امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے قتل کے ایک ہفتے بعد بھی پرتشدد مظاہرے جاری ہیں اور احتجاج کا سلسلہ یورپ تک وسیع ہوگیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکا میں شہر شہراحتجاج ہورہا ہے اورسفید فام پولیس اہل کارکے ہاتھوں سیاہ فام شخص کے قتل پرمظاہرے پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔
مظاہرین نے مختلف شہروں میں ریلیاں نکالیں جنھیں منتشرکرنے کے لیے پولیس نے جب طاقت کا استعمال کیا تو جھڑپیں شروع ہو گئیں۔پولیس کی جانب سے آنسو گیس اورربڑ کی گولیوں کے استعمال پر مظاہرین مشتعل ہوگئے اوردرجنوں گاڑیوں کو آگ لگا دی۔ مختلف شہروں میں پولیس پر فائرنگ بھی کی گئی۔
پولیس نے وائٹ ہاوس کے باہر جمع پرامن مظاہرین کو آنسو گیس کے ذریعے منتشرکیا اوروائٹ ہاوس کے اطراف علاقہ سیل کر دیا گیا۔ سڑکیں عام ٹریفک کیلیے بند کر دی گئیں۔
مقتول جارج فلائیڈ کے اہل خانہ نے مظاہرین سے پرامن رہ کراحتجاج جاری رکھنے کی اپیل کی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق جارج فلائیڈ کی موت گردن اور کمر پردبائو پڑنے کے باعث دم گھٹنے سے ہوئی۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے امریکی انتظامیہ سے مظاہرین کے ساتھ تحمل سے نمٹنے اور واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکا میں پولیس اہل کاروں کے ہاتھوں سیاہ فام جارج فلائیڈ کے قتل کے خلاف جاری احتجاج نسل پرستانہ منافرت کے خلاف عالمی ردعمل کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
آسٹریلیا اور یورپ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ اور امریکا میں نسلی منافرت کے واقعات کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں بڑی تعداد نے شرکت کی۔ جرمنی کے وزیر خارجہ نے جارج فلائیڈ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس کے خلاف ہونے والے احتجاج کو بالکل جائز قرار دیا۔
چینی وزارت خارجہ نے امریکا میں نسلی منافرت کو امریکی سماج کا مستقبل عارضہ قرار دیتے ہوئے اس کی مزمت کی ہے۔ چینی ذرائع ابلاغ میں بھی امریکا میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی وسیع پیمانے پر کوریج ہورہی ہے۔