مشرف نے سزائے موت کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔فائل فوٹو
مشرف نے سزائے موت کیخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائرکی تھی۔فائل فوٹو

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کیس کا تفصیلی فیصلہ

آئین توڑنے کے جرم میں سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو سنائی گئی سزائے موت کے جاری کیے گئے تفصیلی فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگرپرویزمشرف فوت ہو جاتے ہیں توان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور3 روزتک وہاں لٹکایا جائے۔

تفصیلی فیصلے میں خصوصی عدالت نے جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 مرتبہ سزائے موت کا حکم سناتے ہوئے کہا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف پر5 چارج فریم کیے گئے تھے، ہر جرم پرایک بار سزائے موت دی جائے۔

عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرونِ ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو قانون کے کٹہرے میں لانے کا حکم دیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، کور کمانڈرز اس میں ملوث نہیں تھے تو انہوں نے ایک شخص کو غیر آئینی اقدام سے کیوں نہیں روکا؟پاک فوج کے حلف میں انہیں سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھنے کا کہا گیا ہے۔

تفصیلی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، پرویز مشرف کے کریمنل اقدام کی تفتیش کی جائے، آئین عوام اور ریاست کے درمیان معاہدہ ہے، استغاثہ کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے، غداری کیس 2013 میں شروع ہو کر 6 سال بعد ختم ہوا، مشرف کو حق سے زیادہ شفاف ٹرائل کا موقع دیا، کیس کا ریکارڈ رجسٹرار کی تحویل میں رہے گا۔

فیصلے میں بلیک لا ڈکشنری کا حوالہ بھی دیا گیا، بلیک لا ڈکشنری کے تحت غیر آئینی لفظ کی تشریح کی گئی، تفصیلی فیصلے میں آکسفورڈ ڈکشنری کا بھی ذکر کیا گیا۔ تفصیلی فیصلے میں کہا گیا اعلیٰ عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریہ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کا جرم کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ جرم کا ارتکاب سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 عمرانی معاہدے کو چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، آئین آرمی چیف کو کسی غیر آئینی اقدام کا اختیار نہیں دیتا، ایک لمحے کی بھی معطلی آئین کو اٹھا کر باہر پھینکنے کے مترادف ہے، ملک میں ایمرجنسی لگا کر آئین کو معطل نہیں کیا جاسکتا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ممبران افواج پاکستان سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کی قسم کھاتے ہیں، حلف کے تحت ممبران افواج پاکستان آئینی بالادستی، ملک سے وفاداری کے پابند ہیں، افواج پاکستان کے ہر ممبر نے ملکی خدمت کی قسم کھائی ہوتی ہے، افواج کی اعلیٰ قیادت کے ہر ممبر نے آئین کا تحفظ نہ کر کے حلف کی خلاف ورزی کی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جمع کرائے گئی دستاویزات واضح ہیں کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہے کے بغیر ثابت ہوتے ہیں، ملزم کو ہرالزام پرعلیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جاتی ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ مشرف اپنے دور میں تمام اختیارات کا سرچشمہ تھے جو آئین معطل کرنے کے بعد اپنی خواہشات پر آئین تبدیل کرتے رہے، انہوں نے آئینی اور قانونی احکامات کو آمریت نافذ کرکے ختم کیا، آرٹیکل 6 کو شامل کرنے کا مقصد مستقبل میں ڈکٹیٹرشپ کو روکنا ہے۔

جسٹس شاہد کریم نے ڈی چوک پر لاش لٹکانے کی بات سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پرویز مشرف کو قانون سے ہٹ کر مثالی سزا دینا قانون کے برخلاف ہوگا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتارکرکے لائیں تاکہ سزا پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔

فیصلے میں جسٹس وقار سیٹھ نے اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ پھانسی سے قبل اگر پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو ان کی لاش ڈی چوک لائی جائے اور 3 روز تک وہاں لٹکائی جائے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا کیس ہے، سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلیٰ عدلیہ نے نظریۂ ضرورت متعارف نہ کرایا ہوتا تو قوم کو یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، نظریۂ ضرورت کے باعث یونیفارم افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔

تفصیلی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس جرم کا ارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے جرم میں آتا ہے، آرٹیکل 6 آئین کا وہ محافظ ہے جو ریاست اور شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنے والے کا مقابلہ کرتا ہے۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ہماری رائے ہے کہ سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا، آئین کے تحفظ کا مقدمہ 6 سال پہلے 2013ء میں شروع ہوکر 2019ء میں اختتام پذیر ہوا۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ مشرف نے 3 نومبر2007ء کو آئین پامال کیا، خصوصی عدالت 20 نومبر 2013ء کو قائم کی گئی، ‎31مارچ 2014 ءکو عدالت نے پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی۔

فیصلے کے مطابق خصوصی عدالت نے 19 جون 2016ء کو پرویز مشرف کو مفرور قرار دیا، خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نو ہوئی۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین عوام اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے، استغاثہ کے شواہد کے مطابق ملزم مثالی سزا کا مستحق ہے۔

جسٹس نذر اکبر نے اختلافی نوٹ میں پرویز مشرف کو بری کر دیا ۔

جسٹس نذر اکبر نے اپنے 44 صفحات پر مشتمل اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں ناکام رہا، میں نے ادب سے اپنےبھائی وقار احمد سیٹھ صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھا ہے۔

اختلافی نوٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ میں ادب کے ساتھ صدرِ عدالت اور اکثریت کی آبزرویشنز اور نتائج سے اختلاف کرتا ہوں، پارلیمنٹ نے پہلے خاموشی اختیار کر کے پھر آرٹیکل 6 میں ترمیم کر کے عدلیہ کو دھوکا دیا، اس عمل کا واحد ہدف 3 نومبر 2007ء کا اقدام تھا۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ قومی یا صوبائی اسمبلی میں ایمرجنسی کے نفاذ پر کوئی احتجاج نہیں کیا گیا، ایک بھی رکنِ پارلیمنٹ نے پارلیمنٹ میں آواز نہیں اٹھائی، قومی اسمبلی نے 7 نومبر2007ء کو اپنی قرارداد منظور کر کے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کی۔

اختلافی نوٹ میں کہا گیا ہے کہ بہت سارے پارلیمنٹیرین وکلا تھے، وہ وکلا تحریک کا حصہ تھے، کسی میں ہمت نہ ہوئی کہ ایمرجنسی کے نفاذ کے خلاف پارلیمنٹ میں تحریک لاسکے۔