رپورٹ:حسام فاروقی
کراچی میں موجودایم سلیمان نامی مٹھائی کی دکان جس کی مٹھائی بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح بھی بہت شوق سے کھاتے تھے،مٹھائی کی دکان کا کام سو سال پہلے بھارت سے شروع کیا تھا جہاں آج بھی وہ دکانیں بھارت کے شہر ممبئی میں موجود ہیں، مٹھائی کا یہ کام اب چوتھی پیڑھی سر انجام دے رہی ہے.
ایم سلیمان مٹھائی فروش کے خاص پکوانوں میں ملائی کھاجہ سب سے زیادہ مشہور ہے، جو کہ روزآنہ سو کلو سے زائد فروخت ہوتا ہے اور روزآنہ ہی تیار کیا جاتا ہے، قائداعظم محمد علی جناح کو بھی مٹھائیوں میں ملائی کھاجہ سب سے زیادہ پسند تھا اور وہ بھارت میں موجود ایم سلیمان کی دکان میں اکثر ملائی کھاجہ کھانے جایا کرتے تھے، بھارت میں ان کی دکان سلیمان عثمان مٹھائی والا کے نام سے سو سال گزرنے کے بعد بھی بہت مشہور ہے، تفصیلات کے مطابق امت کی جانب سے کئے جانے والے سروے کے دوران کھارادر پولیس چوکی کے قریب واقع ایم سلیمان نامی مٹھائی کی دکان کے مالک اے کیو شہزاد نے امت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ مٹھائی بنانے اور فروخت کرنے کا کام ان کا جدی پشتی کام ہے اور اب اس کام میں ان کی چوتھی پیڑھی بھی شامل ہو چکی ہے، اپنے آباؤ اجداد کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ کام ہمارے دادا نے بھارت کے شہر بمبئی سے شروع کیا تھا جہاں ان کی دکان سلیمان عثمان نام سے تھی اور وہیں ان کے تمام بیٹے ان کے ساتھ یہ کام کرتے تھے.، یہ پاکستان بننے سے پہلے کی بات ہے جب قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک آزادی کے لئے جدوجہد شروع کی تھی، اور اکثر ان کے دادا محمد سلیمان کی دکان پر ہی قائد اعظم آکر بیٹھا کرتے تھے کیونکہ ان کے دادا سے قائد اعظم محمد علی جناح کی کافی دوستی تھی اور تحریکی ساتھیوں کے ساتھ ان کے دادا کی دکان پر ہی مشاورت بھی کی جاتی تھی، جہاں وہ دادا کے ہاتھوں کی بنی مٹھائی بھی نہایت شوق سے کھاتے تھے.
مٹھائی میں قائد اعظم محمد علی جناح کو ملائی کھاجہ بہت مرغوب تھا، جس کی وہ اکثر تعریفیں بھی کیا کرتے تھے اور اس مٹھائی میں قائداعظم نے کچھ تبدیلیاں بھی کروائی تھیں،جو تبدیلی کے ساتھ ہمارے دادا ملائی کھاجہ صرف قائد اعظم کے لئے ہی تیار کرتے تھے، پاکستان بننے کے بعد میرے والد حجرت کرکے قائد اعظم کے ساتھ پاکستان آگئے جبکہ میرے والد کے بھائی بھارت میں ہی رہ گئی جس کے بعد انہوں نے وہاں ہمارے دادا کی دکان سنبھال لیاور آج بھارت کے شہر ممبئی میں ہمارے دادا کی دو دکانیں کم کر رہی ہیں، جن میں سے ایک دکان اپنی پرانی جگہ یعنی محمد علی روڈ مینارہ مسجد کے پاس اور دوسری دکان جو ابھی کچھ سال پہلے شروع کی گئی ہے ماہیم نامی علاقے میں موجود ہیں اور یہ دکانیں ممبئی کی مشہور ترین مٹھائی کی دکانوں میں سے ایک ہیں، جبکہ والد صاحب نے پاکستان میں آکر کھارادر میں دکان کھولی اور پھر ہم یہاں مٹھائی کا کام کرنے لگے اور یہاں بھی قائداعظم اپنی وفات سے قبل تک مٹھائی ہماری ہی دکان سے لیتے تھے، اور یہ دکان آج تک اسی طرح کام کر رہی ہے جیسے پہلے کرتی تھی، والد کے بعد یہ کاروبار میں نے سنبھالا اور اب میرے بچے اس کاروبار کو دیکھ رہے ہیں، یعنی اس کاروبار سے ہماری چوتھی پیڑھی اب جڑ چکی ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری مٹھائیوں میں ویسے تو تمام ہی میٹھائیاں اپنا جواب نہی رکھتی ہیں، مگر ہمارے پاس دستیاب ملائی کھاجہ کی بات ہی کچھ الگ ہے اوراس سے زیادہ اچھا اور خستہ ملائی کھاجہ پورے کراچی میں کہیں اور نہی مل سکتا ہے، ملائی کھاجہ کے بارے میں مزید بتاتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ مٹھائی بھارت کے شہر ممبئی کی سے متعارف ہوئی ہے اور یہ میمن برادری سمیت اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کی پسندیدہ ترین مٹھائی تصور کی جاتی ہے اور اس مٹھائی کو یہ لوگ نہایت شوق سے کھاتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کھارادر میں زیادہ تر جو میمن افراد رہائش پزیر ہے وہ اپنی تقریبات میں بھی اس مٹھائی کو تقسیم کرنا پسند کرتے ہیں، کھارادر اور میٹھادر میں، حمد و ثناء کی محفلوں میں میلاد کی محافل میں، نکاح اور منگنی کی تقریبات میں اس کے ساتھ ساتھ شادی کی تاریخ پکی ہونے یا بات پکی ہونے کی خوشی میں بھی میمن افراد اس مٹھائی کو اپنے اہلخانہ، رشتہ داروں اور دوست احباب کو تقسیم کرنا پسند کرتے ہیں، اس کے علاوہ ملائی کھاجہ مجالس میں بھی بڑی تعداد میں تقسیم کیا جاتا ہے اس ہی وجہ سے اس مٹھائی کی بہت زیادہ مانگ میمن برادری کے رہائش والے علاقوں میں ہے.
اس مٹھائی کی تیاری کے حوالے سے بات کرتے ہوئے دکان کے مالک،دکا ن پر آئے گراہک اور دکان پر کام کرنے والے افراد فیضان، سید اعجاز فاطمی، اکبر علی، محمد جمن، اور محمد عرفان کا کہنا تھا، یہ مٹھائی میدے سے تیار کی جاتی ہے پہلے تو انتہائی اعلی معیار کے میدے کو اچھی طرح سے گوندھا جاتا ہے اور پھر اسے کچھ دیر چھوڑ دیا جاتا ہے جس کے بعد، میدے کے لچھے بنائے جاتے ہیں اور انہیں پھر گوندھا جاتا ہے، اور یہ سلسلہ دو سے تین بار تک جاری رہتا ہے، جس کے بعد ایک بار پھر لچھے بنا کر اس میدے کے اندر کھویا شامل کیا جاتا ہے اور اس کے پیڑے بنائے جاتے ہیں جس کے بعد انہیں اصلی گھی میں تلا جاتا ہے اور مکمل تل جانے کے بعد انہیں شکر اور خشبو ملے شیرے میں دال دیا جاتا ہے جس کے بعد اسے باہر نکال کر مکمل خشک ہو جانے تک انتظار کیا جاتا ہے جس کے بعد اسے فروخت کے لئے پیش کیا جاتا ہے، دکان پر موجود ایک گراہک فیضان کا کہنا تھا کہ ویسے تو کھارا در میں اور بھی بہت سی دکانیں مٹھائی کی اب موجود ہیں جو ملائی کھاجہ بھی فروخت کرتی ہیں مگر جو زائقہ ایم سلیمان مٹھائی والوں کا ہے وہ کسی اور دکان میں نہی مل پاتا ہے اس لئے میں روز شام کو کام سے گھر جاتے ہوئے یہاں سے گھر والوں کے لئے ایک سے ڈیڑھ کلو ملائی کھاجہ ضرور خریدتا ہوں کیونکہ میرے تمام اہلخانہ کو یہ مٹھائی بہت پسند ہے اور ہم کھانے کے بعد یہ مٹھائی ضرور کھاتے ہیں، ایم سلیمان نامی مٹھائی کی ایک دکان کھارادر میں قائم ہے جبکہ اسکی ایک اور برانچ حسین آباد میں کھولی گئی ہے، جسے وہاں موجود میمن برادری نے بہت سراہا ہے، اب ان کا ارادہ ہے کہ یہ اپنی دکان کی دیگر شاخیں بھی ملک کے دیگر شہروں میں بھی کھولیں تاکہ لوگوں کو اصل مٹھائی کے زائقے کا درست لطف مل سکے۔
پاکستان بننے کے بعد کراچی میں پہلی مٹھائی کی دکان ایم سلیمان مٹھائی کی تھی جو کھارا در میں کھولی گئی تھی، جس کے بعد پھر لوگوں نے اس کاروبار میں اپنی قسمت آزمانی شروع کی اور آج بھی پرانے لوگ مٹھائی لینے کے لئے اسی دکان کا رخ کرتے ہیں، اس دکان پر شہر کے مختلف علاقوں سے لوگ آکر مٹھائی خریدتے ہیں، ایم سلیمان مٹھائی کی دکان کے مالک اے کیو شہزاد کا امت سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان بننے کے بعد جب میرے والد حجرت کرکے پاکستان آئے تو انہوں نے اپنا ٹھکانہ کراچی کے علاقے کھارادر کو بنایا تھا اور اسی جگہ پر انہوں نے روزگار کے لئے مٹھائی کی دکان کھولی تھی جس کا نام ایم سلیمان مٹھائی والا رکھا تھا، مٹھائی کے کاروبار سے واقفیت کی وجہ سے ہماری دکان نے کافی پزیرائی حاصل کی تھی اور پھر اس دکان سے قائد اعظم بھی اکثر مٹھائی خریدتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ ہمارے حساب کے مطابق جب ہم کراچی آئے تو اس وقت کراچی میں کوئی مٹھائی کی دکان نہی تھی اور جن ہندووں کی دکان یہاں پہلے سے تھیں وہ اپنی دکانیں بند کرکے بھارت نقل مکانی کر گئے تھے، اس وجہ سے ہم نے اس کام کو پاکستان میں کرنے کا ارادہ کیا تھا اور پاکستان بننے کے بعد جو سب سے پہلی دکان کراچی میں مٹھائی کی کھلی تھی اور ہماری دکان تھی جو کھارادر میں کھلی تھی، جس کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام سے دیگر لوگ بھی جڑتے چلے گئے اور کراچی میں مٹھائی کی دکانیں کھلنا شروع ہو گئیں۔
ایم سلیمان مٹھائی فروش ایک ایسی مٹھائی بھی تیار کرتے ہیں جو بھارت میں ہی ملتی ہے اور پاکستان میں کراچی میں ان کی ہی دکان پر دستیاب ہے، جسے افلاطون کہا جاتا ہے بہت سے مٹھائی والوں نے یہ مٹھائی بنانے کی کوشش کی مگر وہ اس مٹھائی کو اس کی اصل حالت میں تیار نہی کر سکے، جو کہ ہمارے پاس دستیاب ہے، ایم سلیمان مٹھائی کی دکان کے مالک کا کہنا تھا کہ بھارت میں ہماری پرانی دکان پر ایک مٹھائی تیار کی جاتی تھی جسے ہمارے دادا نے افلاطون کا نام دیا تھا، جو کہ اب بھی وہاں ملتی ہے اور پورے بھارت میں مشہور ہے، جو بھی شخص بھارت کے کسی بھی شہر سے ممبئی جاتا ہے وہ محمد علی روڈ پر واقع ہماری دکان سلیمان عثمان مٹھائی والا سے یہ مٹھائی ضرور خرید کے سوغات کے طور پر اپنے ہمراہ لے کے جاتا ہے، اور پاکستان میں یہ مٹھائی اسی زائقے میں صرف ہمارے پاس موجود ہے، اس مٹھائی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ یہ مٹھائی بہت محنت سے تیار ہوتی ہے اور اس کو تیار کرنے میں 12سے 14گھنٹے تک کا وقت درکار ہوتا ہے جو کہ خالص اصلی گھی میں تیار کی جاتی ہے اس مٹھائی کی تیاری میں کھویا، انڈے، سوجی، میدہ، بادام، پستے، اخروٹ، کاجو، زعفران اور عرق گلاب کا استعمال کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے اس مٹھائی کی قیمت دیگر مٹھائیوں سے کچھ زیادہ ہے، اور اس مٹھائی کو پیس کی صورت میں ریپر میں پیک کرکے فروخت کیا جاتا ہے، اگر کوئی اصل افلاطون مٹھائی کھانا چاہے تو اسے ایک بار ہماری دکان پر ضرور آنا پڑے گا۔
ملائی کھاجہ میں اب کئی طرح کے زائقے تیار کئے جا رہے ہیں، جس میں اصل زائقہ ملائی والے کھاجہ کا ہے اس کے ساتھ ساتھ ہم ربڑی کھاجہ، کھیر کھاجہ، بادام والا کھاجہ، کاجو کا کھاجہ، پستی کاجو کھاجہ، اور شوگر فری کھاجہ بھی تیار کرتے ہیں، ہمارے پاس دستیاب شوگر فری کھاجہ بھی کراچی میں بہت مشہور ہے، اور اس کا زائقہ بھی اصل ملائی کھاجہ سے کچھ کم نہی ہے، اس کھاجے کو تیار کرنے کا طریقہ بھی ہم نے اپنے والد سے ہی سیکھا ہے جو اب ہم اپنی اولاد میں منتقل کر رہے ہیں تاکہ ہمارے بعد بھی ہمارے آباؤ اجداد کا نام اسی طرح سے مشہور رہے اور لوگوں کو ہمارا جدی پشتی مٹھائی کا زائقہ ہمیشہ ملتا رہے۔