عام لوگ تو کیا بسا اوقات والدین بھی دھتکار دیتے ہیں، ایک اسلامی معاشرے کا حصہ مگر کوئی باعزت زندگی گزارنے کا حق دینے کو تیار نہیں، حکومت باعزت روزگار کا بندوبست کرے تو ذلت کی زندگی سے باہر نکل سکتے ہیں، امت سے بات چیت
عام لوگ تو کیا بسا اوقات والدین بھی دھتکار دیتے ہیں، ایک اسلامی معاشرے کا حصہ مگر کوئی باعزت زندگی گزارنے کا حق دینے کو تیار نہیں، حکومت باعزت روزگار کا بندوبست کرے تو ذلت کی زندگی سے باہر نکل سکتے ہیں، امت سے بات چیت

غیر انسانی رویوں کا شکار ’’خواجہ سرا‘‘ طبقہ باعزت زندگی گزارنے کا خواہشمند

رپورٹ :خالدزمان تنولی

کراچی شہر کی اہم شاہراوں کے سگنلز، بازاروں، ہوٹلوں سمیت عوامی مقامات پر بھیک مانگنے والے خواجہ سرابھی ہمارے معاشرے کا حصہ ہیں مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم انہیں قبول کرنے کو تیار نہیں۔
خواجہ سرا جس بھی گھر میں پیدا ہوں اکثر والدین انہیں دھتکار دیتے ہیں۔ محلے والوں کو پتہ چلے تو سب سے پہلے دوست اور محلے دار ہی انہیں برے کاموں کی جانب راغب کرتے اور احساس کمتری میں مبتلا کرتے ہیں۔ جب ان کے پاس کوئی چارہ نہیں بچتا تو گھر چھوڑ کر جہاں بھی پناہ لینے کی جگہ ملتی ہے وہیں جا بستے ہیں اور یہاں سے ان کی زندگی کا اصل سفر شروع ہوتا ہے۔
عوام کے لبوں پر تیسری دنیا کہلانے والے خواجہ سراؤں نے شکوہ کیا ہے کہ بیمار ہو جائیں تو ان جیسے خواجہ سراؤں کے علاوہ کوئی ان کی مدد کو نہیں کرتا، مر جائیں تو ان کی لاش تک وصول کرنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔ باہر نکلیں تو طرح طرح کے طعنوں سے ان کا جینا دوبھر کیا جاتا ہے۔نوجوان اپنی جوانی کے زعم میں ان پر آوازیں کستے ہیں۔
خواجہ سرائوں کا کہنا ہے کہ انہیں دیکھتے ہی کچھ متوالوں کا ضبط اور ظرف ان کا ساتھ چھوڑ دیتا ہے۔ ان تماش بینوں کی سیٹیوں سے ان کی تہذیب چھلکنا شروع ہو جاتی ہے اور تو اور چھوٹے بچے بھی ان کے گرد اس طرح طواف کرتے ہیں جیسے انہیں مفت کے کھلونے مل گئے ہوں۔ مگرکوئی اس محروم اور مظلوم طبقے کے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ نظر نہیں آتا۔
امت کے سروے کے دوران ضلع سائوتھ کے علاقے ڈیفنس موڑ پر بھینک مانگنے والے خواجہ سرا رمضان عرف بلو نے بتایا کہ گزشتہ 15 سالوں سے گزربسر بھیک مانگ کر رہی ہوں ، ڈیڑھ دہائی قبل ہر ماہ چھ یا آٹھ کے قریب شادی بیاہ، سالگرہ اور منگنی کی تقریب میں ڈانس پروگرام کر کے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے ، لیکن آہستہ آہستہ خوشی کی تقریبات میں ڈانس پارٹیاں ختم ہونے لگیں اور اصل خواجہ سراؤں کی جگہ ڈانس پارٹیوں میں  جعلی کھسرے جگہ لینے لگے جبکہ شہر کے پوش علاقوں سمیت کچی آبادیوں میں لڑکے نما ہیجڑوں نے گروپ بنا رکھے ہیں جنہوں نے سوشل میڈیا کا استعمال شروع کر رکھا ہے۔
نمائندے کے سوال پر ایک خواجہ سرابلو نے جواب دیا کہ اصل خواجہ سرا اس دنیا میں شامل ہوتے ہی پہلا کام (گرو) منتخب کرتا ہے اور اس ہی کے بتائے ہوئے طور طریقوں پر عمل کر کے آگے کی زندگی بسر کرتا ہے۔ این ایم سی سگنل پر بھیک مانگنے والے خواجہ سرا شہزاد عرف شہزادی نے بتایا کہ پانچ بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر ہے، سات سال کی عمر تھی کہ بڑی بہنوں کی طرح ڈوپتہ اوڑھنا، چوڑیاں ہاتھوں میں پہننا اور بہنوں کے کپڑے شوق سے پہننا شوق تھا، اکثر والدہ مار پٹائی بھی کرتی تھیں لیکن مجھے لڑکیوں کے ساتھ کھیلنے اور ان کی چیزیں استعمال کرنا بہت اچھا لگتا تھا۔
شہزادی نے بتایا کہ والد ڈرائیور تھا اور محلے میں شادی بیاہ کی تقریب میں ڈانس پارٹی میں ساتھ لے کرجاتا تھا، دس سال کی عمر میں میرے اندر کا خواجہ سرا بھی جاگ اٹھا اور میں نے بھی شوقیا ناچنا شروع کردیا۔
36 سالہ خواجہ سراشہزادی نے بتایا کہ 13 سالہ کی عمر میں گھر چھوڑ دیا تھا اور گزشتہ تئیس سالوں سے بھیک مانگ کر اور ڈانس پارٹیوں سے ملنے والی رقم سے زندگی بسر کررہی ہوں۔
ماہانہ مشکل سے پندرہ سے 16 ہزار روپے کمالتا ہوں ، بھیک سے ملنے ہونےوالی رقم گرو کے پاس جمع کرواتی ہوں ، تائیس سالہ عرصے میں دو گرو بندے ہیں ، پہلے گرو کا انتقال ہوگیا تھا۔
ضلع سینڑل فیڈریل بی ایریا گلبر گ چورنگی پر بھینک مانگنے والے خواجہ سرا مجید عرف نتاشہ نے بتایا کہ بلوغت تو کیا شاید ابھی پہلی سانس بھی نہیں لے پائی تھی کہ مجھ سے نفرت کا آغاز والدین سے شروع ہوگیا تھا، میں تو اپنے گرو کو اپنا حقیقی ماں باپ سمجھتی ہوں ،میں نے ہوش سنبھالا تو خود کو گرو کے ساتھ ہی پایا ، بھیک مانگ کر زندگی بسر کر رہی ہوں۔
ملیر سے تعلق رکھنے والے خو اجہ سرا یاسر عرف رمل کا کہنا تھا کہ معاشرے کے تلخ اور غیر انسانی رویوں کے ساتھ ساتھ خواجہ سراوں کی معاشی حالت بھی نہایت نا گفتہ بہ ہے ہمارے سماجی رویوں کی وجہ سے نہ وہ کسی ادارے میں کام کر سکتے ہیں اور نہ ہی تعلیم ان کا مقدر بن پاتی ہے۔
خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ معاشی حالت کی وجہ سے گزشتہ چند سالوں میں کئی اپنی زندگیوں کا خاتمہ بن کر چکے ہیں، اگر حکومت تعاون کرے اور کسی اچھے روزگارکا بدوبست کردے تو ہم اس زلت سے نکل کر باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔
کراچی کی اہم شاہراہوں کے چوراہوں پر بھینک مانگنے والے خواجہ سراؤں کا کہنا ہے کہ لوگ ہمیں قبول نہیں کرتے، دن میں ہم گھر سے باہر نہیں نکل پاتے کہ لوگ آوازیں کستے اور چھیڑتے ہیں،روزی روٹی کرنے کے لیے بھی ہم جس جگہ یاپوائنٹ پر جائیں وہاں بھی لوگ تعان کرنے کی بجائے ہمیں تنگ کرتے ہیں،ہمارے پاس اس ایک کام کے علاوہ اور کوئی آپشن ہی نہیں بچتا۔
خواجہ سرائوں کا کہنا ہے کہ بیچ چوراہے پر لوگ بدکاری یا برے کاموں کے لیے آمادہ کرتے بھی دیکھائی دیکھتے ہیں ، یومیہ بھنک سے بامشکل چار پانچ سو روپے مل جاتے ہیں ، جن سے ہمارا چولہا بھی نہیں جلتا، کچھ لوگ پیسے بھی نہیں دیتے اور تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں، کیا کریں ہم خواجہ سرا ہے مگر دھندہ ہے کیونکہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی سہارا نہیں ہے،خواجہ سرا کا کہنا ھے کہ یہ ذلالت ہے اور ہم اس گندگی سے نکلناچاہتے ہیں مگر ہمارے پاس کرنے کے لیے اور کچھ نہیں ہے۔
ایک خواجہ سرا نے بتایا کہ بعض خواجہ سرا اس قدر مجبور بھی ہوئے کہ غلط راستہ احتیار کرنے کے بجائے اپنے زندگی کا خاتمہ کر بیٹھے۔
واضح رہے کہ خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا وہ پسا ہوا اور کمزور طبقہ ہے جس کی کمزوریوں ، پریشانیوں اور دکھوں کا ہمیں احساس تک نہیں ہوتا ،وہ پیدائش سے لے کر مرگ تک کس کرب سے گزرتے ہیں ہم اس پہ غور کرنے کے لیے تیار نہیں، زندگی کا ایک ایک لمحہ ان کے لیے عذاب سے کم نہیں، یہ تو وہ محروم طبقہ ہے جسے اپنے حتی کہ ان کے ماں باپ بھی اپنانے سے ڈرتے ہیں،اپنوں اور بیگانوں کی بد اعتمادیوں اور بے وفائیوں کو سینوں میں لیے مٹکتے نظر آتے ہیں، ہاتھوں پہ ہاتھ مارتے اور لوگوں میں مسکراہٹ بانٹتے ان خواجہ سراؤں کے حوصلے کی دادکوئی نہیں دیتا۔
خواجہ سرائوں کا کہنا ہے کہ حکومت تعاون کرے اور کسی اچھے روزگارکا بدوبست کردے تو ہم اس ذلت آمیز پیشے سے نکل کر باعزت زندگی گزارنے کے قابل ہو جائیں۔