شیخ الحدیث و تفسیر اور تحریک لبیک پاکستان کے امیر علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک وفات کے حوالے سے تحریک کے بعض رہنمائوں کو شکوک و شبہات ہیں۔ اس بات کا انکشاف ٹی ایل پی کے مصدقہ ذرائع نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کیا ہے۔ واضح رہے کہ علامہ خادم حسین رضوی کے اچانک وفات پاجانے کے بعد سے سوشل میڈیا پر پہلے ہی افواہوں کا بازار گرم ہے۔ تاہم علامہ صاحب کے اہل خانہ نے اس بارے میں تاحال کوئی سوال نہیں اٹھایا ہے۔
خاندانی ذرائع سے چلنے والی خبروں میں کہا گیا ہے کہ علامہ خادم حسین رضوی پچھلے چند روز سے علیل تھے۔ اور فیض آباد دھرنے کے موقع پر پندرہ نومبر کو جب انہوں نے خطاب کیا تھا تو اس وقت بھی انہیں ایک سو ایک بخار تھا۔ ٹی ایل پی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس کے باوجود ٹی ایل پی کے بعض رہنما، جن کی تعداد ایک سے زائد ہے۔ یہ سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب کی موت طبعی نہیں تھی۔ لہٰذا اس بارے میں تحقیقات ہونی چاہیے۔
تحفظات کرنے والے رہنمائوں میں سے ایک کا کہنا ہے کہ جتنے اہل بصیرت لوگ ہیں، چاہے ان کا تعلق تحریک لبیک پاکستان سے ہے یا وہ ٹی ایل پی سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ علامہ صاحب کی موت طبعی نہیں تھی۔ ان کی جان لی گئی ۔
ساتھ ہی اس رہنما کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی میں اس نوعیت کے شکوک و شبہات رکھنے والے کچھ نہیں، بہت سے ہیں۔ علامہ صاحب کی اچانک وفات ایک بڑا سانحہ ہے۔ ابھی معاملات شروع ہوئے ہیں۔
لہٰذا دیکھنا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے نام سے الگ تنظیم بنانے والے ڈاکٹر محمد اشرف آصف جلالی نے بھی علامہ خادم حسین کی اچانک وفات پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ اس حوالے سے اپنے ٹویٹ میں ڈاکٹر اشرف جلالی کا کہنا ہے ’’اگرچہ موت اچانک آتی ہے۔ مگر علامہ خادم حسین رضوی کی وفات اور اس سے پہلے کچھ دنوں کے حالات و واقعات نے صاحب بصیرت لوگوں کے لئے کچھ تشویش ناک سوالات کو جنم دیا ہے‘‘
۔ ڈاکٹر اشرف جلالی ایک طویل مدت تک علامہ خادم حسین رضوی کے ساتھ مل کر تحفظ ناموس رسالتؐ کے لئے کام کرتے رہے۔ بعد میں ان کے راستے الگ ہوگئے تھے۔ تاہم انہوں نے علامہ صاحب کی نماز جنازہ میں شرکت کی اور وہ آج بھی ان کی تعظیم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر اشرف جلالی چار ماہ کوٹ لکھپت جیل لاہور میں گزار کر رہا ہوئے تھے اور اسی روز علامہ خادم حسین رضوی کی اچانک وفات ہوگئی۔
تحریک لبیک پاکستان کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ حکومت سے کئے جانے والے معاہدے پر بھی تحریک کے کئی رہنمائوں کو تحفظات ہیں۔ یہ رہنما سمجھتے ہیں کہ حکومت اس معاہدے پر عمل کرنے میں مخلص نہیں۔ ان کے خیال میں فرانس کی مصنوعات کا سرکاری سطح پر مکمل بائیکاٹ کرنے سے متعلق شق پر عمل کرنے کے لئے فوری نوٹیفکیشن جاری کیا جا سکتا تھا۔ حکومت کا کام آرڈر کرنا ہوتا ہے۔ پارلیمنٹ قانون بناتی ہے۔ لہٰذا فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کئے جانے سمیت معاہدے میں شامل دیگر تمام شقوں پر عمل کے لئے حکومتی آرڈر کی ضرورت تھی، کسی قانون سازی کی نہیں۔
معاہدے سے متعلق بات چیت کے لئے جب تحریک لبیک پاکستان کے بانی رہنما ، مجلس شوریٰ کے رکن اور ترجمان پیر اعجاز اشرفی سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت معاہدے پر عمل نہیں کرتی تو آئندہ کے لائحہ عمل کا فیصلہ مجلس شوریٰ کو کرنا ہوگا۔ پیر اعجاز اشرفی نے بتایا کہ علامہ خادم حسین رضوی کے ایصال ثواب کے لئے اتوار کو بعد نماز مغرب مرکز اہلسنت درگاہ و مساجد قطب شاہ ولی رحمن اچھرہ لاہور میں بھی فاتحہ خوانی ہوئی۔
اس موقع پر ہالینڈ کے ملعون گیرٹ ویلڈر کو بھرپور جواب بھی دیا گیا۔ علامہ خادم حسین رضوی کی وفات پر ڈچ ملعون نے اپنے ٹویٹ میں خوشی کا اظہار کیا ہے۔ پیر اعجاز اشرفی کے بقول ملعون گیرٹ ویلڈر عالمی گستاخ ہے۔ جس طرح فرانس کے صدر نے گستاخی کی۔ ملعون گیرٹ ویلڈر اسی طرح کی گستاخیاں پہلے بھی کرتا رہا ہے۔
علامہ خادم حسین رضوی کی وفات پر خوشی منانے والے ملعون گیرٹ ویلڈر کو آج (اتوار) کے اجتماع کے ذریعے یہ جواب دیا گیا ہے کہ اب لاکھوں علامہ خادم حسین رضوی میدان میں آگئے ہیں۔ لہٰذا اسے خوش ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ صرف علامہ صاحب کی نماز جنازہ کے لئے مینار پاکستان پر جمع ہونے والے لاکھوں افراد کو دیکھ لے، جو یک زبان ہوکر کہہ رہے تھے کہ ’’لبیک یا رسول اللہ‘‘۔ یہ ملعون کو پیغام ہے کہ ایک علامہ خادم حسین وفات پاگئے۔ لیکن اپنے جیسے لاکھوں عشاق رسولؐ پیچھے چھوڑگئے ہیں۔
دوسری جانب تحریک لبیک پاکستان کے نئے امیر حافظ سعد حسین رضوی نے داتا دربار لاہور میں علامہ صاحب کے ایصال ثواب کے لئے ہونے والی قل خوانی کے موقع پر اپنی تقریر میں ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ گستاخوں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ جہاں کارکنوں کا پسینہ گرے گا۔ وہاں ان کا اور تحریک لبیک کے رہنمائوں کا خون گرے گا۔
حکومت کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے بارے میں حافظ سعد حسین رضوی نے واضح کیا کہ اگر حکومت اس معاہدے سے روگردانی کرتی ہے تو پھر ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے یا اس سے قبل مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کر کے کوئی ایسا فیصلہ کیا جائے گا۔ جس فیصلے کی توقع لوگوں کو ہم سے ہے۔