امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے شام سے اپنی فوج نکالے جانے کے چند گھنٹوں بعد ہی ترک فوج نے شام پر حملہ کر دیا اور سرحد سے ملحق قصبے راس العین پر بمباری کی گئی جبکہ ترک فوج کے زمینی دستے بھی شام میں داخل ہو گئے ہیں۔
ایک برطانوی خبرایجنسی کے مطابق گزشتہ روز ترکی نے شام پر پہلا ہلہ بولا اور کرد جنگجوﺅں کے سپلائی روٹ پر بمباری کی۔ ترکی کے اس حملے کا مقصد شام اور ترکی کے بارڈر پرایک ’پیس کوریڈور‘ قائم کرنا ہے تاکہ شام کی حدود سے کرد جنگجو ترکی میں جو حملے کرتے ہیں انہیں روکا جا سکے۔
خبرایجنسی کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں دہشت گردوں کی راہداری کو ختم کرنا ہے، ترکی نے شام میں فوجی آپریشن کا فیصلہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
رپورٹ کے مطابق فوجی کارروائی کے حوالے سے ترک سیکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ شام میں فوجی آپریشن فضائی کارروائی سے شروع کیا گیا ہے اور اس میں بری فوج کا تعاون بھی حاصل ہوگا۔
ترک میڈیا کے مطابق راس العین میں بمباری کی گئی، طیاروں کے اڑنے کی آوازیں بھی سنی جاسکتی ہیں اورعمارتوں سے دھواں اٹھتا نظر آرہا ہے،شام میں فوجی کارروائی کے تازہ سلسلے پر متعدد ممالک کی جانب سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے کہ اس سے خطے کے بحران میں اضافہ ہوگا۔
ترکی کا کہنا تھا کہ کارروائی کا مقصد خطے کو محفوظ بنانا ہے تاکہ لاکھوں مہاجرین کو شام واپس بھیجا جاسکے۔
دوسری جانب شام کا کہنا ہے کہ وہ ترکی کی کسی بھی جارحیت کا قانونی طریقے سے جواب دینے کے لیے تیار ہے،دریں اثناء ایران نے شام میں ترکی کے ممکنہ فوجی آپریشن کی مخالفت کرتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ترکی شام کی علاقائی سالمیت اور خودمختاری کا احترام کرے۔
ایرانی وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان کے مطابق ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے ترک ہم منصب سے ٹیلی فونک گفتگو کی۔جواد ظریف نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان مسائل کے حل کیلئے سب سے بہترین راستہ ’آدنا معاہدہ‘ ہے۔
ادھر ترک صدر رجب طیب اردوآن کے ایک قریبی ساتھی نے کہا ہے کہ ترک فوجی دستے شامی باغیوں کے گروپ فری سیریئن آرمی کے ساتھ جلد ہی سرحد عبور کر کے شمالی شام میں داخل ہو جائیں گے، ادھر یورپی یونین نے کہا ہے کہ شام میں ترکی کے مجوزہ فوجی آپریشنز سے پناہ گزینوں کی نئی لہر پیدا ہوگی ۔