سعد رفیق،شاہد خاقان عباسی، عاصم حسین اور احسن اقبال کے کیسوں کا بھی جائزہ لیاگیا۔فائل فوٹو
سعد رفیق،شاہد خاقان عباسی، عاصم حسین اور احسن اقبال کے کیسوں کا بھی جائزہ لیاگیا۔فائل فوٹو

نیب چیئرمین کی سینیٹ کمیٹی میں پیشی چیلنج بن گئی

رپورٹ:نجم الحسن عارف
سینیٹ کے ڈپٹی چئیرمین سلیم مانڈوی والا کی نیب سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے خلاف تحریک استحقاق اکیس دن گزرنے کے باوجود ابھی تک سینیٹ سیکریٹریٹ میں ہی لٹکی ہوئی ہے۔

سینیٹ کی استحقاق کمیٹی کو سلیم مانڈوی والا کی یہ تحریک ایوان کی صورت ہی منتقل کی جا سکے گی جبکہ سینیٹ سیکریٹریٹ نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سینیٹ کا اجلاس ریکوزٹ کی اٹھارہ دسمبر کی درخواست کو بھی تکنیکی بنیادوں پر مسترد کر دیا ہے، کہ اس میں نیب سے متعلق امور کو زیر بحث لانے کو اپوزیشن جماعتوں نے ایجنڈا آئٹمز میں شامل کیا تھا۔

”امت ” کے سینیٹ سیکرٹیریٹ جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ بلا شبہ پارلیمنٹ کی کمیٹیوں کے پاس سول کورٹ کے اختیارات موجود ہیں اور ماضی میں یہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو کمیٹیوں کی جانب سے سمن بھی کیا جا چکا ہے تاہم ایسا کم ہی ہوا کہ سمن کی گئی شخصیت پولیس کے ذریعے آئی ہو۔ بلکہ بالعموم یہ معاملہ بیچ بچائو کے ساتھ ہی طے پاتا رہا ہے۔ اس لیے چئیرمین نیب سمیت کسی بھی فرد کو پارلیمنٹ کی کمیٹی معمول کے نوٹسز بھیج کر نہ بلا سکے تو اپنے سول کورٹ کے اختیارات استعمال کرتے ہوئے قابل ضمانت سمن جاری کرکے انہیں بلا سکتی ہے لیکن اس کے لیے لازم ہے کہ پہلے یہ معاملہ ایوان کی طرف سے کمیٹی کو ایوان میں ابتدائی بحث کے بعد ریفر کیا گیا ہو لیکن اگر کمیٹی کی طرف سے معمول کے نوٹس کی بنیاد پر بلایا گیا فرد کمیٹی میں جان بوجھ کر حاضر نہ ہو، تو ذرائع کے مطابق ایسی صورت میں کمیٹی اپنی ورکنگ کو سول کورٹ میں تبدیل کر سکتی ہے اور اس کا نوٹس سمن میں تبدیل ہو جائے گا جس پرعمل کرانا متعلقہ آئی جی پولیس کی ذمہ داری ہے۔

ذرائع کے مطابق ایک مسئلہ یہ بھی کھڑا ہو سکتا ہے کہ اپوزیشن قائد کی کال پر مستعفی ہونے والے ارکان کمیٹی میں شرکت کریں تو اس کے اخلاقی جواز کو چیلنج کرنے والے سامنے آجائیں کہ جو لوگ پارلیمنٹ کی حیثیت کو متنازعہ قرار دے کر اسے چھوڑنے کے لیے پارٹی قیادت کو استعفے بھجوا چکے ہیں، کیا انہیں پھر بھی پارلیمنٹ کی قائمہ کمیٹیوں کی میٹنگز میں حصہ لینے کا استحقاق موجود ہے۔

ذرائع کے مطابق جب تک مستعفی ہونے والے ارکان کے استعفے باضابطہ منظور نہیں کیے جاتے۔ قانونی طور پر وہ پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لیکن اخلاقی حوالے سے ان کی ان سرگرمیوں میں شرکت کا سوال ان کے مخالفین بھی اٹھائیں گے اور خود اپوزیشن کے ارکان کو بھی اس پر تحفظات ہوں گے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب معلومات میں یہ بھی سامنے آیا ہے کہ ڈپٹی چئیرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کی طرف سے چئیرمین نیب کو سینیٹ کمیٹی میں طلب کرنے اور نیب معاملات پر انگلیاں اٹھانے اور چیلنج کرنے کی خواہش کی تائید چئیرمین صادق سنجرانی کی طرف سے مشکل ہوگی۔ اسی وجہ سے سینیٹ سیکریٹریٹ نے ابھی تک اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے سینیٹ اجلاس ریکوزیشن کی درخواست کو اعتراضات لگا کر مسترد کرتے ہوئے کہہ دیا ہے کہ نئے سرے سے اجلاس کی ریکوزیشن کا اہتمام کیا جائے۔

واضح رہے کہ جب سینیٹ کے اجلاس میں سلیم مانڈوی والا کی تحریک استحقاق بتوسط سینیٹ سیکریٹریٹ ابتدائی بحث کے لیے ایجنڈے پر آئے گی تو اس کے بعد ہی اسے باضابطہ طور پر کمیٹی کے سپرد کیے جانے یا نہ کیے جانے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اور یہ فیصلہ سینیٹ اجلاس کے دوران بلا شبہ کثرت رائے سے ہی ہو سکے گا۔ کیونکہ پی ٹی آئی اور اس کے اتحادی ارکان سینیٹ اس کے حق میں نہیں ہوں گے۔ یوں استحقاق کمیٹی کو یہ تحریک منتقل کر دیے جانے کے بعد بھی استحقاق کمیٹی چاہے تو 60 دنوں تک اپنی سفارشات دینے کی پابند رہے گی۔

ہ اسمبلی قواعد کے مطابق قائمہ کمیٹیوں کو اپنی رپورٹ واپس ایوان کو ساٹھ دنوں کے اندر بھیجنا ہوتی ہے تاہم کمیٹی چاہے تو اس ساٹھ دنوں کی مدت میں اضافے کے لیے ایوان سے توسیع کی درخواست کر سکتی ہے عام طور پر کمیٹیوں کو ایوان مزید وقت دے دیتا ہے۔

سینیٹ سیکریٹریٹ کے قواعد اور کمیٹیوں کی ورکنگ کے امور سے متعلق ذرائع کا کہنا ہے کہ بلا شبہ کمیٹیوں کو سول کورٹس کے اختیارات حاصل ہیں لیکن اس کے باوجود کم از کم پچھلے پانچ برسوں کے دوران ان اختیارات کے استعمال کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ اس سے پہلے بھی جب کمیٹیوں نے یہ اختیار استعمال کیا توکئی بار ایسا ہوا کہ بعد ازاں بیچ بچائو کا راستہ نکال لیا گیا۔ تاہم یہ حقیقت ہے کہ پارلیمنٹ کی کمیٹیاں یا کوئی خاص کمیٹی چاہے تو طلب نہ کئے جانے والے فرد، چاہے وہ کوئی بھی ہو، اسے بطور سول کورٹ سمن بھیج کر طلب کر سکتی ہے۔ یہ سمن سینیٹ کی طرف سے متعلقہ انسپکٹر جنرل پولیس کو ارسال کیے جاتے ہیں۔ جو ان سمنوں پر عمل کرانے کے پابند ہوتے ہیں۔ لہذا اگر چئیرمین نیب کو ایسے سمن جاری کر کے بلایا جاتا ہے تو آئی جی پولیس اسلام آباد کا کردار اہم ہوگا۔

ذرائع کا دعویٰ ہے کہ یہ بہت ہی مشکل ہوگا کہ چئیرمین نیب کو سمن کے مطابق گرفتار کرکے لانے کی نوبت آئے۔ اس سے پہلے یہ معاملہ سینیٹ کے ایوان میں بھی زیر بحث لایا جانا ہے۔ جس کے لیے سینیٹ کا اجلاس بلایا جائے گا۔ اس کے بعد دیکھا جائے گا کہ تحریک استحاق کے بارے میں استحقاق کمیٹی کی ورکنگ کیسے آگے بڑھتی ہے۔ کمیٹی میں موجود حکومتی ارکان کمیٹی کی طرف سے میٹنگز کو کس طرح چلانے کا ماحول پیدا کرتے ہیں۔ نیز یہ کہ پہلے سمن اور وارنٹ جاری کرنے سے پہلے کتنے نوٹس بھجوائے جاتے ہیں اور ان پر چئیرمین نیب کا جواب اور ریسپانس کیا آتا ہے۔