امت رپورٹ:
تحریک انصاف کے بانی ارکان میں شامل اکبرایس بابرنے تقریباً9 برس پہلے عمران خان کو پارٹی کو ممنوعہ ذرائع سے ہونے والی فنڈنگ کے بارے میں آگاہ کیا تھا۔ لہٰذا یہ تاثرغلط ہے کہ پارٹی چیئرمین اس معاملے سے واقف نہیں تھے اس کا دستاویزی ثبوت2011 میں پارٹی چیئرمین عمران خان کواکبرایس بابر کی جانب سے انگریزی میں لکھا جانے والا سات صفحات پر مشتمل خط ہے۔
اس خط میں نا صرف اکبر ایس بابر نے پارٹی ملازمین کے نام پر کھولے جانے والے خفیہ بینک اکائونٹس اوران میں بیرون ملک سے آنے والے پیسے کے بارے میں آگاہ کیا تھا بلکہ پارٹی میں ہونے والی دیگر بد عنوانیوں اور مفادات کے تصادم سے متعلق سنگین سرگرمیوں کے بارے میں بھی چونکا دینے والے انکشافات کیے تھے جس میں پارٹی کے سینئر رہنما عامرکیانی کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں ڈاکٹرعارف علوی، اسد قیصر، عمر چیمہ اور دیگرکئی رہنمائوں کی جانب سے پیسہ لگانے کا معاملہ شامل ہے۔
پارٹی کے بانی رکن نے واضح کیا تھا کہ ایسی سینئر قیادت کی جانب سے، جس کا بیرون ممالک سے آنے والے پیسے پر کنٹرول ہے۔ رئیل اسٹیٹ کاروبار میں شراکت داری، مفادات کے ٹکرائو کی بدترین مثال ہے۔تاہم ان معاملات کی انکوائری کے بجائے الٹا اکبرایس بابرکو پارٹی پوزیشن سے فارغ کرکے انہیں چارج شیٹ کیا گیا تھا۔ ان الزامات میں سے بعض کا جواب دینے کے لئے اکبر ایس بابر نے چیئرمین پارٹی عمران خان کو11 ستمبر2011 کو جو خط لکھا تھا۔ یہ خط اب ہائی کورٹ اورالیکشن کمیشن میں جمع کرائے جانے والے فارن فنڈنگ کیس سے متعلق دستاویزی شواہد میں شامل ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اس خط میں اکبر ایس بابر نے چیئرمین پارٹی عمران خان کو لکھا تھا’’ میں نے پارٹی کے اندر بد عنوانی اور دیگر مجرمانہ سرگرمیوں کے خاتمے کے لئے کچھ ہفتوں اور مہینوں سے جاری اپنی ٹھوس کوششوں کو میڈیا کے ساتھ شیئرکرنے کا فیصلہ کیا ہے چوںکہ پارٹی کے اندراحتساب کا یہ عمل بعض سینیئر رہنمائوں کی ساکھ کو متاثر کر سکتا ہے۔ لہٰذا مجھے پارٹی پوزیشن سے ہٹانے کا معاملہ میڈیا میں لے جا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ میں پارٹی عہدے سے ہٹانے کے انتقام میں الزامات لگا رہا ہوں۔ لیکن کیا میرے خلاف یکطرفہ کارروائی کے لیے آپ کو قائل کرنے والوں نے اس پر ذرا سا بھی غور کیا کہ پارٹی میں بد عنوانی اوراقربا پروری کے خلاف میری مہم دستاویزی شواہد پر مشتمل ہے اور پارٹی کے بانی رکن کے طور پر یہ کمپین جاری رہے گی۔ اس مہم میں پی ٹی آئی کے ہزاروں نظریاتی کارکنان اس بات پرقائل ہیں کہ پارٹی کو،اسٹیٹس کو توڑنے کے لیے وجود میں لایا گیا تھا۔ لیکن پارٹی اب اپنے اس راستے سے ہٹ رہی ہے۔
میرے خلاف بے بنیاد الزامات اور پارٹی پوزیشن سے مجھے ہٹانے کا قدم اس لیے غیر ضروری ہے کہ 30 اگست 2011 کو آپ کو کiے گئے ٹیکسٹ میسج کے ذریعے میں پہلے ہی اپنے راستے الگ کرنے کے ارادے سے آگاہ کر چکا ہوں تاہم اب جبکہ پارٹی لیڈر شپ نے میرے خلاف چارج شیٹ جاری کی اور ایک طرح سے مجھے فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو ریکارڈ کو درست رکھنے کے لiے مجھ پر جواب دینا واجب ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرے خلاف کی جانے والی کارروائی کو کور کمیٹی کے فیصلے سے منسوب کیا گیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کے آئین کے تحت اس کور کمیٹی کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ پولیٹیکل پارٹی رولز دو ہزار دو کے آرٹیکل تین کے تحت الیکشن کمیشن میں جمع اور ویب سائٹ پر پوسٹ کردہ پی ٹی آئی کے آئین کے مطابق کور کمیٹی کوئی قانونی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ ہی کور کمیٹی کے پاس کسی پارٹی عہدیدارکے خلاف ڈسپلنری ایکشن کا اختیار ہے۔ پھر یہ کہ پارٹی آئین، سینئر قیادت کو کاروباری تعلقات سے بھی روکتا ہے۔ اور یہ معاملہ اس وقت مزید سنگین ہو جاتا ہے، جب ان کاروباری شراکت داروں کا پی ٹی آئی میں آنے والے عوامی پیسے پر بھی کنٹرول ہو۔
کیا یہ سچ نہیں کہ پارٹی کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر عارف علوی، مرکزی انفارمیشن سیکرٹری عمر چیمہ، پی ٹی آئی خیبر پختون کے سابق صدر اسد قیصر، سی ای سی کے رکن اور سیکریٹری بین الاقوامی امور ڈاکٹر مہمند اور پی ٹی آئی کے چند دیگر سینئر عہدیدار نے آپ کی بنی گالا رہائش گاہ کے قریب عامر محمود کیانی (سابق وفاقی وزیر صحت) جنہیں ادویات کی قیمتیں بڑھائے جانے کے اسکینڈل کے بعد وزارت سے ہٹا دیا گیا۔ تاہم اب وہ پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل ہیں) کے رئیل اسٹیٹ بزنس میں کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ جب میں نے عارف علوی اورعمر چیمہ سے ان کی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاری سے پیدا ہونے والے سنگین مفادات کے تصادم کے بارے میں جرح کی تو ان دونوں کا جواب تھا کہ انہوں نے آپ (چیئرمین پارٹی عمران خان) کے مشورے پر یہ سرمایہ کاری کی ہے۔
پارٹی کے ایک اور سینئر رکن نے اعتراف کیا کہ ان کو پی ٹی آئی کی کور ٹیم نے ایک سو بیس ملین روپے (دو ملین فی کنال کے حساب سے بارہ کنال) کی انویسٹ کا کہا تھا۔ اس سینیئر رکن کو رئیل اسٹیٹ اسکیم کے لے آئوٹ سے متعلق نقشے اور دستاویزات بھی بھیجی گئی تھیں، جس میں آپ (عمران خان) کے نام پربھی ایک فارم ہائوس پلاٹ رکھا گیا تھا۔ تاہم جب اس سینئر رکن نے سرمایہ کاری سے انکار کیا تو پارٹی قیادت سے اس کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ یہ سینئر رکن ذاتی طور پر پیش ہو کر اس سارے معاملے کی تفصیلات شیئرکرنے کے لیے تیار ہے۔
11 اگست 2011 کو پی ٹی آئی کے ایک اور بانی رکن اور سی ای سی ممبر کرنل (ر) یونس علی رضا نے آپ (عمران خان) کے ایک قریبی مشیر عامر کیانی کے خلاف دھوکہ دہی اور دھاندلی کے سنگین الزامات عائد کیے۔ پارٹی کے ایک سینئر رہنما کے خلاف سنگین نوعیت کے یہ الزامات فوری انکوائری کے متقاضی تھے۔ تاہم اس حوالے سے اس لیٹر کے لکھے جانے تک کسی قسم کی انکوائری نہیں کرائی گئی تھی۔
18 اگست 2011 کو میں نے آپ (عمران خان) اور ڈاکٹر عارف علوی کو ایک ای میل پیغام بھیجا۔ جس میں آپ دونوں کی توجہ ایک اور سنگین ایشو یعنی پی ٹی آئی کے اندر کام کرنے والے ایک ایسے سیل کی جانب دلائی گئی تھی۔ جو پی ٹی آئی کی سینئر قیادت کے بارے میں خاموشی کے ساتھ مختلف معلومات جمع کرنے میں مصروف ہے۔ جس میں ذاتی نوعیت کی معلومات شامل ہے۔ مثلاً شراب نوشی سمیت دیگر بری عادات، خاندانی پس منظر، جائیدادوں کی تفصیلات اور دیگر انفارمیشن وغیرہ۔ میں نے اپنی ای میل میں پی ٹی آئی کی سینٹرل ایگزیکٹیو کمیٹی کے ایک سینئر رکن کی نشاندہی بھی کی تھی، جس پر طالبان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ بیک ڈور تعلقات کا لیبل ہے۔ اس طرح کی انفارمیشن پی ٹی آئی کے مرکزی آفس کے کمپیوٹروں میں محفوظ ہے، جو مبادا پی ٹی آئی اور دہشت گردی کے مابین تعلق کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہے لیکن اس حوالے سے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔
خط کے مطابق پی ٹی آئی کے ممبرز سے حاصل کئے جانے والے تقریباً ایک لاکھ پینتیس ہزار ڈالر پی ٹی آئی یو ایس اے ایل ایل سی کے ذریعے بھیجے گئے۔ اپنے دورہ امریکہ اور کینیڈا کے دوران آپ نے (عمران خان) اوورسیز پاکستانی ممبرز سے فی کس دس ڈالر عطیہ طلب کیا تھا۔ تاکہ ملک بھر میں پی ٹی آئی کے ضلعی دفاتر کھولے جا سکیں۔ اس حوالے سے آپ کی ویڈیو ریکارڈ پر ہے لیکن اس پیسے سے تاحال ایک بھی ضلعی دفاتر نہیں کھولا گیا ہے۔ جبکہ بیرون ملک سے ان اکائونٹس میں آنے والے پیسے کے آڈٹ کا بھی پی ٹی آئی نے کوئی بندوبست نہیں کیا ہے۔ یہ پولیٹیکل پارٹیز رولز 2002 کی شق چارکی سنگین خلاف ورزی ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ہر سیاسی پارٹی اپنی آمدنی، اخراجات اور فنڈز کے ذرائع بتانے کی پابند ہے۔ جبکہ ہر مالی سال کے اختتام سے ساٹھ روز کے اندر الیکشن کمیشن کو ان اکائونٹس کی تفصیلات جمع کرانا لازمی ہیں۔ جس کا آڈٹ ایک چارٹرڈ اکائونٹنٹ نے کیا ہو اور ساتھ سرٹیفکیٹ منسلک ہونا چاہیے۔ جس پر پارٹی سربراہ کے دستخط ہوں۔ تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ کسی بھی ذرائع سے پارٹی کو ممنوعہ فنڈ موصول نہیں ہوا۔
میں حیران ہوا کہ اس کے باوجود اس بات کا ثبوت موجود ہے کہ مرکزی سیکریٹریٹ کے تنخواہ دار ملازمین کے بینک اکائونٹس کو مختلف ذرائع سے چندہ جمع کرنے کے لیے فرنٹ کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی کے مخیر حضرات کے ذریعے ان فرنٹ بینک اکائونٹس میں کئی ملین روپے جمع ہو چکے ہیں۔ اور ان فرنٹ بینک اکائونٹس سے پیسے چیکوں کے ذریعے نکالے جا رہے ہیں جس کا کسی کے پاس کوئی حساب کتاب نہیں۔ یہ نا صرف پولیٹیکل پارٹیز رولز2002کے آرٹیکل چار کی سنگین خلاف ورزی ہے بلکہ اس غیر قانونی عمل کے سبب پی ٹی آئی اور اس کی قیادت پر منی لانڈرنگ کا الزام لگ سکتا ہے۔ یہ سب کچھ پارٹی کے مرکزی سیکریٹریٹ کے امور چلانے والی سینئر پی ٹی آئی قیادت کی ملی بھگت سے ہو رہا ہے۔ امید ہے کہ آپ فوری طور پر اس معاملے کی شفاف انکوائری شروع کریں گے۔ اور چارٹرڈ اکائونٹنٹس کی ایک بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ فرم کے ذریعے پی ٹی آئی کے کھاتوں کا آڈٹ کرائیں گے۔
اکبر ایس بابر نے اپنے خط میں مزید لکھا تھا کہ ان پر جو گیارہ الزامات لگائے گئے ہیں۔ ان میں سے صرف دو ایسے ہیں۔ جن پر بات کی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے ایک کا تعلق میڈیا کی جانب سے تیرہ اگست کے پی ٹی آئی دھرنے کے بائیکاٹ سے ہے۔ اور دوسرا آپ (عمران خان) کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کرنے سے متعلق ہے دھرنے کا میڈیا کی جانب سے بلیک آئوٹ، نون لیگ پنجاب کی حکومت اور ایوان صدر کی براہ راست مداخلت کا نتیجہ تھا۔ جبکہ محدود وسائل کے ساتھ پی پی اور نون لیگ کے اس مشترکہ پلان کا مقابلہ کرنا ممکن نہیں تھا۔ میرے پاس صفر مالی وسائل اور ڈیڑھ افراد کی ٹیم تھی۔ جبکہ یہ تاثر بھی دیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی میں بد عنوانی کے خلاف آواز اٹھانے کا تعلق پارٹی میں نائب صدارت یا دیگراہم عہدہ حاصل کرنے سے ہے۔ اگر معاملہ ایسا ہی تھا تو مجھے آپ (عمران خان) کو یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ اکتوبر2002 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی سے وفاداری تبدیل کرنے کے عوض اس وقت حکمران پارٹی کی جانب سے مجھے اپنی پسند کی وفاقی وزارت، سینیٹ کی سیٹ اور دیگر بھاری مالی فوائد کی پیشکش کی گئی تھی۔ اس حقیقت سے آپ بخوبی واقف تھے اور جن لوگوں نے یہ پیشکش کی تھی، وہ ابھی بھی اہم سیاسی عہدوں پر فائض ہیں۔ اور وہ میرے دعوے کی تصدیق کر سکتے ہیں۔ اگر میری سیاست پارٹی عہدوں کے حصول کے گرد گھومتی تو پھر میں یہ پرکشش آفرز قبول کرنے میں دیگر نہ لگاتا۔ آپ واقف ہیں کہ مجھے بلوچستان یونیورسٹی میں وائس چانسلر بنانے کی پیشکش بھی کی گئی تھی۔ اس کی تصدیق بلوچستان کے سابق گورنر اویس غنی اور ان کا پرنسپل سیکریٹری بھی کر سکتا ہے۔
واضح رہے کہ نو برس قبل ان تمام معاملات پر اکبر ایس بابر کی جانب سے پارٹی چیئرمین عمران خان کو لکھے گئے خط سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فارن فنڈنگ کیس پبلک کرنے سے تقریباً تین برس قبل تک وہ پارٹی کے اندر بھی اس معاملے پر توانا آواز اٹھاتے رہے تھے۔