ضیاء چترالی
سعودی عرب میں مدینہ کی مسجد نبوی کے نمایاں ترین قابل دید مقامات میں ’’المحراب النبوی‘‘ (محراب نبوی) ایک ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں کھڑے ہو کر امام نماز کی امامت کرتے ہیں۔
سعودی خبر رساں ادارے ایس پی اے کے مطابق محراب نبویؐ روضہ شریفہ میں منبر نبوی کے بائیں جانب واقع ہے۔ اس سے قبلے کی نشاندہی ہوتی ہے۔ امام مسجد نبوی یہاں کھڑے ہوکر فرض نمازوں کی امامت کرتے ہیں۔
سیرت طیبہ اور اسلامی تاریخ میں آتا ہے کہ پیغمبر اسلامؐ مکہ سے مدینہ ہجرت کے بعد 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نمازیں ادا کرتے رہے تھے۔
احادیث کی معتبر ترین کتابوں بخاری اور مسلم شریف میں روایت ہے کہ ’’رسول اقدسؐ جب مدینہ منورہ تشریف لائے تھے تو 16 یا 17 ماہ تک بیت المقدس کا رخ کرکے نماز ادا کرتے رہے تھے۔ اس وقت امام کے کھڑے ہونے کی جگہ مسجد کے آخر میں باب عثمان کے بالمقابل شمال کی جانب تھی۔
سولہ یا سترہ ماہ بعد قبلہ تبدیل ہوا تو پھر آپ علیہ الصلوٰۃ و السلام نے خدا کے حکم پر بیت المقدس کے بجائے خانہ کعبہ کا رخ کرکے نماز پڑھنا شروع کردی تھی۔ اس موقع پر امام کی جائے نماز مسجد نبوی کے شمالی حصے سے جنوبی حصے میں منتقل کردی گئی تھی۔ رسول اقدسؐ نے چند روز تک عائشہ صدیقہ کے نام سے منسوب ستون کے پاس نماز کی امامت کرائی تھی۔
اس کے بعد ’’المخلقۃ‘‘ ستون کے قریب امامت کی اور اپنی وفات تک اسی جگہ کھڑے ہوکر نمازیوں کی امامت کرتے رہے۔ اس کے اور منبر شریف کے درمیان 14 ہاتھ اور ایک بالشت کا فاصلہ ہے۔ اس جگہ اور روضہ رسولؐ کی دیوار کے درمیان 38 ہاتھ کا فاصلہ ہے۔ اس کے اور قبلے کی دیوار کے درمیان راہداری واقع ہے۔
اسے محراب نبوی کہا جاتا ہے اور یہ نام اس لیے رکھا گیا، کیونکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضور اقدسؐ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ عہد رسالت میں محراب نبوی تعمیر نہیں کی گئی تھی۔ آپؐ وہاں کھڑے ہو کر امامت کرتے تھے اور وفات تک آپؐ کا یہی معمول رہا۔
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کے دور تک یہ جگہ اسی طرح سادہ رہی۔ حضرت عمر بن عبد العزیز نے الولید بن عبدالملک کے عہد خلافت میں مدینہ منورہ کی گورنری کے زمانے میں محراب نبوی تیار کرائی۔
معروف سیرت نگار السمہودی نے تحریر کیا ہے کہ ’’رسول اقدسؐ اور خلفائے راشدینؓ کے زمانے میں مسجد نبوی میں کوئی محراب نہیں تھی۔ یہ عمر بن عبدالعزیزؒ کی ایجاد ہے۔ محراب کا رواج اسلامی تاریخ کے ابتدائی سو سال کے درمیان نظر نہیں آتا۔ اس کی شروعات دوسری صدی ہجری کے آغاز میں ہوئی۔‘‘
مسلم خلفا نے مسجد نبوی کے تاریخی اور عہد رسالت کے تمام قابل دید مقامات کی حفاظت کی۔ سعودی ریاست میں بانی مملکت شاہ عبدالعزیزاور پھران کے جانشینوں نے مسجد نبوی کی تعمیر، توسیع اور تزئین میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور زائرین کی سہولت کے لیے بہت سارے کام کرائے۔