عمران خان:
صابن کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال کی بیرون ملک سے درآمد پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی مد میں سالانہ کروڑوں روپے حکام کی نااہلی کی نذر ہونے لگے ہیں۔ جس سے صابن سازی کی صنعت سے منسلک بعض عناصر کروڑوں روپے کا ناجائز منافع حاصل کر رہے ہیں۔ جبکہ عوام کو اس کا کوئی ریلیف بھی نہیں مل رہا۔ صابن ساز ادارے اور سپلائرز ٹیکس میں چھوٹ حاصل کرنے کے باجود شہریوں کو عالمی سطح پر فکس نرخوں پر ہی صابن فروخت کر رہے ہیں۔
کسٹم کے ڈائریکٹوریٹ آف ویلیوایشن کی عدم توجہی اور نااہلی کے سبب صابن کی صنعت میں استعمال ہونے والے فیٹی انگریڈنٹس اور پام ایسڈ آئل وغیرہ کی درآمد پر عائد ڈیوٹی اور ٹیکس گزشتہ 10 برس سے وہی ہیں جو پہلے تھے۔ حالانکہ اس دوران عالمی مارکیٹ میں خام مال کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور اسی حساب سے اس سامان پر کسٹم ڈیوٹی اور ٹیکس کی شرح میں بھی رد و بدل ضروری ہوگیا ہے تاہم نامعلوم وجوہات کی بنا پر ڈائریکٹوریٹ ویلیوایشن کے حکام اس جانب توجہ نہیں دے رہے۔ جس سے قومی خزانے کو سالانہ کروڑوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ جبکہ ماڈل کسٹم کلکٹریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم، ویسٹ اور ایسٹ کے گروپ 2 کے افسران بھی بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ جن کی معاونت سے بعض درآمدکنندگان ڈسکرپشن میں ردوبدل کرکے انڈر انوائسنگ کے ذریعے کروڑوں روپے کی ٹیکس چوری کر رہے ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی معلومات کے مطابق صابن کی تیاری میں استعمال کئے جانے والے خام مال میں شامل پام ایسڈآئل، پام فیٹی ایسٹ سمیت دیگر اجزا کی کلیئرنس انڈر انوائسنگ کے ذریعے کی جارہی ہے۔ جس کے باعث قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔
ذرائع کے بقول جنوری تا دسمبر 2020ء کے دوران متعدد درآمد کنندگان کی جانب سے پام ایسڈ آئل کے سینکڑوں کنسائمنس کی کلیئرنس نہ کرنے کے باعث ڈیوٹی و ٹیکسزکی مد میں اربوں روپے کی کم وصولیاں ہوئیں۔ پام ایسڈآئل کی بین الاقوامی قیمت 800 تا 1000 ڈالر فی ٹن ہے۔ جبکہ کسٹم کی جانب سے بین الاقوامی قیمتوں کو نظرانداز کرکے پام ایسڈآئل کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس 50 ڈالر تا 410 ڈالر فی ٹن کے تناسب سے کی جارہی ہے۔
کسٹم اپریزمنٹ کی جانب سے درآمد کنندگان کو کم قیمتوں میں کنسائمنٹس کی کلیئرنس کرکے انڈر انوائسنگ کرواکر قومی خزانے کو اربوں روپے سالانہ کا نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پام ایسڈ آئل کی فروخت کا جائزہ لیا جائے تو کلیئرنس کے تناسب سے مہنگے داموں فروخت سے اس امر کی نشاندہی ہوتی ہے کہ درآمدکنندگان کی جانب سے انڈر انوائسنگ کرکے صرف قومی خزانے کو نقصان پہنچایا جا رہا ہے۔ پام ایسڈ آئل مارکیٹ میں صرف اپنے نام سے فروخت ہوتا ہے۔ جبکہ صابن کی تیاری کے لیے درآمد کئے جانے والے دیگر اجزا اعلیٰ معیار کے نام پر مہنگے داموں فروخت کیے جاتے ہیں۔ پام ایسڈآئل کے علاوہ دیگراجزا کی درآمد صابن کی صنعتوں کی جانب سے نہیں کی جارہی۔ بلکہ اس کی سو فیصد درآمد کمرشل امپورٹر کر رہے ہیں اور صنعتیں بھی ان کمرشل امپورٹر سے اپنی ضرورت کا خام مال خریدنے پر مجبور ہیں۔
پاکستان سوپ مینو فیکچرنگ ایسوسی ایشن کی جانب سے ڈائریکٹر جنرل ڈائریکٹوریٹ آف کسٹم ویلیوایشن کو مکتوب ارسال کئے گئے ہیں کہ پام ایسڈ آئل سمیت دیگر اجزا کی کلیئرنس عالمی قیمتوں کے مطابق کرنے کے لئے ویلیوایشن رولنگ میں ردوبدل کیا جائے۔ تاکہ کنسائمنٹس کی کلیئرنس پر ہونے والے ڈیوٹی و ٹیکسزکے نقصان کو ختم کیا جا سکے۔ لیکن ڈائریکٹوریٹ آف کسٹمز ویلوایشن کی جانب سے ویلیوایشن رولنگ میں ردوبدل سے گریز کیا جا رہا ہے۔ جس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ویلیوایشن کے افسران ایسے درآمدکنندگان کو فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ جن کے کنسائمنٹس کی کلیئرنس بین الاقوامی قیمتوں سے کم ہو رہی ہے۔
دوسری جانب اپریزمنٹ ایسٹ اور ویسٹ میں گروپ 2 کے افسران بھی ان تمام تر حقائق کو نظرانداز کر رہے ہیں۔ محکمہ کسٹمزکے پاس کنسائمنٹس کی کلیئرنس کا تمام تر ڈیٹا موجود ہوتا ہے۔ ان افسران کو اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ یا تو وہ ویلیوایشن رولنگ کے مطابق کنسائمنٹس کی کلیئرنس کریں یا پھر کلیئرنس ڈیٹا میں موجود زیادہ ویلیو پر کلیئر ہونے والے کنسائمنٹس کے مطابق دیگر کلیئرنس کریں۔ لیکن محکمہ کسٹمز کے افسران کی جانب سے تمام تر حقائق کو نظر انداز کیا جارہا ہے اور کنسائمنٹس کی کلیئرنس بین الاقوامی قیمتوں کے مطابق نہیں کر رہے۔ متعدد درآمدکنندگان کی جانب سے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے پام ایسڈآئل کے کنسائمنٹس کی درآمد کی گئی ہے۔ جبکہ سعودیہ اور عرب امارات میں پام کی پیداوار ہی نہیں ہوتی۔ یوں پام ایسڈ آئل کی آڑ میں غیر قانونی کنسائمنٹس کی کلیئرنس افسران کی ملی بھگت سے کی جارہی ہے۔ صابن کی فیکٹریاں صابن کی تیاری میں استعمال ہونے والے فیٹی اجزا (چکنائی) کی آڑ میں غیرقانونی طور پر استعمال شدہ کھانے کا تیل بھی دبئی اور سعودی عرب سے درآمد کر رہی ہیں۔
’’امت‘‘ کو ماڈل کسٹم کلکٹریٹ اپریزمنٹ پورٹ قاسم، ویسٹ اور ایسٹ میں کام کرنے والے افسران نے بتایا کہ اپریزمنٹ کے گروپ 2 کے بعض افسران لاکھوں روپے کی رشوت بٹور کر فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ کیونکہ فیٹی انگریڈنٹس میں ایف ایف عنصر اگر زیادہ ہو تو یہ 55 ٹیرف میں چلا جاتا ہے اور ایف ایف عنصر کم ہو تو یہ 35 ٹیرف میں آجاتا ہے۔ اسی حساب سے اس پر کسٹم ڈیوٹی کم یا زیادہ ہوتی ہے۔ تاہم اپریزمنٹ کے گروپ 2 کے کرپٹ افسران کی معاونت سے بعض درآمد کنندگان زیادہ ایف ایف کے حامل خام مال کو ڈسکرپشن میں ردوبدل کرکے جعلسازی سے مس ڈکلریشن کے ذریعے کم ڈیوٹی اور ٹیکس پر کلیئر کروا رہے ہیں۔ جس سے قومی خزانے کو بھاری نقصان پہنچ رہا ہے۔