جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے الزام عائد کیا ہے کہ وزیراعظم عمران خان سمیت کئی سیاستدانوں کی آف شورکمپنیاں ہیں جنہیں ظاہرنہیں کیا گیا،ان کمپنیوں کے ذریعے غیرملکی جائیدادوں کو چھپایا گیا۔
جواب میں انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی ان نمایاں شخصیات میں شامل ہیں، وزیراعظم نے خود اپنی اہلیہ اور بچوں کے اثاثے ظاہر نہیں کیے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے موقف اختیار کیا کہ ان کے خلاف صدارتی ریفرنس بدنیتی پرمبنی ہے، اسے کالعدم قرار دیا جائے اور صدر، وزیر اعظم، وزیر اعظم کے معاون خصوصی، وزیرقانون اور اٹارنی جنرل سمیت غیر قانونی جاسوسی کے عمل میں ملوث افراد کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے۔
تحریری جواب میں کہا گیا کہ’ایسے تمام افراد کے خلاف فوجداری مقدمات بھی قائم کیے جائیں جنھوں نے سپریم کورٹ کے جج اور ان کے خاندان کے افراد کی غیر قانونی طریقوں سے جاسوسی کی اوران سے متعلق زاتی معلومات کو افشاں کیا۔‘
انہوں کہا کہ فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس میں میری ذات پرالزامات لگائے گئے،الزامات غلط ثابت ہونے پرتوہین عدالت کی کارروائی ہو سکتی ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ سپریم کورٹ توہین عدالت مقدمہ میں سابق وزیراعظم کو سزا دے چکی ہے اور فیض آباد دھرنا نظرثانی کیس کی تیاری سے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان لاعلم نہیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اپنے جواب میں کہا کہ جب عمران خان نے شہزاد اکبر کو معاون خصوصی کا منصب دیا تو ان کے نوٹیفکیشن میں اثاثہ ریکوری یونٹ کا کسی قسم کا کوئی ذکر نہیں، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسا یونٹ ہے جسے کسی قانون کے بغیر ہی چلایا جا رہا ہے۔
اپنے جواب میں انہوں نے مزید کہا کہ حکومت نے میری فیملی کی مخبری کے لیے برطانیہ میں نجی کمپنی کی خدمات حاصل کیں جب کہ میں نے اہلیہ اور بچوں نے برطانیہ کی جائیداد کو آف شورکمپنیوں کے ذریعے کبھی نہیں چھپایا کیونکہ وہ انہوں نے اپنے نام پر خریدیں۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ اورہائی کورٹ کے 2 ججزکے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائرکررکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
پہلے ریفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ اور کے کے آغا پر بیرون ملک جائیداد بنانے کا الزام عائد کیا گیا۔ صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون 2019 کو طلب کیا گیا تھا، اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے گئے تھے۔
سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنسز کی سماعت اختتام پذیر ہو چکی ہے۔ ذرائع کے مطابق سابق اٹارنی جنرل انور منصور خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جواب کا جواب الجواب کونسل کے اجلاس میں جمع کرایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی جانب سے صدر مملکت کو خط لکھنے پر سپریم جوڈیشل کونسل میں ایک اور ریفرنس دائر کیا گیا تھا جس کو کونسل نے خارج کردیا تھا۔