رپورٹ:نجم الحسن عارف
سینیٹ کے الیکشن میں خفیہ رائے دہی کے آئینی طریقے کے بجائے ’شو آف ہینڈ‘ کے لیے حکومت کو دو تہائی ووٹوں کے ساتھ ساتھ آئینی ترمیم منظور کرانے کے علاوہ قانون سازی بھی کرنا پڑے گی نیز الیکشن ایکٹ 2017ء میں بھی ترمیم کیے بغیر یہ ممکن نہیں ہوگا کہ حکومت سینیٹ پرانے اور طے شدہ آئینی طریقے کو تبدیل کر سکے کیونکہ آئین کے آرٹیکل 226 میں واضح طور پر تحریر ہے کہ ’’آئین کے تحت تمام انتخابات خفیہ رائے دہی کے ذریعہ ہوں گے‘‘۔
سابق سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کنور دلشاد احمد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے اس امر پر بھی سخت حیرانی کا اظہار کیا کہ حکومت آنے والے سینیٹ الیکشن کو اپنی مرضی کے وقت اور ضرورت کے تحت کرانے کیلئے صدارتی آرڈیننس کے ذریعے ممکن بنائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ جب اسمبلی اور سینیٹ کے اجلاس جاری ہوں تو اس دوران صدارتی آرڈیننس کا اجرا کیونکر کیا جا سکتا ہے؟ اٹارنی جنرل کا بیان حیران کن ہے انہوں نے آئین و قانون کو جانتے ہوئے بھی یہ بات کیسے کہہ دی البتہ سینیٹ الیکشن سے پہلے سندھ اسمبلی تحلیل کیے جانے کی صورت میں سینیٹ کا الیکٹورل کالج صرف سندھ کی حد تک متاثر ہوگا اور سندھ کی سینیٹ میں نمائندگی اگلی اسمبلی تک نہیں ہوگی باقی صوبوں سے سینیٹ کے نمائندے باآسانی منتخب ہو سکیں گے۔
دوسری جانب حکومت سے جڑے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ حکومتی آئینی ماہرین سینیٹ الیکشن کے پس منظر میں صدراتی آرڈیننس کا اجرا جائز قرار دے رہے ہیں۔ نیزاس پر اصرارکرتے ہیں کہ حکومت کو ضرور اس آپشن اور اختیار کو بروئے کار لانا چاہیے۔ جس سے سینیٹ کا متوقع انتخاب نہ صرف حکومتی وقت کے مطابق ہو سکے۔ بلکہ شو آف ہینڈ کی حکومتی خواہش بھی پوری ہو سکے۔
سینیٹ الیکشن سے قبل اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کی جانب سے ماہ فروری میں قومی و صوبائی اسبلیوں سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کے اعلان کے بعد سامنے آنے والی ممکنہ حکومتی حکمت عملی کے بارے میں ’’امت‘‘ نے الیکشن قواعد کے ماہر سابق سیکریٹری کمیشن کنور دلشاد احمد اور الیکشن کمیشن آف پاکستان کے سابق ڈائریکٹر لاء نواز چوہدری سے بات چیت کی تاکہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے اجتماعی استعفوں اور ممکنہ طور پر سندھ اسمبلی کی تحلیل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں سینیٹ الیکشن پر پڑنے والے اثرات اور حکومت کیلئے ممکنہ آپشنز کا جائزہ لیا جا سکے۔
سابق سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پا کستان کنور دلشاد احمد نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’’میرے لیے یہ بات اہم نہیں کہ حکومت سپریم کورٹ کو کسی مخصوص منظرنامے کا کہہ کر قبل از وقت سینیٹ الیکشن کرانے کے جواز پر قائل کر پاتی ہے یا نہیں۔ حکومتوں کے لیے مخصوص کی بات کرنا اور مخصوص حالات پیدا کرنا یا ظاہر کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوتا ہے۔ میرے لیے اہم بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس سلسلے میں آئین کے ڈھانچے کو کس طرح تبدیل کر سکے گی؟ یہ تو کلیتاً ایک آئینی ترمیم کا معاملہ ہے اور آئین کی ترمیم صرف پارلیمنٹ میں ہو سکتی ہے۔ اس مقصد کے لیے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔ جو حکومت کے پاس بہرحال نہیں ہے۔
آئین کا آرٹیکل 226 اس سلسلے میں بڑا واضح اور دو ٹوک ہے۔ جس کے تحت خفیہ رائے دہی کے ذریعے سینیٹ کا الیکشن کرایا جاتا ہے اور یہ الیکشن گیارہ فروری سے گیارہ مارچ کے دوران سینیٹ کے نصف ارکان منتخب کرنے کے لیے ہر تین سال بعد کرانا لازمی ہوتے ہیں۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اگر سندھ اسبلی تحلیل کر دی جاتی ہے تو کیا پھر بھی سینیٹ الیکشن ممکن ہو جائیں گے اور اس سینیٹ کا الیکٹورل کالج متاثر تو نہیں ہوگا؟ اگر سندھ اسمبلی تحلیل کی جاتی ہے تو اس سے صرف صوبہ سندھ کے نمائندوں کا سینیٹ کے لیے انتخاب متاثر ہو گا۔ باقی صوبوں میں تو سینیٹ کا الیکٹورل کالج موجود رہے گا۔ یوں کہیے کہ سینیٹ کا انتخاب ہو جائے گا۔ لیکن سندھ کے نمائندے اس سینیٹ کا اس وقت حصہ نہیں بنیں گے جب تک سندھ کی صوبائی اسمبلی اپنے نمائندوں کا انتخاب کرکے نہیں بھیج دیتی۔
جس طرح عمومی انتخابات میں کم ٹرن آوٹ کے ساتھ بھی اسمبلی یا پارلیمنٹ کے ارکان منتخب ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح اپوزیشن جماعتوں نے اگر استعفے دے دیے تو حکومتی اتحاد میں شامل جماعتوں کے دستیاب ارکان اسمبلی کے ووٹوں سے بھی سینیٹ ارکان کا کیا جانے والا انتخاب درست اور آئینی ہو گا۔ سب سے اہم معاملہ ’شو آف ہینڈ‘ کا ہوگا کہ اس کے لیے باضابطہ آئینی ترمیم کرنا ہوگی۔ صدارتی آرڈیننس سے ممکن نہیں ہوگا۔ صدارتی آرڈیننس صرف اس وقت جاری کیا جا سکتا ہے جب پارلیمنٹ ’ان سیشن‘ نہ ہو اور ہنگامی ضرورت ہو‘‘۔
سابق ڈائریکٹرلا الیکشن کمیشن آف پاکستان نواز چوہدری کا کہنا ہے کہ ’’پارلیمنٹ کا ایوان بالا سینیٹ مستقل رہنے والا ادارہ ہے۔ اس لیے اس کے نصف ارکان کا انتخاب ہر تین سال کے بعد لازمی ہے۔ تاکہ اس کے تسلسل میں تعطل نہ آئے۔ لیکن حکومت کا سیکرٹ بیلٹ کی جگہ سینٹ انتخاب کے لیے ’شو آف ہینڈ‘ کے طریقے کی طرف جانے کا مطلب یہ ہو گا کہ حکومت کو دو تہائی اکثریت کے ساتھ آئین میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 226 میں تبدیلی لانا ہو گی۔
بلا شبہ حکومت کے پاس دو تہائی اکثریت نہیں ۔ جبکہ اپوزیشن حکومت کو تعاون دینے کو تیار نہیں۔ اس لیے ترمیم ناممکن ہے۔ رہی یہ بات کہ حکومت سپریم کورٹ سے اس سلسلے میں درخواست کرے گی تو سپریم کورٹ کے دائرہ اختیار میں آئینی تشریح تو ہے۔ آئینی ترمیم نہیں ہے ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کوئی ایسی درخواست لے کر سپریم کورٹ کے پاس چلی جائے کہ وہ کسی قانونی یا تکنیکی پیچیدگی کو بنیاد بنائے اور اس سلسلے میں سپریم کورٹ سے تشریح چاہے اور سپریم کورٹ تشریح کرتے ہوئے کوئی ایسا راستہ دے دے۔ لیکن آئین میں ترمیم کا حق صرف اور پارلیمنٹ کا ہے‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا ’’یہ جو دلیل دی جا رہی ہے کہ اس طرح ہارس ٹریڈنگ نہیں ہو سکے گی اور ارکان پارلیمنٹ اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کا استعمال کر سکیں گے تو یہ درست نہیں۔ خفیہ رائے دہی کے آئینی طریقے میں اس امر کی زیادہ گنجائش ہے کہ کوئی رکن اسمبلی اپنے ضمیر کے مطابق رائے استعمال کر سکے۔
جہاں تک سینیٹ کا الیکشن قبل از وقت کرا نے کی خواہش ہے تو اس سلسلے میں کسی مخصوص صورت حال کا جواز چاہیے ہوگا۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ جب کورونا کی وبا کے دوران بھی سب معمولات چل رہے ہیں۔ حتی کہ بڑی بڑی تقریبات اور جلسے بھی منعقدکیے جارہے ہیں۔ تو اس کورونا یا اور اس طرح کی کسی وجہ کو کیسے جواز بناکر سینیٹ الیکشن کی تاریخ تبدیل کی جا سکتی ہے۔ اگر کسی نے بطور چیف ایگزیکٹو جنرل پرویزمشرف کی طرح ایمرجنسی لگا کر مقصد براری کی کوشش کی تو آئین کا آرٹیکل چھ حرکت میں آجائے گا‘‘۔