امت رپورٹ
بھارت میں جاری کسان تحریک میں جمعرات کے روزایک نیا موڑآگیا، جب دو ہفتے سے جاری دھرنے اوراحتجاج کے دوران ہونے والی بات چیت کے کئی رائونڈ کے بعد حکومتی پیشکش کو کسان رہنمائوں نے یکسر مسترد کردیا۔
مودی سرکار نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے زراعت سے متعلق تین متنازعہ قوانین میں متعدد ترامیم کی یقین دہانی کرائی تھی۔ تاہم کسان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ تینوں قانون مکمل طور پر واپس لئے جانے تک احتجاج جاری رہے گا۔ ادھر خالصتان تحریک کے ایک اہم رہنما کا کہنا ہے کہ بھارت میں حالیہ احتجاج اگرچہ کسانوں کا مورچہ ہے۔ لیکن بھارت سے آزادی کے لئے جاری تحریک پر بھی اس کے طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی کے چاروں اطراف دیئے جانے والے دھرنے پندرہویں روز میں داخل ہوچکے ہیں۔ اس دوران پریشان حال مودی سرکار نے مظاہرین کے ساتھ مذاکرات کی متعدد کوششیں کیں، لیکن تاحال کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے۔
دہلی کے کنڈلی بارڈر کے دھرنے میں موجود رنگلا سیٹلائٹ ٹی وی کی رپورٹر جسپریت سنگھ نے بتایا کہ شدید ترین سردی میں بھی ملک کی مختلف ریاستوں سے آنے والے لاکھوں کسانوں نے دارالحکومت دہلی کے ساتھ داخلی راستوں پر مسلسل دھرنے دے رکھے ہیں۔ دو ہفتے سے زائد کا عرصہ گزرجانے کے باوجود بھی شدید ٹھنڈ میں کھلے آسمان تلے بیٹھے مظاہرین کا عزم ہے کہ وہ اپنے مطالبات تسلیم کرائے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ ان لاکھوں مظاہرین میں بیس فیصد خواتین اور پینتیس فیصد بوڑھے بھی شامل ہیں، جن کی عمریں ساٹھ سے ستّر برس کے درمیان ہیں۔
جسپریت سنگھ کے مطابق جمعرات کے روز کنڈلی بارڈر کے دھرنے میں موجود مظاہرین میں سے سینکڑوں کسانوں نے اپنے کرتے اتار کر مارچ کیا، جس سے ان کے حوصلوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان مظاہرین کا کہنا تھا کہ مودی سرکار نے ان کی زمینیں چھیننے اور کپڑے اتارنے کے لئے نئے قانون منظور کرائے ہیں۔ اس لئے وہ کرتے اتار کر مظاہرہ کر رہے ہیں۔ اور جب تک دم ہے ، احتجاج کرتے رہیں گے۔
بھارتی دارالحکومت دہلی کو کسانوں کے گھیرے سے نکالنے کے لئے بوکھلائی ہوئی مودی سرکار کے وزیر زراعت نریندرا سنگھ طومار نے جمعرات کے روز اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت کسانوں سے مزید مذاکرات کے لئے تیار ہے۔ نریندرا طومار کا کہنا تھا ’’کسان اتنی سردی میں یہاں بیٹھے ہوئے ہیں۔ کورونا کا بھی ایشو ہے۔ لہٰذا ہمیں ان کی فکر ہے ۔ میں اپنے کسان بہن بھائیوں کو یقین دلاتا ہوں کہ ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں گے۔ کسانوں کے مطالبات سے متعلق حکومت نے جو تحریری ڈرافٹ انہیں بھیجا ہے، وہ اس پر سنجیدگی سے غور کریں۔ میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ اجناس پر حکومت کی کم سے کم سپورٹ پرائز کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ‘‘
کسان رہنمائوں نے حکومت کی اس پیشکش کو رد کردیا ہے اور کہا ہے کہ تینوں قانون ختم کئے جانے تک دھرنے جاری رہیں گے۔ اس حوالے سے بھارتیہ کسان یونین سکھد یو سنگھ کا کہنا تھا کہ کسی صورت سرکار کی دادا گیری نہیں چلنے دیں گے۔ تینوں متنازعہ قانون مکمل طور پر واپس لئے جانے سے کم کسانوں کو کوئی تجویز قبول نہیں۔ حکومتی تحریری ڈرافٹ رد کئے جانے کے بعد اب زیادہ شدت کے ساتھ اس تحریک اور احتجاج کو آگے بڑھائیں گے۔
سکھد یو سنگھ نے بتایا کہ بارہ دسمبر سے دہلی ،جے پور ہائی وے بند کردی جائے گی۔ اور وفاقی دارالحکومت کی طرف آنے والی تمام سڑکیں اور ریلوے ٹریک بھی بلاک کئے جائیں گے۔ کسان رہنما کے بقول حکومت اس تحریک کو صرف پنجاب اور سکھوں کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ اس تحریک میں ہریانہ ، راجستھان ، یوپی ، مہاراشٹر، تامل ناڈو، کرناٹک اور مغربی بنگال سمیت ملک بھر کے کسان حصہ لے رہے ہیں۔ واضح رہے کہ کسان رہنمائوں کا کہنا ہے کہ تین متنازعہ زرعی قانون منظورکرانے کے پیچھے ریلائنس انڈسٹریزکے چیئرمین مکیش امبانی اوراڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی کا ہاتھ ہے۔
اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے سکھد یو سنگھ کا کہنا تھا ’’یہ صرف الزام نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ سرکار سے بات چیت کے دوران ایک میٹنگ میں خود حکومتی نمائندے کے منہ سے یہ الفاظ نکل گئے کہ اگر ہم نے یہ متنازعہ قانون ختم کردیئے تو پھر امبانی ، اڈانی دھرنا دے دیں گے۔ دراصل امبانی اور اڈانی اس ہندو سامراجی کارپوریٹ سیکٹر کے سرخیل ہیں، جنہوں نے وزیراعظم مودی کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ کیونکہ مودی کو بھی برابر کا حصہ مل رہا ہے۔ اس کارپوریٹ سیکٹر کے کہنے پرہی سرکار نے تین کسان دشمن زرعی قانون منظور کرائے۔ تاکہ مستقبل میں کسانوں کی زمینیں اور کھیت کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کئے جاسکیں۔ ظاہر ہے کہ کسانوں کی اکثریت کا تعلق پنجاب سے ہے۔ لہٰذا ہندو سامراج سکھوں سے ان کی زمینیں اور ان کے کھیت اور روزگار چھیننے کے درپے ہے۔ سرکاری ڈیٹا بتاتا ہے کہ پچھلے چند سالوں میں پہلے ہی چار لاکھ سے زائد کسان خود کشیاں کرچکے ہیں۔‘‘
بھارتی پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں لوک سبھا اور راجیہ سبھا میں تین زرعی بل منظور کرائے گئے تھے، جنہیں اختصاراً ’’فارم بل‘‘ کہا جارہا ہے۔ یہ تینوں بل رواں برس جون میں پہلے آرڈیننس کی شکل میں لائے گئے تھے۔ اس وقت بھی اس پر احتجاج ہوا تھا۔ تاہم اصل احتجاج ستمبر کے مہینے میں مشرقی پنجاب کے مختلف شہروں میں شروع ہوا۔ اب یہ تحریک ملک بھر میں پھیل چکی ہے۔ متنازعہ زرعی بلوں کی تفصیل اس طرح ہے ۔
پہلا بل کہتا ہے کہ اب بھارت میں کہیں بھی جاکر کسان اپنی فصل یا اجناس بیچ سکتا ہے۔ دوسرا یہ کہ نجی اجناس منڈیاں بھی قائم کی جا سکیں گی۔ ان قوانین کے برعکس اس وقت بھارت میں سات ہزار سے زائد سرکاری اجناس منڈیاں قائم ہیں، جنہیں اے پی ایم سی کہا جاتا ہے۔ ان سرکاری منڈیوں میں کسان ٹریکٹر بھر کر اپنی فصلیں لے کر جاتے ہیں اور انہیں بہتر قیمت پر فروخت کردیتے ہیں۔ اس کے لیے سرکار کی کم سے کم سپورٹ پرائز مقرر ہے۔ کسان یہ فصل حکومت کو نہیں بلکہ مڈل مین کو بیچتے ہیں، جنہیں آڑھتی کہا جاتا ہے۔ یہ مڈل مین بعد میں ان سبزیوں اور اجناس کو ہول سیلر اور پرچون فروش کے پاس فروخت کردیتے ہیں۔ تمام مڈل مین سرکاری لائسنس یافتہ ہیں۔ نئے قانون سے یہ تبدیلی آئے گی کہ پہلے کسی تاجر یا مل مالکان کو جو اجناس مڈل مین کے ذریعے خریدنا پڑتی تھیں، اب وہ براہ راست کسانوں سے خرید سکیں گے۔ کاغذات کی حد تک تو یہ اسکیم اچھی ہے کہ کسان اب مڈل مین کو بائی پاس کرکے براہ راست اپنی اجناس تاجروں اور ملز مالکان کو اچھی قیمت میں فروخت کرسکیں گے۔
لیکن کسان رہنما سکھد یو سنگھ کے بقول تصویرکا دوسرا رخ دیکھا جائے تو بھارت میں پچاسی فیصد چھوٹے کسان ہیں، جو عموماً دو ہیکٹر اراضی پر اپنی فصل کاشت کرتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر فصل کاشت کرنے والا کسان تو ملز مالکان اور تاجروں سے مرضی کا بھائو تائو کرسکے گا، تاہم یہ پچاسی فیصد چھوٹے کسان مجبور ہوں گے کہ پرائیویٹ پارٹیوں کو ان کی مرضی کی قیمت پر اپنی اجناس فروخت کریں۔ کیونکہ سرکاری منڈیوں کے مڈل مین کے لئے تو ایک سرکاری ریٹ فکس ہوتا تھا، جس کے مطابق وہ کسانوں سے فصل خریدتے تھے۔ لہٰذا کسان سمجھتے ہیں کہ سرکاری منڈیوں کی جگہ نجی منڈیاں قائم کرکے انہیں براہ راست کارپوریٹ سیکٹر کے رحم و کرم پر چھوڑا جارہاہے۔ حکومت کم سے کم سپورٹ پرائز بھی ختم کرنے جارہی ہے ۔ اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ تاجر و ملز مالکان اپنی مرضی کی قیمت پر اجناس خریدیں گے۔ اس سے سب سے زیادہ چھوٹے کسان متاثر ہوں گے، جن کی ملک میں اکثریت ہے۔ اگر وہ تاجر یا ملز مالکان کی مرضی کی قیمت پر فصل نہیں بیچتے تو ان کے پاس اسے ذخیرہ کرنے کے لیے ویئر ہائوس یا اس نام کی کوئی دوسری جگہ نہیں۔ لہٰذا وہ مجبور ہوں گے کہ جو بھائو مل رہاہے، اسی پر اپنی اجناس بیچ دیں۔ یہ ایک طرح سے غیر متوازن سودا ہوگا، جہاں خریدنے والا بہت طاقتور اور بیچنے والا کمزور ہے۔ حکومت کے اس قانون سے صرف کسان ہی نہیں، لاکھوں کی تعداد میں کام کرنے والے مڈل مین، حساب کتاب کرنے والے اکائونٹنٹ اور بوریاں ادھر سے ادھر پہنچانے والے مزدور بھی بے روزگار ہوجائیں گے۔
دوسرے بل میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی تاجر یا پرائیویٹ مل کا مالک کسانوں سے جاکر کنٹریکٹ کرسکتا ہے کہ وہ جو بھی فصل بو رہے ہیں، اس کا پیشگی ریٹ طے کرلے۔ یوں فصل اترنے سے پانچ چھ ماہ پہلے ہی یہ ایگریمنٹ ہوجائے گا۔ بظاہر یہ بھی کسانوں کے لیے اچھی بات ہے کہ کئی بار بمپر فصل ہوجاتی ہے تو ریٹ اوپر بھی چلے جاتے ہیں۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس قسم کا کنٹریکٹ کرنے والی پرائیویٹ کمپنیوں یا تاجروں پر حکومت کا کوئی چیک نہیں ہوگا۔ قانون میں ایسی کوئی شق نہیں کہ پرائیویٹ کمپنیاں ایک مخصوص ریٹ پر کسان سے معاہدہ کریں گی۔ اگر یہ پرائیویٹ کمپنیاں اورتاجر کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انتہائی کم قیمت پر بھی معاہدہ کرتی ہیں تو وہ قانونی ہوگا۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ کم سے کم سرکاری قیمت کو پرائیویٹ کنٹریکٹ کے ساتھ جوڑا جانا چاہئے تھا۔ تیسرا قانون ذخیرہ اندوزی سے متعلق ہے۔ جس میں کسانوں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ایک طے کردہ مقدار کے مطابق ہی اجناس اسٹور کرسکیں گے۔ لیکن پرائیویٹ پارٹیوں کو یہ چھوٹ دی گئی ہے کہ وہ چاہے جتنی مقدار میں اجناس ذخیرہ کرلیں، انہیں کوئی نہیں پوچھے گا۔
کسانوں کو تحفظات ہیں کہ اس قانون سے فائدہ اٹھاکر پرائیویٹ کمپنیاں، تاجر اور سرمایہ کار اپنی ضرورت سے زیادہ مقدار میں اجناس ذخیرہ کرلیا کریں گے۔ اوراگلے برس جب تیار فصل خریدنے کا موقع آئے گا تو وہ کسانوں کو کہیں گے کہ ان کے پاس تو پہلے ہی اضافی اجناس پڑی ہیں۔ لہٰذا ان کی مرضی کی قیمت پر گندم، شکر، چاول اور دیگر اجناس فروخت کرنی ہے تو سودا کرلو، ورنہ ہمارے پاس تو پہلے سے یہ چیزیں موجود ہیں۔ یہاں کسان پھنس جائے گا اور اسے مجبوراً کم قیمت پر اپنی اجناس فروخت کرنا پڑیں گی۔
ادھر خالصتان تحریک برطانیہ چیپٹر کے رہنما رنجیت سنگھ کے مطابق کسانوں کی تحریک کے آگے مودی سرکار گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ آپ نے دیکھا کہ مقبوضہ کشمیر کو اپنی مرکزی حکومت کا حصہ بنانے سے متعلق شقوں سے لے کر متنازع سٹیزن شپ ایکٹ تک، مودی سرکار نے ایک فیصلہ بھی واپس نہیں لیا۔ لیکن کسانوں کی بے مثال تحریک کے آگے حکومت نے ہتھیار ڈالنا شروع کردیے ہیں۔
امیت شاہ اور نریندرا سنگھ سمیت متعدد حکومتی وزرا کسانوں کی منتیں کر رہے ہیں کہ وہ زرعی قوانین میں مطلوبہ ترامیم کرادیں گے۔ لیکن کسانوں نے یہ تحریری یقین دہانیاں مودی کے منہ پر ماردی ہیں۔ پہلی بار مودی کو کرارا تھپڑ پڑا ہے۔ اب مودی کے برے دن آگئے ہیں۔
ایک سوال پر رنجیت سنگھ کا کہنا تھا کہ حالیہ تحریک خالصتان کا مورچہ نہیں، یہ خالصتاً کسانوں کا مورچہ ہے۔ کیونکہ اس میں صرف پنجاب یا سکھ تاجر حصہ نہیں لے رہے ، بلکہ راجستھان، بہار، گجرات، یوپی اور دیگر غیر پنجابی ریاستوں کے کسان بھی کندھا ملاکر ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن اس تحریک سے یقیناً خالصتان کی آزادی کی تحریک پر بھی طویل مدتی اثرات مرتب ہوں گے۔ آزادی اب سینٹر اسٹیج لے رہی ہے۔ بالآخرآر پارکی لڑائی ہوگی اورایک دن پنجاب متعصب ہندو ریاست سے آزاد کرالیا جائے گا۔ اصل نکتہ یہ ہے کہ پنجاب کے سکھوں نے ہندو توا کی فاشسٹ سوچ کو کسی صورت قبول نہیں کرنا۔ کیونکہ ہندو توا وہی پرانی نوآبادیاتی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔ چاہے کشمیر کا مسئلہ ہو، خالصتان کی بات ہو یا بھارت میں بسنے والی اقلیتیں ہیں ۔ ان سب پر ہندو توا کی سوچ ان پر مسلط کی جارہی ہے۔
رنجیت سنگھ کے مطابق بھارتی فوج میں جو سکھ موجود ہیں، وہ سب ’’جٹاں دے سپوت نے‘‘۔ اندرا گاندھی نے پہلے ان جاٹوں کی پگ پر ہاتھ ڈالا تھا۔ اور اب مودی نے ان جاٹوں کے سپوتوں کی زمین پر ہاتھ ڈالا ہے۔ لہٰذا کھیل اپنے آخری مرحلے میں داخل ہورہا ہے۔ وہ دیکھ رہے ہیں کہ بھارتی فوج میں شامل سکھ سپوت بھی جلد کھل کر سامنے آئیں گے اور انہیں یقین ہے کہ اگر مستقبل میں دوبارہ کبھی بھارتی سرکارنے سکھ بیٹوں کے خلاف ملٹری ایکشن کیا تو سکھ فوجی اس کا حصہ نہیں بنیں گے۔
رنجیت سنگھ نے یہ شکوہ بھی کیا کہ بھارت میں اس وقت زوروں پر کسانوں کی تحریک چل رہی ہے۔ لیکن اس کے باوجود حکومت پاکستان خاموش ہے۔ حتیٰ کہ کنیڈین وزیراعظم نے بھی بھارتی کسانوں سے کھل کر اظہار یکجہتی کیا ہے۔ اس پر مودی سرکار ناراض بھی ہے۔ لیکن دوسری جانب بھارت جو مسلسل پاکستان کے خلاف بھونکتا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردی کرارہا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سیاست دانوں اور تھنک ٹینکس کی زہر آلود ویڈیوز سے یوٹیوب بھرا پڑا ہے۔ لیکن اس کے باوجود وہ حیران ہیں کہ کسانوں کی تحریک کے حوالے سے تاحال پاکستانی حکومت نے ایک لفظ بھی منہ سے نہیں نکالا۔
رنجیت سنگھ کے بقول وہ احسان بھی مانتے ہیں کہ پاکستان نے کرتارپور بارڈر کھول کر سکھوں کے دلوں کو جیت لیا۔ لیکن ساتھ ہی کسانوں کی تحریک پر خاموش رہنے کے حوالے سے ان کا پاکستانی حکومت سے پیار بھرا شکوہ بھی ہے ۔