سپریم کورٹ کے جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا ہے کہ انٹیلی جنس حکام کس قانونی اختیار کے تحت ٹیلی فون ٹیپ کرتے ہیں، انسانی وقار کا معاملہ ہے اس حوالے سے قانونی سازی ہونی چاہیے۔
انہوں نے یہ ریمارکس سپریم کورٹ کے دس رکنی بینچ کے رکن جسٹس منصورعلی شاہ نے یہ ریمارکس جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست پر سماعت کے دوران دیے۔ کیس کی سماعت جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں دس رکنی لارجر بینچ نے کی۔
دوران سماعت جسٹس قاضی فائزعیسی کے وکیل منیراے ملک نے بے نظیر بھٹو کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی جاسوسی کرنا منتخب حکومت کو تحلیل کرنے کیلیے کافی ہے، بے نظیر بھٹو کیس میں سپریم کورٹ نے قرار دیا جاسوسی، ٹیلی فون ٹیپنگ اسلام کے خلاف ہے۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا جاسوسی سے گھر کا سکون برباد ہوتا ہے، عدم تحفظ پھیلتا ہے۔ بھٹو کیس میں کہا گیا آرٹیکل 14 انسانی وقار، اور پرائیویسی کا ضامن ہے،سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کیس میں بھی جاسوسی کو بنیادی حقوق سے متصادم قرار دیا گیا۔
ایک موقع پرجسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کیا انٹیلی جنس حکام کو ایسا قانونی اختیار حاصل ہے کہ وہ فون ٹیپ کرسکیں، ایڈووکیٹ منیراے ملک نے جواب دیا ایسے کسی قانون کے حوالے سے مجھے کوئی علم نہیں،امریکہ میں ٹیلیفونک ٹیپ کیلئے جوڈیشل افسر کی اجازت ضروری ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ یہ انسانی وقار کا معاملہ ہے، فون ٹیپ کیلیے کوئی قانون ہونا چاہیے۔ بتایا جائے جاسوسی سے کیا مراد ہے،کیا کسی کا پیچھا کرنا جاسوسی ہے یا کسی کے بیڈ روم میں کیمرے لگانا جاسوسی کے زمرے میں آتا ہے،کیا کسی عدالت کا ایسا کوئی حکم موجود ہے۔منیراے ملک نے کہا کہ میرے علم میں ایسا نہیں۔
جسٹس عمر عطا بندیال برجستہ نے کہا کہ اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ایڈووکیٹ منیراے ملک نے کہاجج اوراس کے اہل خانہ سمیت کوئی بھی جاسوسی کا نشانہ بن سکتا ہے،جسٹس عمرعطا بندیال نے تائید کرتے ہوئے کہا کوئی بھی اس کا شکار ہوسکتا ہے۔