واشنگٹن: شمالی افریقا کے ایک اور عرب مسلمان ملک مراکش نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا۔
اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکا کے صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ آج ایک اور تاریخی پیش رفت ہوئی ہے۔ ہمارے دو قریبی دوست اسرائیل اور سلطنت مراکش نے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنے پر رضا مند ہوگئے ہیں۔ یہ مشرق وسطیٰ کے امن کے لیے ایک بہت بڑی پیش رفت ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں ادارے کے مطابق جمعرات کو امریکی صدر اور مراکش کے بادشاہ محمد ہشتم میں ٹیلیفونک رابطہ ہوا جس میں اس معاہدے کو حتمی شکل دینے پر بات چیت کی گئی۔
وائٹ ہاؤس سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اسرائیل کو تسلیم کرنے کے بدلے میں صدر ٹرمپ نے مغربی صحارا پر مراکش کے دعوے کو قبول کرلیا ہے۔ اس علاقے میں مراکش اور الجیریا کے حمایت یافتہ پولیساریو محاذ کے مابین دہائیوں سے جھڑپیں جاری تھیں۔ پولیساریو اس خطے کو ایک آزاد ریاست بنانا چاہتے ہیں تاہم اب امریکا نے اس علاقے پر مراکش کا اختیار تسلیم کرلیا ہے۔
رواں برس اگست کے بعد مراکش چوتھا عرب ملک کے ہے جس نے اسرائیل کے ساتھ مکمل سفارتی تعلقات قائم کرنا کا معاہدہ کیا ہے۔ اس سے قبل متحدہ عرب امارات، بحرین اور سوڈان، اسرائیل سے تعلقات کے معاہدے طے کرچکے ہیں۔
اس معاہدے کے تحت مراکش اسرائیل سے باضابطہ اور مکمل سفارتی تعلقات قائم کرے گا اور تمام اسرائیلی پروازوں کے لیے اپنی فضائی حدود کھول دے گا۔
فلسطین عرب ممالک کی جانب سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے فیصلوں پر کڑی تنقید کرتا رہا ہے۔ اس کا مؤقف ہے کہ فلسطینی ریاست کے لیے علیحدہ قطعہ زمین کے دیرینہ مطالبہ پورا ہوئے بغیر اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنا ان عرب ممالک کی اپنے دیرینہ موقف سے پسپائی ہے۔
صدر ٹرمپ 20 جنوری کو اپنے عہدے سے سبک دوش ہورہے ہیں اور اس معاہدے پر دستخط کروانا منصب پر رہتے ہوئے ان کے آخری کاموں میں سے ایک ہوگا۔