تھائی لینڈکے غارمیں پھنسے بچوں کو بچانے کیلئےریسکیو آپریشن جاری،غوطہ خورہلاک

عالمی میڈیا کے مطابق بچوں کی عمریں 11 سے 15 برس کے درمیان ہیں اوروہ اپنے کوچ کے ساتھ غار میں پہنچے تھے کہ بارش ہوگئی اور کئی کلومیٹر طویل اس غار میں بارش کا پانی بھرنا شروع ہوگیا تھا۔

تمام افراد کو غار کے آخری کنارے پرایک قدرے اونچی جگہ پر پناہ لینا پڑی تھی اور وہ واپس آنے سے قاصر تھے۔

ایک ہفتے سے زائد وقت کی تلاش کے بعد جب وہاں چند غوطہ خور پہنچے توانہوں نے بچوں کو بھوک کی حالت میں دیکھا۔ اس کے بعد انہیں غذا اوردوائیں پہنچانے کا کام شروع ہوا۔ اس غار کا نام تھام لوانگ نینگ نون ہے۔

اب تک غاروں میں غوطہ خوری کے درجنوں ماہرین نے ان بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی ہے جس کے لئے انہیں کئی کلومیٹر تیرنا پڑتا ہے جس میں 10 سے 12 گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ تاہم غار میں پھنسے افراد کی بحفاظت واپسی کے لیے تھائی لینڈ کی بحریہ، امریکا و برطانیہ کے ماہر غوطہ خوروں، غاروں میں ریسکیو کا تجربہ رکھنے والے ماہرین اور دیگر افراد نے بچوں کو بچانے کے لیے کئی آپشنز پرغورشروع کردیا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ چند دنوں بعد بارشوں کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اورغارمیں پانی بھرنے سے آخری پناہ گاہ بھی ڈوب سکتی ہے۔ اسی لیے پائپوں کے ذریعے فی گھنٹہ ہزاروں لیٹرپانی باہر نکالا جارہا ہے تاکہ اسے بچوں تک پہنچنے سے روکا جاسکے ۔ محکمہ موسمیات نے اس ہفتے علاقے میں شدید بارشوں کی پیش گوئی کردی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریسکیو ماہرین کی تشویش وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی ہے۔

غوطہ خوروں کے مطابق سرنگ نما غار کے دومقامات انتہائی تنگ ہیں اوربچوں کو وہاں سے نکالنے کے لیے انہیں تیراکی سیکھنا لازمی ہے  لیکن ان بچوں کی اکثریت تیرنا نہیں جانتی۔

دوسری صورت میں یہ بچے مزید کئی ماہ تک وہاں پھنسے رہیں گے اورمون سون ختم ہونے کے بعد غارسوکھنے پر ہی واپس نکل سکیں گے۔

غار میں تاریکی ہے اور پانی انتہائی گدلا بھی ہے جو پھنسے ہوئے لوگوں تک رسائی میں مزید مشکلات کی وجہ بن رہا ہے۔ تاہم ایک غوطہ خور نے وہاں پہنچ کر ویڈیو بنائی ہے جس میں تمام بچوں کو بہترحالت میں دیکھا جاسکتا ہے اوروہ اپنا تعارف کراتے نظرآتے ہیں۔

اس کے بعد تھائی لینڈ بحریہ کے فوجی وہاں تک پہنچے اور بچوں کو طبی امداد اورکھانا پہنچایا اوران کے زخموں پر مرہم پٹی بھی کی۔ تمام بچے کمزوری محسوس کررہے لیکن کوئی جانی خطرے سے دوچار نہیں۔

دوسری جانب پانی کی بڑی مقدار کو غار سے نکالا جارہا ہے لیکن غار کے دہانے سے دوبارہ پانی اندرداخل ہورہا ہے۔ بچوں کو تیراکی سکھانے کی کوشش بھی کی جارہی ہے۔

ریسکیوعملہ فائبرآپٹک لائن کو بچوں تک پہنچانے کی کوشش کررہا ہے تاکہ وہ اپنے والدین سے بات کرسکیں اورماہرینِ نفسیات نے کہا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت حوصلہ افزا عمل ہوگا۔

دوسری جانب بچوں کی پناہ گاہ کے قریب سرنگ کھودنے کی کوشش بھی کی جارہی ہے جس کے لیے 20 سے 30 ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ ماہرین ایک ایک انچ جگہ کو دیکھ رہے ہیں تاکہ وہاں کوئی قدرتی درز یا راستہ نکل آئے اوراسے کھود کر راہ نکالی جاسکے۔

اس کے باوجود بارش سے غار میں مزید پانی بھرجانے کا چیلنج اب بھی سب سے بڑا خطرہ بنا ہوا ہے۔

دوسری جانب تھائی لینڈ کے غار میں پھنسے ہوئے 12 لڑکوں اوران کے کوچ کو بچانے کے لیے کی جانے والی کوششوں میں شامل تھائی لینڈ کی بحریہ کا ایک سابق غوطہ خورہلاک ہوگیا ہے۔

حکام کا کہنا ہے کہ 38 سالہ سمن گنان لاپتہ گروپ کو سامان فراہم کرنے کے بعد تھیم لوانگ غار کمپلیکس سے باہر نکل رہا تھا کہ آکسیجن کی کمی سے بےہوش ہوگیا تھا اور بعد میں چل بسا ۔

سمن کونان تھیم لوانگ غارکمپلیکس کے قریب لاپتہ ہونے والے 12 بچوں کے لیے دو ہفتے قبل شروع کیے گئے ریسکیو آپریشن کا حصہ تھا۔

مذکورہ خوطہ خور نے اس سے پہلے تھائی لینڈ نیوی کی نوکری چھوڑ دی تھا تاہم وہ غار میں پھنسے ہوئے12 بچوں کے گروپ کو بچانے کے لیے کیے جانے والے آپریشن میں مدد فراہم کرنے کے لیے واپس آیا تھا۔

تھائی لینڈ کی غارمیں پھنسے ہوئے افراد کو بچانے کے لیے شروع کیے جانے والے ریسکیو آپریشن میں ایک ہزار کے قریب افراد حصہ لے رہے ہیں۔ اس آپریشن میں نیوی کے غوطہ خور، فوجی اہلکار اور سویلین رضا کار شامل ہیں۔

نو دن تک لاپتہ رہنے کے بعد پیر کو اس گروپ کا پتہ چلا تھا کہ غاروں میں پانی بھر جانے کے سبب وہ ایک جگہ پھنس کر رہ گئے تھے لیکن اب انھیں کھانا اور دوائیں پہنچائی جا چکی ہیں۔

تاہم تھائی فوج کا کہنا ہے کہ ان افراد کو وہاں سے نکالنے میں مہینوں لگ سکتے ہیں اور اس کے لیے انھیں یا تو غوطہ خوری سکھائی جائے گي یا پھر پانی کے کم ہونے کا انتظار کیا جائے گا۔