آسیہ مسیح کی بریت کے خلاف سپریم کورٹ سے اپیل مسترد کیے جانے پر بدھ کو تحریک لبیک ک مظاہرین نے راولپنڈی اسلام آباد کے سنگم فیض آباد کے علاقے میں احتجاج کی کوشش کی جو پولیس نے ناکام بنا دی۔ تاہم تحریک لبیک کے ارکان نے مری روڈ پر مظاہرہ کیا جبکہ واہ کینٹ ٹیکسلا کے قریب جی ٹی روڈ بھی بلاک کردیا۔
لاہور سمیت ملک کے کئی دیگر شہروں میں بھی بدھ کو احتجاج ہوا۔
پولیس نے درجنوں مظاہریں کو گرفتار کرلیا ہے۔ صرف راولپنڈی ڈویژن کے مختلف شہروں سے 68 افراد گرفتار کیے گئے ہیں۔
https://www.facebook.com/ummat.com.pk/videos/543487869393822/
آسیہ کی بریت کے خلاف اپیل منگل کی سہہ پہر مسترد ہونے کے بعد منگل کی شام اور رات کو کراچی، لاہور سمیت مختلف شہروں میں مظاہرے ہوئے تھے۔ تاہم بدھ کو مزید احتجاج روکنے کے لیے مختلف شہروں میں پولیس کی اضافی نفری تعینات کر دی گئی۔ اسلام آباد میں رینجرز کے اہلکار بھی تعینات کیے گیے۔
اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم پر فیض آباد کے علاقے میں پولیس اور رینجرز کے اہلکار فلائی اورر(پل) پر بھی موجود ہیں۔ اسی طرح کچھ فاصلے پر کھنہ پل پر بھی نفری تعینات کی گئی ہے۔ فیض آباد جڑواں شہروں میں اہم ترین مقام ہے اور یہاں ماضی میں ہونے والے مظاہروں کا اثر دونوں شہروں پر پڑتا تھا۔ کھنہ پل کے علاقے سے اسلام آباد ایکسپریس وے جیسی اہم شاہراہ گزرتی ہے۔
اطلاعات کے مطابق آئی جی اسلام آباد اور ایس ایس پی بھی فیض آباد پہنچے۔
تحریک لبیک پاکستان کے بعض مقامی کارکنوں کی طرف سے بدھ کو فیض آباد پل پر پہنچنے کی کال دی گئی۔ احتجاج کے لیے آنے والے فیض آباد پل سے کچھ فاصلے پر مری روڈ پر جمع ہوئے اور سڑک کچھ دیر کے لیے بند کردی تاہم پولیس نے انہیں منشتر کردیا۔ بعد ازاں تحریک لبیک نے فیض آباد اور اردگرد جمع مظاہرین کو شمس آباد پہنچنے کی کال دے دی۔ شمس آباد کے مقام پر مری روڈ بلاک کردیا گیا۔
پولیس نے کریک ڈائون کرتے ہوئے کم از کم 30 مظاہرین کو گرفتار کرلیا۔
نمائندہ امت کے مطابق فیض آباد کے قریب ہی راولپنڈی کی آبادیوں میں گلیوں کے اندر بھی ٹولیوں کی صورت میں پولیس اہلکار موجود ہیں۔ تحریک لبیک کے ابتدائی مظاہروں کے دوران مرکزی شاہراہوں کو بند کیے جانے کے بعد انہی گلیوں سے لوگ نکل کر احتجاج میں شامل ہوئے تھے۔
جی ٹی روڈ
راولپنڈی ڈویژن میں ہی جی ٹی روڈ پر احتجاج ہوا ہے۔ پولیس ذرائع کے مطابق جی ٹی روڈ منگل کو بھی شریف اسپتال کے سامنے بند کردیا تھا۔ بدھ کو پھر مظاہرے ہوئے۔
پورے ڈویزن میں تحریک لبیک کارکنوں کے خلاف کریک ڈاون جاری ہے۔ راولپنڈی سے 24، اٹک سے 26، جہلم اے 14 اور 4 چکوال سے حراست میں لیے ہیں۔ واضح رہے کہ راولپنڈی کی یہ گرفتاری شمس آباد کی گرفتاریوں کے علاوہ ہیں۔
پولیس ذرائع کا کہنا ہے کہ نقص امن کے خدشے کے پیش نظر گرفتاریاں کی گئی ہیں۔حراست میں لیے گے کارکنوں کو جیل اور تھانوں میں منتقل کیا گیا ہے۔
کراچی میں رینجرز کی کارروائی
کراچی میں منگل کی شب کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے۔ بلدیہ ٹائون میں احتجاج کے سبب حب سے آنے والی سڑک پر ٹریفک معطل ہوگئی۔ مظاہرہ ختم کرنے کے لیے رینجرز کے اہلکار وہاں پہنچے۔ تحریک لبیک کے احتجاج ختم کرنے سے انکار پر شیلنگ کی گئی۔
’آسیہ مسیح کی بریت کیخلاف اپیل کے فیصلے سے قبل گرفتاریاں‘
آسیہ بریت کیخلاف اپیل مسترد ہونے پر کئی شہروں میں مظاہرے
تحریک لبیک کا کہنا ہے کہ ملیر ہالٹ پر بھی احتجاج کرنے والوں کو شیلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔
کھارادر کے قریب میمن مسجد اور ٹاور پر احتجاج ہوا۔ دیگر علاقوں میں بھی مظاہرے رات گئے تک تاہم بدھ کو احتجاج نہیں دیکھا گیا۔
اطلاعات کے مطابق منگل کی شب تحریک لبیک کراچی کے امیر علامہ راضی حسینی کو سول کپڑوں میں ملبوس نامعلوم لوگ گاڑی میں بیٹھا کر لے گئے تھے۔
دیگر شہروں میں بدھ کو احتجاج
بدھ کو ملک کے مختلف علاقوں میں محدود پیمانے پر احتجاجی مظاہروں کی کوشش کی گئی۔ لاہور میں اڈہ کوٹ عبدالمالک میں مظاہرے کے باعث ٹریفک معطل ہوگیا۔
آزاد کشمیر کی تحصیل ڈڈیال میں بھی مظاہرہ ہوا۔ فتح جنگ میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے احتجاج کی کال دے رکھی تھی۔
منظم مظاہرے نہ ہونے کا ایک بڑا سبب تحریک لبیک کی قیادت دو ماہ سے زیر حراست ہے جبکہ مقامی سطح کے رہنمائوں کو بھی آسیہ بریت کے خلاف اپیل کے فیصلے سے قبل گرفتار کرلیا گیا تھا۔ کراچی میں شہر کے امیر کے باہر رہنے کی بدولت مظاہرے ہو سکے تاہم اب وہ بھی گرفتار بتائے جاتے ہیں۔
تحریک لبیک نے اپنے بعض رہنمائوں کو گرفتاری سے بچنے کیلئے روپوشی کی ہدایت کر رکھی تھی تاہم منگل کو جیسے ہی وہ احتجاج کے لیے نکلے انہیں گرفتار کرلیا گیا۔
کراچی کی طرح لاہور کے امیر غلام عباس فیضی کو پنجاب اسمبلی کے سامنے سے گرفتار کرلیا گیا۔
مذہبی رہنمائوں پر تنقید
سوشل میڈیا پر لوگ ان مذہبی رہنمائوں پر تنقید کر رہے ہیں جو سابقہ حکومت کے دور میں تحریک لبیک کے مظاہروں میں بڑھ چڑھ کرشریک ہوتے تھے اور تقاریر کرتے تھے۔
ان رہنمائوں کے نام لے کر اور نام لیے بغیر سوالات کیے جا رہے ہیں کہ یہ اب احتجاج کے لیے کیوں نہیں نکلے۔