آئی ایم ایف کے ساتھ مذکرات چل رہے ہیں۔فائل فوٹو
آئی ایم ایف کے ساتھ مذکرات چل رہے ہیں۔فائل فوٹو

صوبوں کا انکار۔ پاکستان کیلیے آئی ایم ایف پروگرام خطرے میں پڑ گیا

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے اگلے مالی سال میں صوبوں سے 4 ارب روپے کیش سرپلس کا مطالبہ کیا ہے تاہم صوبوں کی جانب سے اس مطالبے کو غیر حقیقی قرار دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے کیش سرپلس کو وفاقی حکومت کی مزیدٹیکس وصولی کی صلاحیت کے ساتھ جوڑ دیا گیاہے ۔

ایک انگریزی اخبار نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستانی حکام کے ساتھ کیو بلاک میں ہونے والی میٹنگ کے دوران آئی ایم ایف کے مشن نے مجموعی ملکی پیدوار کے ایک فیصد کیش یا 2019-20 کے مالی سال کیلئے 430 بلین روپے کا سرپلس پیدا کرنے پر زور دیا ہے۔

یہ مطالبہ مجموعی بجٹ خسارے کو جی ڈی پی کے 5 فیصد سے کم کرنے اور بنیادی مالیاتی توازن پیدا کرنے کیلیے کیا گیاہے ۔

وزیراعظم عمران خان کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کے ہمراہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ ، خیبر پختونخوا ، بلوچستان اور پنجاب کے وزراخزانہ کی ایم ایف کے ساتھ میٹنگ ہوئی ۔

اجلاس آئی ایم ایف پروگرام کے تناظر میں کیا گیا کہ پاکستان بیرونی شعبے پر دباﺅ کم کرنے اور معیشت کو ترقی کی راہ پر چلانے کیلیے کوشاں ہے ۔

مجموعی آمدن کے مقابلے میں اخراجات کم ہونے کے باعث ، چاروں صوبائی یونٹس اکثر اوقات کیش سرپلس بک کرتی ہیں جوکہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کے مجموعی بجٹ خسارے کا حساب لگانے میں استعمال ہوتا ہے ۔

صوبوں کی جانب سے آئی ایم ایف کے مطالبے کو غیر حقیقی قرار دیا گیاہے اور کیش سرپلس کو این ایف سی ایوارڈز کے تحت آئندہ مالی سال وفاق سے موصول ہونے والے اضافی محصولات کے ساتھ جوڑ دیاہے ۔

آئی ایم ایف کے 430 بلین روپے سے زائد کے کیش سرپلس کے مطالبے کے خلاف ، وزارت خزانہ بھی یہی توقع کرتی ہے کہ چاروں صوبے ممکنہ طور پر تقریبا 275 بلین روپے کا کیس سرپلس پیدا کر سکتے ہیں یا پھر جی ڈی پی کا 0.6 فیصد۔صوبوں کا وزارت خزانہ کے کیش سرپلس مطالبے کو قبول کرنے کی طرف جھکاﺅ ہے لیکن انہوں نے اسے بھی ایف بی آر کی ٹیکس اکٹھا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ جوڑ دیاہے ۔

موجودہ مالی سال کیلیے ایف بی آر سے امید کی جارہی ہے کہ وہ 4 ٹریلین روپے سے کم ٹیکس اکٹھا کرے گی تاہم اس کے برعکس آئی ایم آیف آئندہ مالی سال یہ اعداد 5.4 ٹریلین روپے پر دیکھنا چاہتی ہے ۔

وزارت خزانہ کے حکام کو یقین ہے کہ 1.4 ٹریلین روپے اضافی ٹیکس اکٹھا ہونے پر صوبائی حکومتیں اس پوزیشن میں آجائیں گی کہ وہ کیش سر پلس پیدا کر سکیں ۔