبتاً گرم ریاستوں میں سیاہ فام اور ہسپانوی طلباء کی تعداد زیادہ ہے اور اس طرح نسل کی بنیاد پر کارکردگی کی تفریق کے اثرات بھی ہوں گے۔
اگر طلباء شدید گرمی کے دوران اہم امتحان دیتے ہیں تو کیا اس بات کا امکان ہوگا کہ وہ یونیورسٹی میں داخلہ لینے سے محروم رہ جائیں؟
جوشوا گڈ مین کا کہنا ہے کہ پالیسی بنانے والے ادارے اور والدین اسکولوں اور کمرہ جماعت میں درجہ حرارت کی اہمیت کو مکمل طور پر نہیں سمجھ رہے جسے بچوں کی تعلیمی استعداد بڑھانے کیلئے سمجھنا نہایت ضروری ہے۔