امت رپورٹ:
حکمران جماعت تحریک انصاف کو فنڈنگ کرنے والا امریکی وکیل یہودی النسل نکلا جبکہ فنڈ دینے والا بھارتی شہری کا آبائی تعلق مشرقی پنجاب سے ہے۔ یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ فارن فنڈنگ اسکینڈل کی بارش کا پہلا قطرہ امریکہ میں ٹپکا تھا۔
فارن فنڈنگ کو لے کر میڈیا میں پچھلے کافی عرصے سے آنے والی تفصیلات ایک ہی چکر میں گھوم رہی ہیں۔ اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے گزشتہ روز فارن فنڈنگ کیس میں تاخیرکے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا او زیادہ تر پرانی باتوں کو دہرایا۔
نمائندہ ’’امت‘‘ نے اس کیس سے متعلق کچھ نئے پہلو تلاش کرنے کے لیے امریکہ میں اپنے ذرائع سے رابطہ کیا اور ساتھ ہی ان دستاویزات کی دوبارہ اسٹڈی کی۔ جس میں پی ٹی آئی کو یہودی اور بھارتی شہریوں کی غیر قانونی فنڈنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔
امریکہ میں فنڈ جمع کرنے کے لیے تحریک انصاف نے جو خفیہ کمپنیاں بنائی تھیں۔ خفیہ اس لحاظ سے کہ اگر فارن فنڈنگ کیس کا مدعا کھڑا نہ ہوتا تو آج بھی شاید یہ کمپنیاں مخفی رہتیں۔ کیونکہ ان کا ذکر پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں نہیں کیا تھا۔ فنڈز اکٹھا کرنے کی خاطر قائم کردہ اب تک منظر عام پرآنے والی ان دو کمپنیوں کی تفصیلات امریکی محکمہ انصاف کی ویب سائٹ پر موجود ہیں۔
ذرائع کے مطابق امریکہ میں اگر ایک سیاسی پارٹی فنڈ جمع کرنے یا کسی اور مقصد کے لیے کسی کا تقرر کرتی ہے تو اسے امریکی محکمہ انصاف (فارا) میں خود کو رجسٹرڈ کرانے کے ساتھ دس روز کے اندر اس کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہوتا ہے۔ بصورت دیگر یہ عمل فارا قوانین کی خلاف ورزی قرار پاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں ذمہ داران کی گرفتاری کے ساتھ دس ہزار ڈالر جرمانہ بھرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا فنڈ جمع کرنے کے لیے پی ٹی آئی نے جو کمپنیاں رجسٹرڈ کرائیں ان کی تفصیلات قوانین کے مطابق امریکی محکمہ انصاف نے اپنی ویب سائٹ پرڈال دی تھیں لیکن اس اسکینڈل کے منظر عام پر آنے اور ہائپ پکڑ جانے کے بعد غالباً کچھ ایسی تکنیکی گڑبڑ کی گئی ہے کہ امریکی ویب سائٹ پر اب ان کمپنیوں کی تفصیلات تک رسائی اتنی آسان نہیں رہی۔
’’امت‘‘ کو اپنے ذرائع سے حاصل ان دستاویزات کے مطابق امریکی محکمہ انصاف میں رجسٹرڈ ہونے والی تحریک انصاف کی ایک سیاسی کاروباری کمپنی ’’پی ٹی آئی، یو ایس اے، ایل ایل سی‘‘ رجسٹریشن نمبر اکسٹھ ساٹھ کی صدر نرجس بخاری علی، نائب صدر اور خزانچی ڈاکٹر محمد رزاق اور جنرل سیکریٹری شیری خان تھیں ان تمام عہدیداران کا تقرر چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے کیا تھا۔
25 مارچ دو ہزار تیرہ کو جاری کردہ اس نوٹیفکیشن کے مطابق کمپنی کے کسی بھی عہدیدار کو ہٹانے یا کسی نئے عہدیدار کو لانے کا اختیار بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس تھا۔ خط کے نیچے اس کمپنی کی منظوری دینے والے چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور نائب صدر اور خزانچی محمد رزاق کے دستخط موجود ہیں۔ (رپورٹ میں اس خط کا عکس بھی شائع کیا جارہا ہے)۔
واضح رہے کہ اس دستاویزی ثبوت سے وزیر اعظم عمران خان کا یہ دعویٰ غلط ثابت ہوجاتا ہے کہ اگر بیرون ملک غیر قانونی فنڈنگ ہوئی ہے تو اس کے ذمہ دار وہاں کے ایجنٹ ہیں۔ یہ بات وزیراعظم نے چند روز پہلے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہی تھی۔ حالانکہ فنڈ ریزنگ کے لئے کمپنی کا قیام اور ان ایجنٹوں اور ذمہ داران کا تقرر عمران خان کے زیر دستخطی حکم پر کیا گیا تھا۔
پی ٹی آئی، یو ایس اے، ایل ایل سی (رجسٹریشن نمبر اکسٹھ ساٹھ) نامی کمپنی نے ستائیس اکتوبر دو ہزار تیرہ سے تیئیس اکتوبر دو ہزار اٹھارہ تک امریکہ میں قریباً سوا تین ملین ڈالر کے فنڈز وصول کیے ۔ اسی طرح پی ٹی آئی، یو ایس اے، ایل ایل سی (رجسٹریشن نمبر انسٹھ پچھتر) نامی کمپنی نے ڈھائی ملین ڈالر سے زائد عطیات جمع کئے۔ اس دوسری کمپنی کے کرتا دھرتا ڈاکٹر نصراللہ تھے۔ ان کی تقرری بھی چیئرمین پی ٹی آئی نے کی تھی۔
’’امت‘‘ کو دستیاب دستاویزات کے مطابق پی ٹی آئی کو فنڈز دینے والے پاکستانیوں، پاکستانی نژاد امریکیوں کے ساتھ غیر ملکی بھی شامل تھے۔ ان میں یہودی النسل امریکی شہری بیری سی شینیپس نمایاں ہے۔ بیری سی شینیپس امریکہ میں اپنا لاء آفس چلاتا ہے۔ جبکہ جیوش ڈائریکٹری کی فہرست میں بھی اس کا نام شامل ہے۔ نیویارک کا رہائشی اور قانون کے میدان میں سینتیس سال کا تجربہ رکھنے والا یہ یہودی النسل امریکی وکیل خاصا دولت مند ہے۔ جبکہ امیگریشن لاء میں بھی مہارت رکھتا ہے۔
اسی طرح پی ٹی آئی کو فنڈنگ کرنے والے بھارتی شہری اندر دوسانجھ کا تعلق مشرقی پنجاب سے ہے۔ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن کے سامنے احتجاج کے دوران مریم نواز نے پی ٹی آئی کو فنڈنگ کرنے والے بھارتی شہری کا نام اندر جیت بتایا ہے، جو غلط ہے۔ دستاویزات کے مطابق یہ بھارتی اندر دوسانجھ ہے۔ پی ٹی آئی کو فنڈنگ کرنے والی غیر ملکی کمپنیوں میں ایگزیکٹو بروکریج اور لیب یو ایس اے ان کارپوریشن سمیت دیگر شامل ہیں۔
امریکہ میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ان کمپنیوں میں سے ایک کے کرتا دھرتا ڈاکٹر نصر اللہ کا ضمیر چند برس پہلے جاگ گیا تھا۔ بعد ازاں انہوں نے امریکہ میں جمع کئے جانے والے لاکھوں ڈالر کا حساب مانگا۔ اس سلسلے میں جب ان کی پاکستان آمد ہوئی تھی تو وہ بنی گالہ بھی گئے۔ تاہم ڈالروں کا حساب مانگنے پر انہیں انتہائی ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
ذرائع کے مطابق یہ ڈاکٹر نصر اللہ ہی تھے جنہوں نے بعد ازاں امریکہ میں اس معاملے کو پی ٹی آئی کے حلقوں میں اٹھایا۔ یوں پی ٹی آئی کی غیر قانونی بیرونی فنڈنگ اسکینڈل کی پہلی بوند امریکہ میں برسی تھی تاہم ڈاکٹر نصر اللہ زیادہ شدت سے اس معاملے کو اجاگر نہیں کر سکے لہٰذا یہ قصہ دب گیا تھا اور میڈیا میں نہیں آسکا تھا۔
ذرائع کے بقول ڈاکٹر نصر اللہ کے گریز کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب دو ہزار انیس میں وزیراعظم عمران خان امریکہ گئے تو اس موقع پر ٹیکساس جاکر انہوں نے ڈاکٹر نصر اللہ کو منانے کی کوشش بھی کی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب فارن فنڈنگ اسکینڈل رفتار پکڑ رہا تھا۔ ذرائع کے مطابق عمران خان کو خدشہ تھا کہ اگر ڈاکٹر نصر اللہ بھی میدان میں آگئے تو دفاع کے لئے بالکل ہی کچھ نہیں بچے گا۔ کیونکہ گھر کے بھیدی ڈاکٹر نصر اللہ امریکہ میں فنڈنگ کرنے والی کمپنیوں میں سے ایک کے کرتا دھرتا تھے۔ لہٰذا ان سے زیادہ ان معاملات کا علم اور دستاویزی شواہد کسی دوسرے کے پاس نہیں ہوسکتے۔
ذرائع نے بتایا کہ عمران خان کی جانب سے ناراض گھر کے بھیدی کو منانے کی کوششیں اس حد تک ضرور کامیاب ہوئی تھیں کہ ڈاکٹر نصر اللہ خاموش ہوکر بیٹھ گئے۔ ڈاکٹر نصر اللہ کا دل اب بھی پوری طرح صاف نہیں ہوسکا ہے۔
ذرائع نے انکشاف کیا کہ پھر بھی عمران خان کے رام کرنے پر ڈاکٹر نصر اللہ نے ہی فارن فنڈ کیس سے نکلنے کے چند راستے ضرور انہیں بتائے تھے۔ تاہم اس کی زیادہ تفصیل سامنے نہیں آسکی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ یہ وہی ڈاکٹر نصر اللہ ہیں، جن کی بہن ڈاکٹر روبینہ نے تحریک انصاف چھوڑ کر عوامی تحریک جوائن کرلی تھی۔ ڈاکٹر روبینہ پی ٹی آئی فیصل آباد خواتین ونگ کی صدر تھیں انہوں نے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی پر بطور احتجاج راستے الگ کرلئے تھے۔ ان دنوں ایک ویڈیو خاصی وائرل ہوئی تھی جس میں اس وقت پی ٹی آئی پنجاب کے صدراعجاز چوہدری پرایک تقریب میں انڈے اور ٹماٹروں سے ایک خاتون نے حملہ کردیا تھا۔ یہ خاتون ڈاکٹر روبینہ تھیں۔
ذرائع کے مطابق بہن نے تو پی ٹی آئی سے راستے الگ کرلیے تاہم امریکہ میں مقیم بھائی ڈاکٹر نصر اللہ بظاہر اب بھی پی ٹی آئی میں ہیں۔ لیکن پارٹی کے کاموں میں زیادہ متحرک نہیں رہے ہیں۔ کیونکہ بنی گالہ میں ان کے ساتھ جو بدسلوکی ہوئی تھی۔ اس تذلیل کی کسک وہ آج بھی اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ الیکشن کمیشن ایکٹ دو ہزار دو اور دو ہزار سترہ کے سیکشن دو سو چار کے سب سیکشن تین کے تحت کسی بھی سیاسی پارٹی کو بالواسطہ یا بلا واسطہ حاصل ہونے والے فنڈز جو کسی غیر ملکی حکومت، پرائیویٹ کمپنی یا غیر ملکی فرد سے حاصل کیے گئے ہوں، وہ ممنوعہ فنڈز کے زمرے میں آتے ہیں تاہم سیاسی پارٹیاں بیرون ملک رہائش پذیر پاکستانی نژاد شہریوں سے فنڈز وصول کر سکتی ہیں۔ یعنی ایسے پاکستانی جن کے پاس دوہری شہریت ہے اور وہ عرصے سے دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہیں۔