بظاہر اپوزیشن اتحاد کا پلڑا بھاری، خفیہ رائے دہی ممکنہ نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے
بظاہر اپوزیشن اتحاد کا پلڑا بھاری، خفیہ رائے دہی ممکنہ نتائج پر اثر انداز ہوسکتی ہے

سینیٹ ٹکٹوں کیلیے سب سے زیادہ پی ٹی آئی میں لابنگ

امت رپورٹ/ نجم الحسن عارف

سینیٹ الیکشن میں ٹکٹوں کے حصول کیلئے سب سے زیادہ لابنگ حکمران جماعت تحریک انصاف میں ہو رہی ہے۔ جس کے سبب اسے امیدواروں کے چنائو میں مشکلات کا سامنا ہے۔ خیبرپختون میں جہاں ارب پتی خاندان ٹکٹوں کیلئے تحریک انصاف کے رہنمائوں اور وزرا سے رابطے میں ہیں۔ وہیں وزیر دفاع پرویز خٹک بھی اپنے لوگوں کو کامیاب کرانے کیلئے کوشاں ہیں۔ جہاں انہیں پچاس فیصد سے زائد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔ خفیہ بیلٹ کی صورت میں پرویز خٹک کے افراد کو ٹکٹ نہ دینے سے پی ٹی آئی کو نقصان اٹھانا پڑ سکتا ہے۔ پنجاب میں بھی تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف سینٹ انتخابات کے لئے اپنے کچھ ناموں کو فائنل کرنے میں کامیاب ہوچکی ہے۔ ان ناموں میں وزیراعظم کے مشیر برائے داخلہ و احتساب شہزاد اکبر، معاون خصوصی برائے اوورسیز زلفی بخاری، ثانیہ نشتر، وزیر اطلاعات شبلی فراز اور مشیر تجارت عبدالرزاق داؤد شامل ہیں۔ یہ وہ نام ہیں جن کی سفارش وزیر اعظم نے کی ہے۔ جبکہ بابر اعوان، سیف اللہ نیازی، ڈاکٹر زرقا اور نیلوفر بختیار کے نام بھی وزیر اعظم کو دے دیئے گے ہیں۔ تاہم ان ناموں پر حتمی فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔ جبکہ مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ کے حوالے سے اس وقت مشاورت چل رہی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ تحریک انصاف کی قیادت نے ق لیگ کے کامل علی آغا کا ٹکٹ بھی کنفرم کر دیا ہے۔ کامل علی آغا کو ٹکٹ وزیر اعظم نے ق لیگ کی جانب سے دو ٹوک موقف اور سینٹ انتخابات میں اپنی راہ الگ کرنے کی دھمکی پر دیا۔ دوسری جانب سینیٹ ٹکٹوں کیلئے خیبرپختون کے ارب پتی خاندانوں نے پی ٹی آئی کے بڑوں کو رام کرنا شروع کر دیا ہے۔ جبکہ پرویز خٹک کے افراد کو ٹکٹیں نہ دینے کی وجہ سے خفیہ بیلٹ کی صورت میں پی ٹی آئی کی پوری منصوبہ بندی الٹ سکتی ہے۔ کیونکہ پی ٹی آئی کے پچاس فیصد سے زائد اراکین مستقبل میں پرویز خٹک کو کسی اور جماعت یا مستقبل کی حکومت میں دیکھ رہے ہیں۔ اس لئے وہ پرویز خٹک کی ناراضگی مول نہیں لے سکتے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر سینیٹ الیکشن کیلئے خفیہ بیلٹ کا طریقہ بحال رکھا جاتا ہے تو عمران خان اور پوری پی ٹی آئی کو پرویز خٹک کے نامزد کردہ امیدواروں کو ٹکٹ دینا پڑیں گے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو پرویز خٹک پی ٹی آئی کے بجائے اپوزیشن سے جوڑ توڑ کر سکتے ہیں۔ جس سے عمران خان کی اکثریت بھی اقلیت میں بدل جائے گی۔ پرویز خٹک کے انتہائی قریبی ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پرویز خٹک چاہیں تو پی ٹی آئی کی موجودہ حکومت کو بھی گرا سکتے ہیں۔ کیونکہ جماعت اسلامی سے لے کر شیرپائو تک اور اے این پی سے لیکر مولانا فضل الرحمن تک پرویز خٹک کے انتہائی قریبی تعلقات ہیں۔ کیونکہ گزشتہ اکتیس برسوں میں پرویز خٹک پیپلز پارٹی سے لیکر پی پی شیرپائو اور پی ٹی آئی تک تمام حکومتوں میں حکمران جماعت میں رہے ہیں۔ دس سال تک نوشہرہ کے ضلعی ناظم رہے۔ لہذا پرویز خٹک اس وقت خیبرپختون کی سیاست کے بڑے کھلاڑی تصور کئے جاتے ہیں۔ تاہم اگر انتخاب اوپن بیلٹ پر ہوتا ہے تو پرویز خٹک اپنی سیاسی زندگی کا بڑا کھیل ہار جائیں گے۔ ادھر سینیٹ کے ٹکٹوں کا معاملہ قریب آتے ہی مردان کے نسیم الرحمن گروپ، ضلع خیبر کے محمد شاہ آفریدی گروپ، پشاور زلمے کے جاوید آفریدی کے قریبی رشتہ دار اور دیگر ارب پتیوں نے اپنے لئے لابنگ شروع کر دی ہے اور اس حوالے سے گورنر، اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیراعلیٰ بار بار عمران خان سے رابطے کر رہے ہیں۔ لیکن ایک انتہائی سینئر رکن اسمبلی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ عمران خان اور ان کے قریبی ساتھیوں کی کوشش ہے کہ سینیٹ الیکشن میں اوپن بیلٹ ہو، تاکہ پرویز خٹک کی سیاست میں کردار کو بھی ختم کیا جا سکے۔ لیکن پی ٹی آئی کے اندر بہت سے لوگ اوپن بیلٹ کے حق میں نہیں۔ کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ پارٹی پر وہی لوگ قابض رہیں گے۔ جن کا پی ٹی آئی سے کوئی تعلق نہیں اور عمران خان پوری طرح ان لوگوں کے نرغے میں ہیں۔ خیال رہے کہ گزشتہ روز خیبرپختون الیکشن کمیشن سے 6 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی حاصل کر لئے ہیں۔ ان میں کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے سابق صوبائی وزیر اور موجودہ رکن اسمبلی امجد خان آفریدی کے بھائی سابق سینیٹر عباس آفریدی، تحریک انصاف سے سیاسی وابستگی رکھنے والے مردان کے صنعتکار فیصل سلیم الرحمن، اسد سلیم الرحمن، مسعود سلیم الرحمن، مسلم لیگ (ن) کی فرح خان شامل ہیں۔
ادھر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق پی ڈی ایم کی جانب سے ممکنہ طور پر مولانا فضل الرحمن کو مشترکہ امیدوار بنایا جا سکتا ہے۔ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے بھی اپنے اپنے امیدوار فائنل کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق سینٹ انتخابات کیلئے پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کا ایک اور اجلاس جلد ہی منعقد ہوگا۔ نواز لیگ سے جڑے ذرائع کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف اصولی طور پر یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ سینیٹ میں پہلے سے موجود پارٹی کے تجربہ کار اور سینئیر رہنمائوں کو ہی اس بار بھی ٹکٹ دیا جائے گا۔ ان پارٹی رہنمائوں میں پارٹی چئیرمین راجہ ظفرالحق، پرویز رشید اور مشاہداللہ خان اہم ہیں۔ ذرائع کے مطابق اتفاق سے یہ تینوں شخصیات کسی بھی دوسرے رہنما کے مقابلے میں اپنے قائد میاں نواز شریف کے ہی قریب ہیں۔ تاہم رسمی اور دفتری ضرورت کے تحت دوسرے پارٹی رہنمائوں سے بھی درخواستیں طلب کرنے کیلئے ایک سرکلر جاری کردیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ جو پارٹی رہنما سینیٹ ٹکٹ کے خواہاں ہے۔ وہ پچاس ہزار روپے فیس کے ساتھ اپنی درخواستیں ماڈل ٹاون سنٹرل آفس میں پہنچا دیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر زیادہ درخواستیں آئیں تو پارٹی کا باضابطہ پارلیمانی بورڈ قائم کیا جاسکتا ہے۔ جس کی سفارشات کے بعد میاں نواز شریف ٹکٹوں کے حوالے سے اپنا فیصلہ سنائیں گے۔ ان ذرائع کے مطابق پارٹی کے صوبہ سندھ سے تعلق رکھنے والے رہنما شاہ محمد شاہ اور محمد زبیر بھی سینیٹ کی ٹکٹ کیلئے کوشاں ہیں۔ سابق گورنر سندھ محمد زبیر پارٹی قائد اور مریم نواز دونوں کے ترجمان اور معتمد ہیں۔ جبکہ شاہ محمد شاہ نے کافی پہلے سے پارٹی کے صدر میاں شہباز شریف سے اس بارے میں وعدہ لے رکھا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پارٹی قیادت کو یہ مشورہ بھی دیا گیا ہے کہ جن تین نشستوں پر جیت یقینی ہے۔ انہی کے حوالے سے امیدوار سامنے لائے جائیں۔ اگر زیادہ تعداد میں امیدوار سامنے لائے گئے تو اس صورت میں یہ خطرہ ہو گا کہ اپنی جماعت کے ووٹ بکھر جائیں گے اور ایک نشست پر بھی جیت مشکل ہو سکتی ہے۔ ذرائع کے بقول نواز لیگ کے پرانے اتحادی اور مرکزی جمعیت اہلحدیث کے سربراہ پروفیسر ساجد میرکا نام بھی ترجیحاً میاں نواز شریف کے سامنے ہے۔ پروفیسر ساجد میر کی سفارش سعودی عرب سے آئی ہے۔ وہ اس سے پہلے بھی پانچ مرتبہ نواز لیگ کی حمایت سے سینیٹر بن چکے ہیں۔ اس تناظر میں ساجد میر کو ایک مرتبہ پھر نواز لیگ کا سینیٹ ٹکٹ ملنے کا امکان ہے۔ اسی طرح خواتین کی نشستوں کیلئے لیگی خواتین رہنما نزہت عامر اور نجمہ حمید کے نام اہم ہیں۔ جبکہ بیگم عشرت اشرف بھی سینیٹ کے ٹکٹ کی خواہش مند ہیں۔ لیگی ذرائع کے مطابق پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر پی پی کے اہم رہنما اور سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی بھی نواز لیگ کی مدد سے سینیٹ کا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں۔ اس خواہش کا اظہار یوسف رضا گیلانی نے لندن فون کرکے نواز شریف سے کیا۔ جس کی میاں نوازشریف نے پذیرائی کی ہے۔ یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد میں ووٹ دینے کے بدلے میں پیپلز پارٹی، پنجاب اسمبلی کے علاوہ صوبہ خیبر پختون اسمبلی میں اپنے ووٹ لیگی سینیٹ امیدواروں کو ووٹ دے گی۔
الیکشن کمیشن حکام کے مطابق اس بار سینیٹ کی 48 نشستوں پر انتخابات ہوں گے۔ فاٹا کی نشستوں پر انتخابات نہیں ہوں گے۔ جس کے باعث سینیٹ کی نشستیں 104 سے کم ہوکر 100 رہ جائیں گی۔ اس وقت صوبائی اسمبلیوں میں پارٹی پوزیشن کو مدنظر رکھا جائے تو سینیٹ الیکشن میں تحریک انصاف کو 21 نئی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ پی ٹی آئی کی سینیٹ میں اس وقت 14 نشستیں ہیں۔ جن میں سے 7 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ تحریک انصاف کو اپنے ہوم گراؤنڈ یعنی خیبر پختون اسمبلی سے 10، پنجاب سے 6، اسلام آباد سے 2، سندھ سے 2 اور بلوچستان سے ایک امیدوار کی کامیابی کی توقع ہے۔ اس طرح 28 نشستوں کے ساتھ تحریک انصاف پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت بن سکتی ہے۔ تحریک انصاف کو سینیٹ میں پہلی بار 2014ء میں نمائندگی ملی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹ میں نشستیں 21 سے کم ہو کر 19 رہ جائیں گی۔ پیپلز پارٹی کے 7 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ان تمام ارکان کا تعلق سندھ سے ہے۔ پیپلز پارٹی کو سندھ سے 5 نئی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت مسلم لیگ ’ن‘ کے سب سے زیادہ 17 سینیٹر ریٹائر ہوں گے۔ لیگی سینیٹرز میں سے 11 پنجاب، جبکہ بلوچستان، خیبرپختون اور اسلام آباد سے دو دو ریٹائر ہوں گے۔ اس طرح نون لیگ کی سینیٹ میں نشستیں 30 سے کم ہو کر 18 رہ جائیں گی۔ نون لیگ کو سینیٹ میں صرف پنجاب سے 5 نئی نشستیں ملنے کا امکان ہے۔ ایوان بالا سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے 2 سینیٹرز ریٹائر ہوں گے۔ ایک کا تعلق بلوچستان اور ایک کا خیبرپختون سے ہے۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں جمعیت علمائے اسلام ’ف‘ کے سینیٹرز کی تعداد 5 ہونے کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم کی سینیٹ میں نشستیں 5 سے کم ہو کر 3 رہ جائیں گی۔ خیبر پختون میں ضم ہونے کے باعث فاٹا سے سینیٹ میں کوئی نئی نشست نہیں آئے گی۔ فاٹا سے سینیٹ میں ارکان کی تعداد 4 رہ جائے گی۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق کے ریٹائر ہونے کے بعد ایوان بالا میں جماعت اسلامی کا صرف ایک سینیٹر رہ جائے گا۔ سیاسی ماہرین کے مطابق پی ڈی ایم کی جماعتیں بلوچستان اور خیبر پختون میں اتحاد کر کے مزید ایک ایک اضافی نشست حاصل کر سکتی ہیں۔ اے این پی، پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی حمایت سے خیبر پختون اسمبلی میں ایک نشست اور بلوچستان اسمبلی میں ایم ایم اے، بی این پی مینگل، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور اے این پی اتحاد سے ایک نشست جیتی جا سکتی ہے۔ سینیٹ میں نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی دو دو نشستیں رہ جائیں گی۔ جی ڈی اے کی سندھ سے ایک نشست آنے کی صورت میں ارکان کی تعداد 2 ہو جائے گی۔ بی این پی مینگل کے پاس 2 نئی نشستیں آنے کا امکان ہے۔