نمائندہ امت
سینیٹ انتخابات کیلیے امیدواروں کے چنائو پر تحریک انصاف میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ سب سے زیادہ اختلافات بلوچستان میں پائے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق اس وقت بلوچستان میں ووٹ کی بولی ستر کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔ سینٹ انتخابات کے نتائج حیران کن ہو سکتے ہیں جبکہ نئے الیکشن شیڈول پر اپوزیشن کی تنقید جاری ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے سینٹ انتخابات کا نیا شیڈول جاری کیا گیا ہے۔ جس پر اپوزیشن پارٹیوں نے سخت تنقید کی ہے۔ پیپلزپارٹی کا کہنا ہے کہ کاغذات نامزدگی کی تاریخ میں توسیع کا فیصلہ تحریک انصاف کو فائدہ پہنچانے کیلئے کیا گیا۔ شیڈول میں تبدیلی کا فیصلہ شکوک کو جنم دیتا ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری اعلامیہ کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی تاریخ 15 فروری تک بڑھا دی گئی ہے۔ نامزد امیدواروں کی فہرست 16 فروری کو جاری ہوگی۔ کاغذات کی جانچ پڑتال 17 تا 18 فروری کو ہوگی۔ کاغذات پر اپیلیں 20 فروری تک دائر ہوسکیں گی۔ 23 فروری تک تمام اپیلوں کو نمٹا دیا جائے گا۔ جبکہ 24 فروری کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری ہوگی۔ 25 فروری تک امیدوار کاغذات نامزدگی واپس لے سکیں گے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے واضح کیا گیا ہے کہ پولنگ 3 مارچ کو ہی ہوگی۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ پیلز پارٹی اور اپوزیشن جماعتوں کے بیانات میں کوئی حقیقت نہیں۔
سینیٹ انتخابات کیلیے پورے پاکستان میں 78 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کروا دیئے۔ 16خواتین کی نشستوں پر ملک بھر سے کاغذات جمع ہوئے۔14 ٹیکنوکریٹس اور علما کی نشستوں پر بھی کاغذات جمع کروائے گئے۔ 5 غیر مسلم نشستوں پر بھی کاغذات نامزدگی جمع کروائے گئے۔
الیکشن کمیشن سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ شبلی فراز، ثانیہ نشتر، حفیظ شیخ، فوزیہ ارشد، زرقا تیمور، سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، فاروق نائیک، پرویز رشید، مشاہداللہ، کریم خواجہ، عباس آفریدی، فرحت اللہ بابر کے کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے گئے ہیں۔ اسلام آباد کی ایک جنرل نشست پر پی ڈی ایم کے امیدوار سید یوسف رضا گیلانی کا مقابلہ تحریک انصاف کے حفیظ شیخ سے ہوگا۔ ادھر بلوچستان سے تحریک انصاف کے امیدوار عبدالقادر پر صوبائی قیادت کے اعتراض کے بعد وزیراعظم عمران خان نے عبدالقادر کا ٹکٹ ظہور آغا کو دیدیا ہے۔
نون لیگ نے سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔ اعلان سے قبل سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یوسف رضاگیلانی سیملاقات کی اور ان کے تائید کنندہ تھے۔ اسی طرح سلیم مانڈوی والا، شیری رحمٰن، فاروق ایچ نائیک اور دیگر جماعتوں کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی بھی جمع ہو گئے ہیں۔ سیاسی پارٹیاں اپنے اپنے مضبوط امیدوار میدان میں لے آئی ہیں۔
تحریک انصاف کی فوزیہ ارشد نے کاغذات نامزدگی اسلام آباد اور زرقا تیمور نے لاہور میں جمع کرائے۔ لاہور میں مسلم لیگ ’ن‘ کے امیدوار سینیٹر پرویز رشید بھی کاغذات نامزدگی جمع کرانے پہنچے۔ سینیٹر مشاہد خان کے کاغذات ان کے صاحبزادے نے، جبکہ اعظم نذیر تارڑ نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرا دیے۔
پیپلزپارٹی کے امیدوار فرحت اللہ بابر نے کاغذات نامزدگی پشاور، جبکہ جام مہتاب ڈہر، تاج حیدر، شہادت اعوان کے علاوہ ڈاکٹر کریم خواجہ اور رخسانہ شاہ نے اپنے کاغذات نامزدگی کراچی میں جمع کرائے۔ ڈاکٹر کریم خواجہ نے ٹیکنو کریٹ اور رخسانہ شاہ نے خواتین کی مخصوص نشست پر کاغذات جمع کرائے۔ سینیٹ انتخابات کیلیے پشاور سے اے این پی کے امیدوار ہدایت خان نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے۔
ادھر تحریک انصاف نے سینیٹ انتخابات کیلیے بلوچستان سے امیدوار عبدالقادر سے ٹکٹ واپس لے لیا۔ وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے سیاسی روابط ڈاکٹر شہباز گل نے بتایا کہ بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ عبدالقادر سے واپس لے لیا گیا ہے اور بلوچستان سے سینیٹ کا ٹکٹ ظہور آغا کو جاری کیا جا رہا ہے۔
واضح رہے کہ تحریک انصاف کی جانب سے بلوچستان سے عبدالقادر کو سینیٹ کا ٹکٹ دیئے جانے پر پارٹی میں اختلافات شروع ہوگئے تھے۔ پی ٹی آئی نے عبدالقادر کو بلوچستان سے جنرل نشت پر ٹکٹ جاری کیا تھا اور ان ناموں کی منظوری وزیراعظم نے خود دی تھی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سینیئر رہنما ہمایوں خان بارکزئی نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ مرکزی قیادت کے غیر متعلقہ شخص کو ٹکٹ دینے کے فیصلے سے کارکن ناراض ہیں۔ کیونکہ جس شخص کو سینیٹ کا ٹکٹ جاری کیا گیا۔ وہ بلوچستان کا مقامی باشندہ ہی نہیں۔ جو شخص ایک دن پہلے پارٹی میں شمولیت اختیار کرے۔ اسے ٹکٹ دینا پرانے کارکنوں کی حق تلفی ہے۔ پی ٹی آئی کے ریجنل صدور نے بھی صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے فیصلے کی مخالفت کی۔
کوئٹہ پریس کلب میں تحریک انصاف کے ریجنل صدور نواب خان دمڑ، تاج محمد رند، ڈاکٹر منیر بلوچ اور دیگر نے کہا کہ پارٹی آئین کے مطابق صرف پارٹی کا کارکن ہی سینیٹ کا امیدوار بن سکتا ہے۔ جس شخص کو بلوچستان سے ٹکٹ جاری کیا گیا۔ وہ نیب زدہ اور نون لیگی رہنما شہباز شریف کا شراکت دار ہے۔
پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے تاج محمد رند نے کہا کہ سینیٹ کے ٹکٹ کے لیے 11 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں بلوچستان سے کسی کو نمائندگی نہیں دی گئی۔ وزیراعظم نے جس خدشے سے متعلق ٹویٹ کی کہ بلوچستان میں 50 سے 70 کروڑ خرچ کیے جارہے ہیں اور ہم ان کا راستہ روکیں۔ اس کے برعکس فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح سندھ میں سیف اللہ ابڑو کو دیے گئے ٹکٹ پر بھی اختلافات سامنے آرہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ووٹ کی بولی لگی ہوئی ہے۔ بلوچستان میں ووٹر کے نرخ ستر کروڑ تک پہنچ چکے ہیں۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت پنجاب میں تحریک انصاف کے ممبران صوبائی اسمبلی کا وزیر اعلیٰ اور اعلیٰ قیادت سے رابطہ کم سے کم ہوچکا ہے۔ پنجاب میں سینیٹ کا ایک ممبر بنانے کے لیے 47 سے 53 ارکان صوبائی اسمبلی کے ووٹ درکار ہوتے ہیں۔
یہ بات بہر حال طے ہے کہ اگر پنجاب میں سینیٹ الیکشن سیکرٹ بیلٹ سے ہوا تو پی ٹی آئی کے اندرکی کئی ناراضیاں کھل کر سامنے آئیں گی اور پی ٹی آئی الیکشن سے طاقتور ہونے کے بجائے کمزور ہو کر سامنے آئے گی۔ البتہ اوپن بیلٹ ہوا تو لوگ بغاوت کے خوف سے کھل کر سامنے نہیں آئیں گے اور یوں پی ٹی آئی اپنے زیادہ تر لوگ، اپنی نئی پالیسی کی وجہ سے جتوا لے گی۔