نمائندہ امت:
پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ڈی چوک پر دھرنا دینے والے ہزاروں ملازمین کے مطالبات حکومت نے جزوی طور پر منظور کر لیے۔ واپڈا سمیت دیگر اداروں کی نجکاری موخر کرنے سمیت بعض یقین دہانیاں حاصل کرنے کے بعد ملک بھر کے 61 سرکاری اداروں اور محکموں کی یونینوں کے اتحاد آل پاکستان ایمپلائیز اینڈ الائنس کے تحت پیر کی دوپہر ڈھائی بجے سے شروع ہونے والا دھرنا، قائدین نے رات 8 بجے ختم کر دیا۔
واپڈا اوراس کے درجنوں ذیلی اداروں کے علاوہ ریڈیو پاکستان، پوسٹل سروسز، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سمیت دیگر اداروں کے ہزاروں ملازمین نے ڈی چوک پر مورچہ زن ہو کر حکومت کو 21 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا اور اعلان کیا تھا کہ وہ مطالبات کی منظوری اور متعلقہ اداروں سے نوٹی فکیشن کے اجرا تک واپس نہیں جائیں گے۔ صبح تک مطالبات منظور نہ کئے گئے تو منگل کے روز پارلیمنٹ ہائوس کی جانب مارچ شروع کر دیں گے۔ جہاں پارلیمنٹ کے سامنے غیر معینہ مدت کیلیے دھرنا دیں گے۔ اس دوران حکومت نے مختلف سرکاری اداروں کے ذمہ داران اور یونین رہنمائوں کے ذریعے احتجاجی قائدین کے ساتھ رابطے جاری رکھے۔ جس کا خاطر خواہ نتیجہ حاصل کرنے میں کامیابی بھی مل گئی۔ اس طرح محض 6 گھنٹے بعد ہزاروں ملازمین کا دھرنا ختم ہوگیا۔ ذرائع کے مطابق اگرچہ مزدور رہنما اور یونین قائدین کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ تاہم عملاً ’’دلّی دور است‘‘ والا معاملہ ہے۔
ذرائع کے مطابق مذاکرات میں حکومت کی جانب سے وفاقی وزیر برائے پانی و بجلی عمر ایوب خان، وفاقی سیکرٹری برائے واٹر اینڈ پاور اور ایم ڈی پیپکو (PEPCO) نے حصہ لیا۔ جبکہ ملازمین کی جانب سے پاکستان واپڈا ہائیڈرو الیکٹرک پاور یونین کے مرکزی سیکریٹری جنرل خورشید احمد خان، مرکزی صدر عبدالطیف خان نظامانی، چیئرمین اقبال خان اور جوائنٹ سیکرٹری رفیق اچکزئی نے حصہ لیا۔ مذاکرات میں حکومت کی جانب سے واپڈا کی نجکاری فی الحال نہ کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی ہے۔
واپڈا یونین کے مرکزی صدر عبدالطیف نظامانی نے مذاکرات کے بعد دھرنے کے شرکا کو مبارکباد دیتے ہوئے بتایا کہ ہمارے مطالبات جزوی طور پر تسلیم کر لیے گئے ہیں اور بعض معاملات پر مزید مذاکرات کا شیڈول دیا گیا ہے۔ ہم اپنے مزدور ساتھیوں کے حقوق کیلیے آخری حد تک جائیں گے اور ضرورت پڑی تو دوبارہ بھی اسلام آباد کی جانب مارچ کر سکتے ہیں۔ اس موقع پرانہوں نے شرکا سے ہاتھ کھڑے کرکے وعدہ بھی لیا کہ بوقت ضرورت اگلی کال پر وہ پھر دستیاب ہوں گے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ دھرنے کے دوران واپڈا کا ایک احتجاجی ملازم دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگیا تھا۔ جس کا اعلان اسٹیج سے کیا گیا اور مرحوم کیلیے فاتحہ خوانی کی گئی۔ دھرنے میں شریک افراد کی تعداد اندازاً چار سے پانچ ہزار تھی جن میں پانچ سے آٹھ سو کے قریب خواتین شامل تھیں، جن میں سے بعض کے ساتھ معصوم بچے بھی تھے۔ دھرنے کے شرکا کی نصف سے زائد تعداد کا تعلق خیبر پختون سے تھا۔ جبکہ پنجاب کے مختلف شہروں گوجرانوالہ، گجرات، لاہور، فیصل آباد، ملتان، سیالکوٹ کے علاوہ سندھ کے شہروں سکھر، نواب شاہ، حیدرآباد، کراچی سے بھی بڑی تعداد میں سرکاری ملازمین آئے ہوئے تھے۔ ان میں زیادہ تعداد واپڈا اور اس کے ذیلی اداروں کے الیکٹرک، حیسکو، سیسکو، لیسکو، فیسکو، گیسکو، آئیسکو وغیرہ کے ملازمین کی تھی۔
دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے واپڈا یونین کے رہنمائوں نے مطالبات منظور نہ کیے جانے کی صورت میں ملک بھر کی بجلی سپلائی منقطع کرنے کی دھمکی بھی دی تھی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ دراصل اسی دھمکی نے زیادہ اثر دکھایا اور وزیر بجلی و پانی اپنے محکمے کے سیکریٹری اور دیگر اعلیٰ حکام کے ہمراہ دوڑے دوڑے چلے آئے۔
واپڈا یونین کے مرکزی صدر اور آل پاکستان ایمپلائز اینڈ الائنس کے رہنما عبدالطیف نظامانی نے حکومت کے ساتھ ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے بتایا کہ ہمیں یقین دہانی کرائی گئی ہے کہ واپڈا کی نجکاری کا فیصلہ قبل از وقت (Premature) ہے۔ لہٰذا اس پر عملدرآمد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ وفاقی ملازمین کو دیا جانے والا 25 فیصد الائونس تمام سرکاری ملازمین کو ملنا چاہیے۔ ہمارے اس مطالبے پر طے پایا ہے کہ اس معاملے پر کل (بدھ) سہ پہر 4 بجے دوبارہ مذاکرات ہوں گے۔
علاوہ ازیں حکومت نے یقین دہانی کرائی ہے کہ جنریشن کمپنیز (Gen Co’s) کے جن 17 سے 18 سو ملازمین کو فار غ کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا وہ اپنی جگہ کام کرتے رہیں گے۔ ان کی تنخواہیں بحال کر دی گئی ہیں۔ انہیں اختیار دیا گیا ہے کہ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں میں اپنی مرضی کے مطابق جہاں سہولت ہو کام کر سکتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مزدور رہنما حکومت سے ہونے والے مذاکرات میں مذکورہ بالا تین اہم نکات کی بات کر رہے ہیں، جن میں سے بھی ایک مطالبے پر دوبارہ مذاکرات کا وعدہ کیا گیا ہے۔ جبکہ نجکاری موخر کرنے کی یقین دہانی اہم قرار دی جا سکتی ہے۔ تاہم ملازمین کے اتحاد نے 21 نکاتی چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا تھا، جس کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں۔
٭ ریٹائرمنٹ کی عمر کی حد میں کمی قبول نہیں کی جائے گی۔ تنخواہوں میں سالانہ اضافے کے خاتمے کا فیصلہ نا منظور۔ پنشن کا خاتمہ اور اس حوالے سے نیا طریقہ کار بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ افراط زر کی شرح کے مطابق کمپوٹیشن دیا جائے
٭ او جی ڈی سی ایل۔ سول ایوی ایشن۔ پی آئی اے۔ پاکستان اسٹیل ملز، ہائوس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کی نجکاری، رائٹ سائزنگ اور ڈائون سائزنگ کسی طور قبول نہیں کی جائے گی۔
٭ سرکاری ملازمین کیلئے ایڈ ہاک ریلیف کو فوری طور پر بنیادی تنخواہوں میں ضم کر کے مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری اور ریٹائرڈ ملازمین کے میڈیکل الائونس میں اضافہ کیا جائے۔ کنوینس الائونس بھی مہنگائی کی شرح کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جائے۔ پروموشن کا فرسودہ نظام ختم کر کے ازسرنو تشکیل دیا جائے۔
٭ وفاقی ملازمین کے پے اسکیل کو صوبوں کے برابر کیا جائے۔ گریڈ 1 سے 22 کے ملازمین کے بچوں کو 50 فیصد سن کوٹہ دیا جائے۔
٭ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو تحلیل کر کے واپڈا کو اصل حالت میں بحال کیا جائے۔
علاوہ ازیں دیگر مطالبات میں کہا گیا تھا کہ مزدور کی کم از کم تنخواہ 30 ہزار روپے مقرر کی جائے۔ ملک بھر کے کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے۔ طبقاتی نظام تعلیم ختم کرکے یکساں نصاب تعلیم کا اجرا کیا جائے۔ وغیرہ وغیرہ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فی الوقت ان اکیس میں سے صرف تین مطالبات کی منظوری اور وہ بھی صرف یقین دہانی کی حد تک منظوری کو حکومت کی کامیابی قرار دیا جا سکتا ہے۔ تاہم اگر نصف درجن سے زائد سرکاری اداروں کی نجکاری کا فیصلہ واپس لے لیا جائے تو اسے سرکاری ملازمین اور ان کے رہنماؤں کی جیت قرار دیا جاسکتا ہے۔
دوسری جانب خود یونین رہنماؤں میں سے بعض کا کہنا ہے کہ نجکاری کا فیصلہ واپس ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ اسے مؤخر کر کے مرحلہ وار عمل درآمد کیا جا سکتا ہے جس کے لیے حکومت وقت لے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 12 مطالبات تسلیم کر کے باقی پر مزید مذاکرات کا لالی پاپ دیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ ہاؤس پر احتجاج کے لیے ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین پیر کی صبح دس بجے اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے سامنے پہنچ گئے تھے۔
طے شدہ پروگرام کے تحت ملک بھر سے ریلیاں یہاں پہنچنے کے بعد ڈی چوک کی جانب مارچ کرنا تھا۔ تاہم ملک کے مختلف حصوں میں شاہراہوں پر سرکاری ملازمین کے قافلے روک لیے گئے، جس کی وجہ سے ملازمین کی آمد کا سلسلہ تاخیر کا شکار ہوا جو بعد ازاں ٹولیوں کی شکل میں ڈی چوک پہنچتے رہے۔ ملازمین کی یونین کے اتحاد کے مرکزی رہنما محمد اسلم خان کی قیادت میں مارچ کونیشنل پریس کلب سے روانہ ہونا تھا۔ حکومت نے پارلیمنٹ ہاؤس کی جانب لوگوں کا مارچ روکنے کے لیے سخت ترین حفاظتی انتظامات کر رکھے تھے، جہاں پولیس کی بھاری نفری جگہ جگہ تعینات تھی اور رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی تھی۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب سے آنے والے قافلے راستے میں روکے جانے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں سرکاری ملازمین مارچ کرتے ہوئے ڈی چوک پر پہنچ گئے تھے۔ مطالبات کے منظور نہ ہونے کی صورت میں احتجاج ملازمین کو پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے مرکزی گیٹ کے سامنے دھرنا دینا تھا۔ تاہم اس سے پہلے ہی معاملات طے پانے کے بعد رات آٹھ سے نو بجے کے درمیان ڈی چوک پر جاری دھرنا ختم کردیا گیا۔ مطالبات کی منظوری کے اعلان کے بعد سرکاری ملازمین موسیقی کی دھن پر رقص کرتے رہے۔ جبکہ اس موقع پر مٹھائیاں بھی تقسیم کی گئیں۔