اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں چین کو پاکستان کی حمایت سے روکنے کے لیے بھارت نے نیا جال بچھا دیا ہے تاہم بدھ کو پاکستان کے جوابی فضائی حملے اور سفارتی محاذ پر پاکستان کی درست چالوں سے یہ چال ٹوٹتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔
بھارت گذشتہ دس برس سے مسعود اظہر کو عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرانے کی کوشش کر رہا ہے۔ پہلی مرتبہ اس نے 2009 میں اقوام متحدہ کی قرارداد 1267 کے تحت پابندیوں سے متعلق کمیٹی کے سامنے اس سلسلے میں تجویز رکھی تھی۔ اس کمیٹی کو مختصراً 1267 کمیٹی کہا جاتا ہے۔ 2009 سے اب تک چین ہر مرتبہ بھارت اور اس کے اتحادیوں کی تجویز ویٹو کرتا آرہا ہے۔
تاہم اس مرتبہ بھارت نے فرانس، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ مل کر ایک نیا جال بچھایا ہے۔ بدھ 27 فروری کو ان تینوں ممالک نے 1267 کمیٹی میں مسعود اظہر کو دہشت گرد قراردینے کیلئے نیا پروپوزل جمع کرایا اور اسی دن تینوں ممالک نے چین سے رابطہ کرکے اسے قائل کرنے کی کوشش شروع کردی کہ وہ اس مرتبہ مسعود اظہر کے خلاف تجویز کو ویٹو نہ کرے۔
27 فروری کو جمع کرائے گئے پرپوزل پر کمیٹی کو 10 ورکنگ دنوں کے اندر فیصلہ کرنا ہے یعنی(ہفتہ اور اتوار کے ایام چھوڑتے ہوئے) 13 مارچ تک اس تجویز پر ووٹنگ ہونی ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کے اس منصوبے کو آگے بڑھانے میں سب سے اہم کردار فرانسیسی صدر کے مشیر برائے سفارتی امور فلپ ایٹین(Philippe Etienne) نے ادا کیا ہے جن سے بھارت کے مشیر سلامتی اجیت دوول قریبی رابطے میں ہیں۔ 14 فروری کو پلوامہ حملے کے بعد اجیت دوول نے فلپ ایٹین کو کئی فون کیے تھے۔ تاہم فرانسیسی مشیر جانتے تھے کہ تنہا ان کی کوششوں سے کچھ نہیں ہوگا لہٰذا امریکہ اور برطانیہ کو بھی شامل کیا گیا ہے۔
پاکستان کو اس مرتبہ اقوام متحدہ میں گھیرنے کے لیے بھارت نے جامع منصوبہ بنایا تھا لیکن ایک چیز نے حالات بدل دیئے۔
گذشتہ بدھ کو جب مسعود اظہر کو دہشت گرد قرار دینے کا نیا پروپوزل اقوام متحدہ میں جمعہ کرایا گیا اسی روز چین میں روس، چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کا اجلاس ہوا۔ یہ اجلاس پاکستانی حدود میں بھارتی فضائی حملے کے محض ایک روز بعد ہو رہا تھا اور بھارت کی جانب سے فضائی حملے سمیت تمام اقدامات بہت نپے تلے انداز میں کیے جا رہے تھے۔ پاکستان پر حملے کے بعد امن کا درس دیتے ہوئے سشما سوراج دہلی سے اپنے خصوصی طیارے میں چین روانہ ہوئی تھیں۔
روانگی کے وقت ان کا اس بات پر بھی زور تھا کہ بھارتی حملے کے بعد اب مزید ’’کشیدگی‘‘ نہیں بڑھنی چاہئے، دوسرے لفظوں میں وہ عالمی برادری پر زور دے رہی تھیں کہ پاکستان کو کسی جوابی کارروائی سے روکا جائے۔ شاید سشما کو یقین بھی تھا۔ وہ امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو سے بات کر چکی تھیں جنہوں نے کہا تھا کہ بھارت اپنے دفاع میں دہشت گردوں پر حملے کا حق حاصل ہے۔ یہی بات امریکہ اسرائیل کے حوالے سے بھی کہتا ہے۔ لیکن بدھ کی دوپہر جب روس، چین اور بھارت کے وزرائے خارجہ کا اعلامیہ جاری ہو رہا تھا تو پاکستان بھارت کے دو جنگی طیارے مار گرا چکا تھا۔
تین ملکی اعلامیے میں ہر قسم کی دہشت گردی کو قریبی تعاون کے ذریعے ختم کرنے کے عزم کا اعلان کیا گیا تھا۔ تاہم پاکستان سے دوستی نبھاتے ہوئے چینی وزیرخارجہ وانگ یی نے مشترکہ بریفنگ میں یہ بھی کہا کہ پاکستان ہمیشہ سے دہشت گردی کا مخالف رہا ہے۔
چینی وزیرخارجہ کے اس بیان سے چند روز قبل جب اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے پلوامہ میں بھارتی فوجیوں پر حملے کی مذمت میں اعلامیہ جاری کیا تھا تو چین نے اس اعلامیے کی حمایت کی تھی۔ اسی سبب بھارت کو امید دکھائی دینے لگی کہ چین کو پاکستان کی حمایت سے روکا جا سکتا ہے۔ پھر جب امریکی وزیرخارجہ نے پاکستانی حدود میں حملے پر بھارت کی حمایت کی تو نئی دہلی کا حوصلہ مزید بلند ہوگیا۔
تاہم بدھ کی صبح پاکستان نے مقبوضہ کشمیر میں فضائی حملے اور اس کے بعد دو بھارتی طیارے مار گرانے کے بعد ساری دنیا کے تخمینے غلط ثابت کر دیئے تھے اور بھارت کی حمایت کرنے والے روس اور امریکہ جیسے ممالک بھی دوبارہ سوچنے پر مجبور ہوگئے۔
جمعرات کو روسی وزیر خارجہ سرگئی لاروف نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ثالثی کی پیشکش کردی جس کا پاکستان نے خیرمقدم کیا۔ اسی روز روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو فون کیا۔ تاہم مودی نے روسی ثالثی مسترد کردی۔
اسی دن چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے سوال کیا گیا کہ کیا فرانس، امریکہ اور برطانیہ کی جانب سے مسعود اظہر کے خلاف پیش کیے گئے نئے پرپوزل کی چین حمایت کرے گا تو چین نے صاف انکار کردیا۔
چینی وزرا ت خارجہ کے ترجمان نے وہی جواب دیا جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ چین مسعود اظہر کے حوالے سے دے چکا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ’’جیسا کہ ہم کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی کمیٹی 1267 نے کسی تنظیم یا فرد کو دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کرنے کیلئے واضح ضابطہ اصول بنا رکھے ہیں۔ چین اقوام متحدہ کی پابندیوں کی متعلقہ کمیٹیوں اور دیگر ذیلی کمیٹیوں میں ذمہ دارانہ رویہ اپناتا رہے گا اور شرکت کرتا رہے گا۔‘‘
او آئی سی اجلاس میں بھارت کو لینے کے دینے پڑ گئے
بھارت کو امریکہ نے بھی سفارتی اقتصادی ٹھوکر مار دی
یہ حرف بہ حرف وہی جواب تھا جو پلوامہ حملے کے ایک دن بعد 15 فروری کو چینی وزارت خارجہ نے دیا تھا اور جو اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ دیا جا چکا ہے۔ پلوامہ حملے کی مذمت میں چین کی حمایت سے بھارت یقیناً غلط فہمی کا شکار ہوا تھا جب کہ دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی حمایت کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا اسے بدھ کو پاکستان کی جانب سے دیئے گئے فوجی جواب نے بریک لگا دی۔
ایک بار پھر چین کا واضح مؤقف سامنے آنے پر بھارت میڈیا میں مایوسی دیکھی گئی۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے ثالثی کی پیشکش مسترد کیے جانے پر روس زیادہ خوش نہیں۔ کیونکہ عالمی برادری چاہتی ہے پاکستان اور بھارت اپنے مسائل مذاکرات کی میز پر حل کریں نہ کہ جنگ کی میز پر۔
پاکستان کے جوابی حملے کے بعد بھارت میں اپوزیشن جماعت کانگریس سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں سمیت کئی سیاستدانوں کی بھی یہی رائے بن چکی ہے اور وہ کھلے عام اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ جنگ کے بعد بھی مسائل مذاکرات سے ہی حل ہوں گے تو پھر کیوں نہ پہلے ہی بات چیت کر لی جائے۔
تاہم مودی حکومت پاکستان سے بات چیت نہیں کرنا چاہتی۔ کم ازکم بھارت میں عام انتخابات سے پہلے ایسا ممکن نہیں۔ مودی اور ان کے ساتھی ایک بار پھر پاکستان کے خلاف نفرت کو ہوا دے کر انتخابات جیتنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اور اس کی ایک جھلک اتوار کو بہار اور یوپی میں مودی کے جلسوں میں دکھائی دی۔
ایسے موقع پر جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو اگر عالمی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا گیا تو مودی حکومت اسے اپنی کامیابی قرار دے کر انتخابات جیتنے کیلئے جنگی جنون کو مزید بھڑکائے گی جس سے پاک بھارت کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
ذرائع کے مطابق یہی بات چین اور روس کو بھی بتائی گئی ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جعمرات کو چینی ہم منصب وانگ یی سے تفصیلی بات چیت کی۔ سفارتی ذرائع نے امید ظاہر کی ہے کہ 13 مارچ کو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی کمیٹی 1267 میں چین ایک بار پھر پاکستان کے حق میں ویٹو کا استعمال کرے گا۔