افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے ملاعمر کی آخری قیام گاہ کی تصاویر جاری کردی ہیں۔ طالبان نے ڈچ خاتون صحافی بیٹی ڈیم کے اس انکشاف کی تصدیق کردی ہے کہ ملاعمر کبھی افغانستان سے باہر نہیں گئے تھے اور برسوں تک امریکی فوجی اڈے کے قریب ہی ایک مکان میں رہائش پذیر رہے۔
طالبان ترجمان نے دو تصاویر جاری کی ہیں جو ایک کمرے اور اس کے باہر بنے مختصر سے صحن کی ہیں۔ کمرے کے اندر ایک لکڑی کا تخت، ایک ہیٹر، ایک کولر اور چند دیگر اشیا دکھائی دے رہی ہیں۔ دوسری تصویر اسی کمرے کے دروازے اور صحن کی ہے۔ یہ ایک انتہائی چھوٹا ایک کمرے کا مکان ہے جو افغانستان کے دیہی علاقوں میں بنے بیشتر گھروں کی طرح کچا ہے۔ کمرے کے ایک پٹ والے دروازے کے سامنے کچھ کھلی جگہ ہے۔
تصاویر کے ساتھ طالبان نے لکھا کہ ’’وہ کمرہ جہاں مرحوم امیر المومنین ملا محمد عمر نے اپنی زندگی کے آخری 7 برس اور 5 ماہ گزارے اور جس میں ان کا انتقال ہوا۔‘‘
طالبان ترجمان نے کہا کہ ملا عمر اس صحن میں دھوپ سینکتے تھے۔ ذبیح اللہ مجاہد کا یہ بھی کہنا تھا کہ ملاعمر کی زندگی کے بارے میں مزید تفصیلات ایک کتاب میں جلد شائع ہونے والی ہیں۔
اگرچہ طالبان ترجمان نے کتاب کا نام نہیں لیا تاہم ان کا واضح اشارہ ڈچ صحافی بیٹی ڈیم کی کتاب کی طرف تھا۔
ڈچ صحافی نے طویل تحقیق کے بعد ملا عمر کی یہ سوانح حیات Searching for an Enemy کے عنوان سے لکھی ہے جس میں کہا گیا کہ افغان صوبہ زابل کے دارالحکومت قلات میں ملاعمر اپنے محاظ عبدالجبار عمری کے ساتھ ایک گھر میں مقیم رہے۔ یہ گھر سابق طالب عبدالصمد استاذ کا تھا جو ٹیکسی چلاتے تھے تاہم گھر کے افراد کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ایک کمرے تک محدود رہنے والے دو پراسرار افراد کون ہیں۔ عبدالصمد نے ہرممکن حد تک اپنے خاندان کے افراد کو اس گھر سے دور رکھا۔
قلات کے اس گھر کے قریب ہی امریکی فوج نے اڈہ بنا لیا۔ چار برس بعد امریکی فوج نے اس اڈے میں توسیع شروع کردی تو ملاعمر اور جابر عمری 20کلومیٹر دور ضلع شنکے میں ایک اور گھر میں منتقل ہوگئے۔ ان چار برسوں کے دوران قلات والی پناہ گاہ کی دو مرتبہ امریکی فوجیوں نے تلاشی لی لیکن ملاعمر کو نہ دیکھ سکے۔
ڈچ صحافی نے لکھا کہ ملاعمر کے کمرے کا راستہ اس سے پہلے بنے دو کمروں کے اندر سے ہو کر گزرتا تھا اور اس آخری کمرے کا داخلی دروازہ واضح نہیں تھا۔
شنکے میں یہ پناہ گاہ سیورے کے علاقے میں تھی تاہم عبدالجبارعمری نے ڈچ صحافی کو اس کی درست جگہ بتانے سے گریز کیا۔ ملاعمر کے یہاں آنے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکی فوجیوں نے یہاں بھی ایک اڈہ بنا لیا جو وولویرین فاروڈ آپریٹنگ بیس کہلاتا ہے۔ یہ اڈہ ملاعمر کی پناہ گاہ سے صرف تین کلومیٹر دور تھا۔
طالبان کی جانب سے جاری کردہ تصاویر غالباً اسی پناہ گاہ کی ہیں کیونکہ یہاں کمرے کے سامنے دوسرے کمروں کے بجائے کھلی جگہ موجود ہے۔
ملاعمر کی زندگی کے آخری دنوں کی رودود ڈچ صحافی نے عبدالجبار عمری سے حاصل معلومات کی بنا پر لکھی ہے۔ ڈچ صحافی کے بقول ملاعمر نے علاج کے لیے بھی پاکستان جانے سے انکار کردیا تھا۔
یاد رہے کہ اس سے قبل مغربی میڈیا دعویٰ کرتا رہا ہے کہ ملاعمر کا انتقال کراچی کے اسپتال میں ہوا تھا۔
افغان صدر اشرف غنی کی حکومت نے کتاب میں سامنے آنے والے انکشاف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بات کے کافی شواہد موجود ہیں کہ ملاعمر کہاں تھے۔
ملاعمر کا انتقال 2013 میں ہوا تھا تاہم ان کی موت کی خبر 2015 میں سامنے آئی تھی۔ دسمبر 2001 سے انتقال تک ملاعمر نے اپنی زندگی صوبہ زابل می ہی گزاری لیکن افغان اور امریکی حکام ان کی پاکستان میں موجودگی کا دعویٰ کرتے رہے۔