احتساب عدالت کی جانب سے فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کو بری کرنے کے نتیجے میں انہیں نااہلی کے معاملے پر بھی فائدہ پہنچنے کا امکان ہے۔ نواز شریف کو کسی ممکنہ رعایت حاصل کرنے سے روکنے کیلئے نیب متحرک ہوگیا ہے اور قومی احتساب بیورو نے اس کیس میں سابق وزیراعظم کی بریت چیلنج کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پیر کو اگرچہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 برس قید کی سزا ہوئی تاہم فلیگ شپ ریفرنس میں ان کی بریت نے ایک نئی بحث چھیڑ دی۔ فلیگ شپ ریفرنس حقیقت میں نواز شریف کے بیٹوں کی جانب سے آف شور کمپنیوں کے قیام سے متعلق ہے۔ ان آف شور کمپنیوں میں سے ایک کیپٹل ایف زیڈ ای تھی جس میں نواز شریف کو ملازم ظاہر کیا گیا تھا۔ کیپٹل ایف زیڈ ای سے نواز شریف تنخواہ لینے کے حقدار تھے۔ تاہم یہ تنخواہ اپنے گوشواروں میں ظاہر نہ کرنے پر سپریم کورٹ نے جولائی 2017 میں انہیں قومی اسمببلی کی رکنیت اور وزارت عظمیٰ کے لیے نااہل قرار دے دیا تھا۔
اب انہی آف شور کمپنیوں کے معاملے میں نواز شریف کو کلین چٹ ملنے سے یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا نااہلی کے معاملے پر بھی سابق وزیراعظم کو کوئی فائدہ پہنچنے گا؟ کیا ان کی نااہلی کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر اثر پڑے گا؟
فلیگ شپ ریفرنس کے فیصلے کا نواز شریف کو کسی بھی طرح سے فائدہ ہونے سے روکنے کیلئے نیب نے فوری طور پر اس فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نیب نے عدالتی فیصلے کے فورا بعد چیئرمین جسٹس(ر) جاوید اقبال کی زیرصدارت اجلاس منعقد کیا جس میں بریت کے خلاف بروقت اپیل کا فیصلہ کیا گیا۔
نیب نے اس حوالے سے ایک پریس ریلیز بھی جاری کی۔
قانونی ماہرین کے مطابق نیب کے پاس فیصلہ چیلنج کرنے کیلئے 30 دن ہیں۔ اس سے قبل ایون فیلڈ ریفرنس کے فیصلے کو نیب نے مقررہ وقت میں چیلنج نہیں کیا تھا جس کے نتیجے میں فیصلے میں کرپشن ثابت نہ ہونے سے متعلق جملوں کا فائدہ میاں نواز شریف کو ہوا تھا۔