رپورٹ:محمد قاسم:
امریکہ اورافغان طالبان کے درمیان ہونے والا دوحہ معاہدہ خطرے میں پڑگیا۔ جوبائیڈن حکومت کی جانب سے افغانستان میں امریکی فوج کا قیام بڑھانے کا مطالبہ افغان طالبان نے مسترد کر دیا ہے۔ جبکہ دوحہ معاہدے میں مزید شقیں شامل کرنے کو بھی معاہدے سے انحراف قرار دیتے ہوئے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے بعد افغان طالبان کی مرکزی شوریٰ کے اجلاس کے بعد طالبان کی جانب سے جاری طویل بیان میں کہا گیا ہے کہ دوحہ معاہدے میں جو شقیں شامل کی گئی تھیں۔ اس پر طالبان عمل درآمد کر رہے ہیں۔ دوحہ معاہدہ طالبان کی مجبوری یا کمزوری نہیں۔
گزشتہ سال روس کے دورے کے موقع پر دو ٹوک کہا گیا تھا کہ طالبان سو سال مزید لڑنے کیلیے تیار ہیں۔ اٹھارہ ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد طے پانے والا معاہدہ خدانخواستہ اونچ نیچ کا شکار ہوا تو پھر امریکا کو ذلت آمیز شکست کے ساتھ بھاگنے پر مجبور کیا جائے گا۔ یہ اندازہ امریکا کو بھی لگالینا چاہیے اوراس کے جو غلام اپنے اقتدار کیلیے تگ ودو کررہے ہیں۔ انہیں بھی اس پس منظر سے آگاہ رہنا چاہیے۔ خود امریکا اعتراف کر رہا ہے کہ 12 ماہ کے دوران کوئی بیرونی فوجی افغانستان میں ہلاک نہیں ہوا۔ اس سے افغان طالبان کی معاہدے پر مکمل پاسداری ظاہر ہوتی ہے۔ اسی طرح معاہدے کے متن کے مطابق افغان سرزمین سے امریکا اوراس کے اتحادیوں کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی نہ کسی کو اجازت اس کی دی گئی۔
معمول کے برعکس طالبان نے موسم بہار کے سالانہ آپریشن کا بھی اعلان کیا نہ ہی آغاز کیا۔ حالانکہ طالبان نے ملکی فریق سے ایسا کوئی معاہدہ نہیں کیا کہ ان کے فوجیوں پر حملے نہیں کریں گے۔ دوسری طرف جن مقامات پر جنگیں ہوئیں۔ ان کی بھی وجوہات یہ تھیں کہ طالبان مجاہدین کو اپنے علاقوں کا دفاع کرنے پر مجبور کیا گیا۔ یا عوام کو بعض چیک پوائنٹس کے شر سے نجات دلائی گئی اور بڑی شاہراہوں پر مسافروں اور ٹرانسپورٹرز کے اموال ہتھیانے والے بندوق برداروں کا سدباب کیا گیا۔ اس کے برعکس کابل انتظامیہ نے مختلف صوبوں میں بڑے آپریشن شروع کیے۔ یہاں تک کہ بعض معاملات میں غیر ملکی فضائیہ نے بھی اس کے ساتھ تعاون کیا۔ اسی طرح شہری آبادی پر چھاپے اور معاہدے کے برخلاف امریکی فضائیہ کی بمباریاں جاری ہیں۔ معاہدے کے متن کے مطابق بین الافغان مذاکرت کے آغاز کے تین ماہ کے اندر تمام قیدیوں کی رہائی بھی تاحال عمل میں نہیں لائی گئی۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اب تک افغان طالبان کے رہنماؤں کو بلیک لسٹ سے خارج نہیں کیا گیا۔ کابل انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کی جانب سے معاہدے پر دستخط سے لے کر اب تک اشتعال انگیز بیانات اور پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری ہے۔ سرکاری فورسز کی جانب سے نہتے شہریوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ علما کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ تاکہ طالبان کو مورد الزام ٹھہراکر موجودہ ماحول کو غیر یقینی بنادیا جائے۔ لیکن افغان طالبان تمام فریقوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ پروپیگنڈوں، اشتعال انگیز بیانات، بے بنیاد دعوؤں اور ماحول کو خراب کرنے کے بجائے اپنے وعدوں کی پابندی کریں۔ نیٹو رہنماؤں کو طالبان کا پیغام یہ ہے کہ جارحیت اور جنگ کا تسلسل ان کے اور ان کی اقوام اور افغان قوم کے مفاد میں نہیں۔ اگر کوئی جنگ اور جارحیت جاری رکھنا چاہتا ہے تو اس کی ذمہ داری اسی پر عائد ہوگی۔ افغان عوام اپنے ملک، اقدار اور آزادی کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں۔ لہذا کوئی فہمی میں نہ رہے۔
طالبان کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ دوحہ معاہدہ اصل میں کابل میں مقیم ان چند افراد کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہوا جن کی زندگی بیرونی قابضین کی جی حضوری میں گزری۔ جنہوں نے دوسروں کی خوشنودی کیلئے اپنوں کا خون بہایا۔ معاہدے کی وجہ سے ان کا اقتدار متزلزل ہونے لگا تو انہوں نے قومی مفادات پس پشت ڈال کر اپنی ذاتی حیثیت اور غلامی کو برقرار رکھنے کیلیے تگ ودو شروع کردی۔ کبھی معاہدے میں اس طرح رخنہ ڈالا کہ قیدیوں کی رہائی میں تاخیر کی۔ کبھی امریکی حکام کو خط لکھے۔ کبھی یورپی آقائوں سے فریاد رسی کی۔ مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی۔ جب معاہدے کی مدت پوری ہونے کو تھوڑا عرصہ رہ گیا اور امریکا اور اتحادیوں کے افغانستان چھوڑنے دن قریب آگئے تو یہ غلام لابی سر جوڑ کوششوں میں مصروف ہوگئی۔
رواں ماہ (فروری) کے پہلے ہفتہ میں افغان صدر اشرف غنی کے دونوں معاونین امراللہ صالح اور سرور دانش نے نئی امریکی حکومت کی منتیں شروع کردیں۔ جوبائیڈن انتظامیہ کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ دوحہ معاہدہ امریکا کیلئے مفید نہیں۔ رواں ماہ نئے امریکی صدر نے پنٹاگون میں خطاب کے دوران کچھ ایسے اشارے دئیے جو معاہدے کو توڑنے یا کم از کم اس سے انحراف کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے۔ اگر امریکا معاہدہ توڑتا ہے یا کوئی انحراف کرتا ہے تو اس سے امریکا کی دو رخی دنیا کے سامنے آشکارا ہوجائے گی۔ امریکا کی کوئی بات لائق بھروسہ نہیں رہے گی۔ ساتھ ہی یہ نکتہ قابل غور ہے کہ افغانستان کی جنگ کی وجہ سے امریکی معیشت ڈوبنے تک پہنچ گئی ہے۔ ایسے میں اگر وہ اپنی افواج اور ساز وسامان دوبارہ افغانستان لاتا ہے تو اس پر بے تحاشا اخراجات سے اس کی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ جائے گی۔
افغان طالبان نے مذاکرات شروع کرتے وقت بڑے واضح انداز میں کہا تھا کہ ’’یہ مذاکرات ہم نے اس لیے نہیں شروع کیے کہ ہم کمزور ہوگئے ہیں یا جنگ سے تھک گئے ہیں۔ شیر محمد عباس استنکزئی نے گزشتہ سال روس کے دورے کے موقع پر دو ٹوک کہا تھا کہ ہم سو سال مزید لڑنے کیلئے تیار ہیں۔ پھر مذاکرات پر اٹھارہ ماہ کی طویل ترین جد وجہد ہوئی ہے۔ یہ معاہدہ خدانخواستہ اونچ نیچ کا شکار ہوا تو امریکا کیلیے مذاکرات کے یہ سنہرے لمحات کبھی نہیں آئیں گے۔ وہ ذلت آمیز شکست کے ساتھ بھاگنے پر مجبور ہو جائے گا۔