حکومت نے معاملے کو بدنیتی سے ڈیل کرکے اسلام آباد کا نظام زندگی متاثر کیا۔فائل فوٹو
حکومت نے معاملے کو بدنیتی سے ڈیل کرکے اسلام آباد کا نظام زندگی متاثر کیا۔فائل فوٹو

احتجاجی ملازمین کی تقسیم کا پلان الٹا حکومت کے گلے پڑگیا

امت رپورٹ:
سرکاری ملازمین اور پی ٹی آئی حکومت کے مابین ہونے والے معرکے میں پانسہ پلٹ گیا ۔ یوں احتجاجی ملازمین کی تقسیم کا پلان الٹا حکومت کے گلے پڑگیا ہے۔ لیبر تحریک کی جانب سے آج ملک بھرکے سرکاری اداروں میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا۔

واضح رہے کہ سرکاری ملازمین کے احتجاج کے سبب بدھ کو سارا دن اسلام آباد میدان جنگ بنا رہا۔ رات نو بجے اس رپورٹ کے فائل کرنے تک بھی احتجاجی ملازمین نے وفاقی دارالحکومت کے مختلف مقامات پر دھرنا دے رکھا تھا۔ مظاہرین اپنی تنخواہوں میں فوری اضافے کا مطالبہ لے کراسلام آباد پہنچے تھے۔
اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کا احتجاج اور پولیس کی جانب سے طاقت کے استعمال کے مناظر سارا دن ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چلتے رہے۔ لہٰذا اس تفصیل میں جانے کے بجائے رپورٹ میں ان پس پردہ پہلوئوں کو سامنے لایا جارہا ہے، جس سے عوام بے خبر ہیں۔ اس اندرونی کہانی سے یہ بھی پتہ چلے گا کہ کیسے حکومت نے معاملے کو بدنیتی سے ڈیل کرکے اسلام آباد کا نظام زندگی متاثر کیا۔ جبکہ حالات مزید خراب ہونے کا خطرہ بدستور موجود ہے۔
نصف درجن سے زائد مزدور رہنمائوں نے اس سارے معاملے کے حوالے سے جو بتایا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکاری ملازمین اور حکومت کے درمیان تنازعہ کا آغاز اس وقت ہوا تھا، جب پچھلے بجٹ میں پہلی بار تنخواہوں میں اضافے کا اعلان نہیں کیا گیا۔ اس حکومتی اقدام پر سرکاری ملازمین میں بے چینی پھیلنا شروع ہوئی۔ تاہم ملک بھر کی نمایاں ٹریڈ یونینز نے صبرکا مظاہرہ کیا۔ لیکن جب پی ٹی آئی حکومت نے مختلف سرکاری اداروں میں ڈائون سائزنگ اور نجکاری کے عمل کا سلسلہ تیز کیا تو تمام سرکاری اداروں کی سی بی اے یونینوں نے اس اقدام کو روکنے کے لیے سڑکوں پر آنے کا متفقہ فیصلہ کرلیا۔

ابتدا میں تمام سرکاری ملازمین اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک پیج پر تھے۔ ان میں سول سرونٹس کہلانے والے اساتذہ، کلرکس، مختلف وفاقی وزارتوں، وفاقی سیکریٹریٹس، سپریم کورٹ، وزیراعظم ہائوس اور ایوان صدر کے ملازمین کے ساتھ پی آئی اے، واپڈا، ریڈیو پاکستان، پی ٹی وی، سول ایوی ایشن، اسٹیل مل، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن، او جی ڈی سی ایل جیسے دیگر تمام سرکاری اداروں کے ملازمین شامل تھے، جو اٹیچڈ ڈپارٹمنٹ کہلاتے ہیں۔ کیونکہ ان کے اپنے بورڈ آف ڈائریکٹرز یا بورڈ آف گورنرز ہوتے ہیں۔ اس لئے انہیں سول سرونٹس کے مقابلے میں کسی حد تک خود مختاری حاصل ہوتی ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ جب سرکاری ملازمین نے احتجاج کی تیاری شروع کی تو حکومت نے قابل عمل مطالبے تسلیم کرنے کے بجائے سرکاری ملازمین کے اس اتحاد میں پھوٹ ڈالنے کا پلان تشکیل دیا۔ چونکہ ہر ٹریڈ یونین کا کسی نہ کسی سیاسی پارٹی سے تعلق ہوتا ہے۔ لہٰذا حکومت کی کوشش تھی کہ احتجاجی ملازمین کے ایسے مزدور رہنمائوں کو اپنے لوپ میں لے لیا جائے جو تحریک انصاف سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ تاکہ احتجاجی تحریک کو کمزور کیا جا سکے۔

ابتدا میں حکومت کو اس حوالے سے کچھ کامیابی مل گئی۔ جب سول سرونٹس کو لیڈ کرنے والے ٹریڈ یونین رہنمائوں نے اپنے زیر اثر ملازمین کو سمجھایا کہ ان کا مسئلہ صرف تنخواہوں میں اضافے سے متعلق ہے۔ اداروں کی نجکاری یا دیگر معاملات سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں۔ لہٰذا اگر وہ تمام اٹیچڈ ڈیپارٹمنٹس کے ملازمین کی بات کرنے والوں کے ساتھ چلتے ہیں تو نجکاری روکنے سمیت ان کے دو درجن کے قریب مطالبات پورے کئے جانے کا کوئی امکان نہیں۔ اس کے برعکس سول سرونٹس کی جانب سے صرف تنخواہوں میں اضافے کا ایک نکاتی مطالبہ تسلیم کرانا آسان ہے۔

ذرائع کے مطابق یہ سوچ حکومت نے اپنے بعض ہمدرد ٹریڈ یونین رہنمائوں کے ذریعے ملازمین میں پھیلائی اور وقتی طور پر یہ حکمت عملی کارگر رہی۔ حالانکہ اٹیچڈ ڈپارٹمنٹس ملازمین کے ہمنوا قائدین کو یہ انفارمیشن مل چکی تھی کہ حکومت فوری تنخواہ بڑھانے کا ارادہ بھی نہیں رکھتی۔ اور یہ کہ سول سرونٹس کو حکومت نے تنخواہ بڑھانے کا لالی پاپ محض تحریک میں پھوٹ ڈالنے کے لیے دیا ہے۔ تاہم سول سرونٹس کو لیڈ کرنے والے رہنما دانستہ یا نادانستہ طور پر حکومت کی اس چالاکی کو نہیں سمجھ سکے اور یوں سرکاری ملازمین دو گروپوں میں تقسیم ہوگئے۔

آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس صرف تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کرنے والے ملازمین کا نمائندہ گروپ بن گیا۔ اس کی کمان عبدالرحمن باجوہ، حاجی ارشاد اور اسلام الدین نے سنبھالی۔ جبکہ آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک نے سرکاری اداروں کی نجکاری روکنے، ڈائون سائزنگ ختم کرنے، برطرف ملازمین کی بحالی اور تنخواہوں میں سو فیصد اضافے سمیت دیگر مطالبات کو برقرار رکھا۔ اس گروپ کو محمد اسلم خان لیڈ کر رہے ہیں۔ جب سرکاری ملازمین دو گروپس میں تقسیم ہوگئے تو حسب توقع حکومت نے آنکھیں بدل لیں۔ اور تنخواہوں میں اضافے کے وعدے سے مکر گئی۔ جس پر گزشتہ برس چھ اکتوبر کو آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس نے اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ جبکہ آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک نے اپنے مطالبات منوانے کے لئے چودہ اکتوبر کو اسلام آباد آنے کا اعلان کیا تھا۔

دوسری جانب چھ اکتوبر کو آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے بینر تلے سرکاری ملازمین اسلام آباد پہنچے تو پولیس کے ساتھ تھوڑی بہت آنکھ مچولی کے بعد وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان اور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے خود جاکر ملازمین سے مذاکرات کئے۔ اور تنخواہوں میں جلد اضافے کا وعدہ کرکے احتجاج ختم کرا دیا۔ دوسری جانب اپنے شیڈول کے مطابق چودہ اکتوبر کو آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے بینر تلے سرکاری ملازمین وفاقی دارالحکومت پہنچ گئے۔

حکومتی نمائندوں نے ان ملازمین کے قائدین کو بھی زبانی وعدے پر ٹرخانے کی کوشش کی۔ تاہم لیبر تحریک کی قیادت نے زبانی دعووں پر اعتماد کرنے کے بجائے تحریری معاہدے پر اصرار کیا۔ چنانچہ پرویز خٹک کی سربراہی میں ایک تین رکنی کمیٹی بنائی گئی۔ جس نے لیبر تحریک کی قیادت سے طویل مذاکرات کئے اور ان کے چوبیس نکاتی مطالبات کو مرحلہ وار تسلیم کئے جانے سے متعلق تحریری معاہدہ کرلیا۔ اس تحریری معاہدے پر وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور علی محمد خان، ایڈیشنل سیکریٹری فنانس اور ایڈیشنل سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ نے دستخط کئے۔ لیبر تحریک کی جانب سے اسلم خان کے سائن لئے گئے۔ جبکہ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد حمزہ شفقات کو فوکل پرسن مقرر کیا گیا۔ تاہم اس تحریری معاہدے سے بھی حکومت مکر گئی۔

مذاکرات کے لئے ایک اور میٹنگ بلائی گئی تو حکومتی نمائندوں نے اصرار کرکے دوسرے گروپ کے قائدین کو بھی اجلاس میں بلالیا۔ اجلاس میں موجود ایک مزدور رہنما کے بقول اس موقع پر آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے رہنما حاجی ارشاد نے واضح طور پر کہا کہ ان کا تعلق ایپکا سے ہے۔ باقی اداروں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ چنانچہ حکومت صرف تنخواہوں میں اضافے کا اعلان کردے تو مسئلہ حل ہوجائے گا۔ جس پر دوسرے گروپ آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے رہنما اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے۔

پچھلے ہفتے دونوں گروپوں کو حکومت نے دوبارہ مذاکرات کے لئے بلایا۔ تاہم آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے قائدین نے مذاکرات کا بائیکاٹ کر دیا۔ جبکہ گرینڈ الائنس کے قائدین کے ساتھ وزیر دفاع پرویز خٹک اور وزیر داخلہ شیخ رشید نے مذاکرات کئے۔ اس میٹنگ کی روداد سے واقف ذرائع نے بتایا کہ گرینڈ الائنس کے قائدین میں بھی اس وقت اختلافات پیدا ہوگئے، جب حاجی ارشاد نے صرف زبانی وعدے پر دس فروری کو اعلان کردہ دھرنا ختم کرنے پر آمادگی کا اظہار کر دیا۔ تاہم گرینڈ الائنس کے دیگر قائدین عبدالرحمن باجوہ اور اسلام الدین نے نوٹیفکیشن کے اجرا پر زور دیا۔ اور کہا کہ اگر نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا گیا تو دس فروری کو اسلام آباد میں ہر صورت دھرنا دیا جائے گا۔

بعد ازاں کسی نتیجے پر پہنچے بغیر یہ اجلاس ختم ہوگیا۔ حکومتی نمائندوں نے میڈیا کو مس گائیڈ کرتے ہوئے بتایا کہ مذاکرات کامیاب ہوگئے ہیں۔ حقیقت یہ تھی کہ مذاکرات کرنے والے ملازمین کے ایک گروپ کے اپنے اندر بھی اختلافات پیدا ہوگئے تھے۔ لہٰذا دس فروری کو آل گورنمنٹ ایمپلائیز گرینڈ الائنس کے بینر تلے ملازمین وفاقی دارالحکومت احتجاج کے لئے پہنچ گئے۔ حاجی ارشاد اس احتجاج سے پہلے ہی لاتعلق ہوچکے تھے۔ جبکہ گرینڈ الائنس کے دیگر رہنما عبدالرحمن باجوہ اور اسلام الدین کو دھرنے کی رات ہی سولہ ایم پی او کے تحت حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ذرائع کے مطابق یوں بدھ کو اسلام آباد میں سرکاری ملازمین کے احتجاج کو لیڈ کرنے والا کوئی مرکزی رہنما موجود نہیں تھا۔ بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ وفاقی دارالحکومت پہنچنے والے سرکاری ملازمین بغیر کمان کے احتجاج ریکارڈ کرا رہے ہیں۔ مخالف گروپ کے ایک عہدیدار کا دعویٰ تھا کہ حکومتی لائن پر عبدالرحمن باجوہ اور اسلام الدین نے خود جاکر گرفتاری دی۔ تاکہ احتجاجی ملازمین میں مایوسی پھیل جائے اور وہ شام تک واپس گھروں کو چلے جائیں۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ بالخصوص سرکاری ملازمین پر پولیس کے لاٹھی چارج، شیلنگ اور واٹر کینن کے استعمال نے مظاہرین کو مشتعل کر دیا۔ ایسے میں دوسرے گروپ آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے قائدین بھی ان سرکاری ملازمین سے یکجہتی کے لئے مظاہرے میں پہنچ گئے۔

ذرائع نے بتایا کہ اب ان ملازمین کو احساس ہو رہا ہے کہ حکومت نے صرف اتحاد میں پھوٹ ڈالنے کے لئے سرکاری تنخواہوں میں اضافے کا وعدہ کیا تھا۔ اور یہ کہ انہیں مشترکہ طور پر جدوجہد کرنی چاہئے۔ بدھ کی رات اس رپورٹ کو فائل کرنے تک پریس کلب، ڈی چوک، پارلیمنٹ اور اسلام آباد کے مختلف مقامات پر سرکاری ملازمین موجود تھے۔ جبکہ سرینگر ہائی وے بند پڑا تھا۔ ذرائع نے بتایا کہ سرکاری ملازمین کے ساتھ لیبر تحریک کے مزدور رہنما محمد اعجاز، ملک چنگیز او راجہ اشتیاق بھی موجود تھے۔
دوسری جانب آل پاکستان ایمپلائیز پنشنرز لیبر تحریک کے قائد محمد اسلم خان نے سرکاری ملازمین پر ہونے والے پولیس تشدد کی شدید مذمت کرتے ہوئے آج (جمعرات) ملک بھر کے تمام سرکاری اداروں میں یوم سیاہ منانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جس کے تحت ملازمین اور لیبر ورکرز ہر قسم کے سرکاری امور کا مکمل بائیکاٹ کرکے ہڑتال کریں گے اور دفاتر کی تالہ بندی کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا جائے گا۔

’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے محمد اسلم خان کا کہنا تھا کہ اختلاف رائے اپنی جگہ پر ہے۔ تاہم ان کی تحریک اسلام آباد پہنچنے والے سرکاری ملازمین کے ساتھ کھڑی ہے۔ اور انہیں کسی صورت تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔ اسلم خان کے بقول پندرہ فروری کو جب ان کی قیادت میں سرکاری ملازمین وفاقی دارالحکومت پہنچیں گے تو تفریق ختم ہوجائے گی۔ اور حکومت کی جانب سے سرکاری ملازمین میں پھوٹ ڈالنے کی سازش دم توڑ جائے گی۔

دوسری جانب لیبر تحریک کے مرکزی رہنما سید عارف شاہ کا کہنا ہے کہ ملازمین کو تقسیم کرنے کی سازش ناکام ہوچکی ہے۔ جو ملازمین اس غلط فہمی میں تھے کہ حکومت ان کے ساتھ ہاتھ نہیں کرے گی۔ اب انہیں بھی اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے۔ لہٰذا ان کی بڑی تعداد لیبر تحریک کے ساتھ چلنے پر آمادہ ہے۔ کیونکہ تنخواہوں میں اضافہ تمام ملازمین کا مشترکہ مطالبہ ہے۔ اس سوال پر کہ اگر گرینڈ الائنس کے مطالبات حکومت تسلیم کرلیتی ہے تو پھر پندرہ فروری کو لیبر تحریک کے پاس دھرنے کا جواز ختم نہیں ہوجائے گا؟

عارف شاہ کا کہنا تھا ’’گرینڈ الائنس والے صرف تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمارے نجکاری روکنے، ڈائون سائزنگ کے خاتمے، ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کرنے، برطرف ملازمین کی بحالی اور تنخواہوں میں سو فیصد اضافے سمیت چوبیس مطالبات ہیں۔ ان مطالبات کے حصول کے لئے اکسٹھ سرکاری اداروں کے لاکھوں ملازمین ہمارے ساتھ ہیں۔ لہٰذا اگر لیبر تحریک کے رہنما دوبارہ حکومتی لالی پاپ کو قبول کرلیتے ہیں یا حکومت ان کی تنخواہوں میں چالیس فیصد اضافے سے متعلق مطالبات تسلیم کرلیتی ہے۔ پھر بھی ہمارے دھرنے کا جواز باقی رہے گا‘‘۔