عمران خان:
نیشنل بینک کراچی میں اے ٹی ایم کا بڑا فراڈ سامنے آگیا۔ سخی حسن برانچ کی دو مشینوں سے لاکھوں روپے غائب ہوگئے۔ بینک مینجر سمیت متعدد ملازمین ملوث پائے گئے ہیں اور بینک افسران کی ملی بھگت سے قومی خزانے کو لاکھوں روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔ معاملہ ایف آئی اے تک پہنچتے ہی اسکینڈل کو دبانے کیلیے نیشنل بینک کراچی غربی کے اعلیٰ افسران سرگرم ہو گئے۔
واضح رہے کہ نیشنل بینک کراچی غربی کی سخی حسن برانچ نیشنل بینک کی ملک کی بڑی برانچوں میں شامل ہے اور یہاں بیک وقت 6 اے ٹی ایم مشینیں چلائی جاتی ہیں، کیونکہ تنخواہوں کے کثیر تعداد میں اکاؤنٹس ہیں اور رقم نکالنے والے شہریوں کا رش ہوتا ہے۔ اس وقت یہاں پر 4 اے ٹی ایم مشینیں چل رہی ہیں اور دو مشینوں کو قواعد و ضوابط کے خلاف بند ہونے پر یہاں سے ہٹالیا گیا۔ تاہم جب آڈٹ کیا گیا تو لاکھوں روپے کی رقم کم پائی گئی۔
ذرائع کے مطابق ایف آئی اے کو اطلاعات موصول ہوئیں کہ کراچی میں نیشنل بینک ویسٹ کی بڑی سخی حسن برانچ میں نیشنل بینک کے افسران کی ملی بھگت سے لاکھوں روپے مالیت کے اے ٹی ایم فراڈ کیا گیا۔ اطلاعات کے مطابق اس فراڈ میں بینک منیجر، آپریشنل منیجر اور ہیڈ کیشئر کے علاوہ اے ٹی ایم کے شعبہ کے افسران بھی ملوث ہیں۔ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب اے ٹی ایم سے نکالی گئی رقوم اور اے ٹی ایم میں موجود رقم کا آڈٹ کیا گیا۔ پہلے اس معاملے کو دبانے کیلئے اعلیٰ افسران کو رپورٹ دی گئی کہ فراڈ سے نکالی گئی رقم کی مالیت 30 لاکھ روپے ہے تاہم جب معاملہ کھل کر سامنے آیا اور اس پر تفصیلی انکوائری کی گئی تو مجموعی طور پر 74 لاکھ روپے کی رقم غائب تھی۔ اس مالیاتی فراڈ کے علاوہ یہاں پر قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی بھی کی گئی۔
ذرائع کے بقول جب اس معاملے پر ایف آئی اے نے انکوائری شروع کی اور بینک حکام سے رابطہ کرکے ریکارڈ فراہم کرنے کو کہا تو بتایا گیا کہ یہ معاملہ حل ہوچکا ہے۔ کیونکہ فراڈ کی مکمل انکوائری کرکے ملوث افسران سے ریکوری کرلی گئی ہے۔ جس میں نیشنل بینک ویسٹ کے ہیڈر اشد عطا نے اہم کردار ادا کیا۔ ان معاملات میں ایک سنگین پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ نیشنل بینک کے متعلقہ اعلیٰ افسران صرف خود کو بچانے کے لئے نیب کا طریقہ کار استعمال کرنے لگے ہیں۔ یعنی نیشنل بینک کی برانچوں میں ہونے والے مالیاتی فراڈ میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کیلیے ایف آئی اے میں درخواست دینے کے بجائے تمام افسران مل کر کئی مہینوں یا برسوں بعد رقم جمع کرکے ریکوری پوری کردینے کی کوشش کرتے ہیں۔ تاکہ معاملے کو یہ کہہ کر ایف آئی اے سے دور رکھا جائے کہ ریکوری پوری کرلی گئی ہے۔
واضح رہے کہ جب ایف آئی اے کی تحقیقات شروع ہوتی ہیں تو فراڈ اور جرم میں ملوث افسران اور ان کے سہولت کاروں کے کردار کے حوالے سے بھی چھان بین کی جاتی ہیں۔ اسی وطیرے کی وجہ سے نیشنل بینک کے ایسے افسران جو مجرمانہ ذہنیت رکھتے ہیں، چھوٹی موٹی ہیرا پھیریوں کے ساتھ ہی لاکھوں روپے کے فراڈ بھی کر جاتے ہیں۔ اسی کی ایک مثال نیشنل بینک کی شاہ فیصل برانچ میں ہونے والا لاکھوں روپے مالیت کا فراڈ ہے، جس میں بینک افسران کی ملی بھگت سے جعلی دستخط کرکے کھاتوں سے رقم نکال لی گئی۔ تاہم جیسے ہی اس معاملے کی اطلاع ایف آئی اے کو پہنچی تو تحقیقات سے بچنے کے لئے محکمانہ انکوائری کے نام پر ریکوری ظاہر کردی گئی۔ یہاں پر بھی نیشنل بینک کے افسر راشد عطا نے اہم کردار ادا کیا۔ جبکہ تمام وفاقی سرکاری اداروں پر نافذ ہونے والے اینٹی کرپشن کے قوانین کے مطابق جرم کرنے والے سرکاری افسران کے خلاف جعلسازی اور اختیارات کے غیر قانونی استعمال کی کارروائی لازمی ہوتی ہے۔ تاہم یہ کارروائی اسی وقت ہوسکتی ہے۔ جب بینک افسران باقاعدہ طور پر ایف آئی اے کو کمپلین دیں۔
ذرائع کے بقول شاہ فیصل برانچ میں ہونے والے مالیاتی فراڈ پر معمولی انکوائری کے بعد ریکوری ظاہر کرکے کارروائی کو دبانے کے بعد ایسا ہی نتیجہ سامنے آیا اور اس کے بعد دو دیگر برانچوں میں اسی نوعیت کے لاکھوں روپے کے فراڈ بینک افسران کی ملی بھگت سے ہوئے۔ ذرائع کے بقول بینک افسران کی ملی بھگت سے ہونے والے مالیاتی فراڈ اور بعد ازاں ریکوری کے اس معاملے میں ایک دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ جس وقت لاکھوں روپے کا مالیاتی فراڈ کیا جاتا ہے اس وقت اس رقم کو کسی بھی کاروبار میں لگا کر منافع کما لیا جاتا ہے اور بعد ازاں ریکوری کے نام پر کئی برسوں یا مہینوں بعد جب اتنی ہی رقم سب مل بانٹ کر واپس کردیتے ہیں تو اس دوران اس پر لگنے والے منافع سے بھی قومی خزانے کو محروم کردیا جاتا ہے۔
ذرائع کے بقول اس کے علاوہ بھی نیشنل بینک کے افسران کی ملی بھگت سے کروڑوں روپے کے مالیاتی فرڈ اور دیگر بدعنوانیوں پر ایف آئی اے کمرشل بینکنگ سرکل کراچی میں متعدد انکوائریاں زیر تفتیش ہیں۔ تاہم ان انکوائریوں کو بند کرنے کے لیے نیشنل بینک کے اعلیٰ حکام کی جانب سے ایف آئی اے کے اعلیٰ حکام کے ذریعے تفتیشی افسران پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایک مخصوص سطح تک تحقیقات کریں اور اس سے آگے نہ بڑھیں۔ کیونکہ اس سے اعلیٰ افسران کے لئے پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کئی انکوائریوں پر تفتیش یا تو سست روی کا شکار ہے یا پھر بالکل التوا میں چلی گئی ہے۔