وجیہ احمد صدیقی:
بھارت برطانیہ کے ساتھ بھی ہاتھ کر گیا۔ آکسفورڈ کی تیار کردہ ویکسین آسترازینیکا کو بھارت پونا میں Covishield کے نام سے تیار کر رہا ہے اور دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے کہ اس نے خود کورونا ویکسین تیار کی ہے۔ بھارت تجارتی پیمانے پر اس ویکسین کی فروخت بھی چاہتا ہے۔
دوسری جانب موثر ترین کورونا ویکسین تیار کرنے کا دعویٰ کرنے والے بھارت میں کورونا وبا کے مریضوں میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔ بدھ اور جمعرات کے درمیان 17 ہزار سے زائد افراد کورونا کا شکار ہوئے اور کورونا کے مریضوں کی تعداد سوا کروڑ سے تجاوز کرگئی ہے۔ جبکہ بھارت کی مرکزی وزارت صحت کا دعویٰ ہے کہ ایک کروڑ افراد کورونا سے صحت یاب ہوئے۔ یعنی کورونا کا شکار افراد 2 کروڑ سے کہیں زیادہ تھے۔
بھارت میں روزانہ 90 کورونا کے مریض موت کے منہ میں جارہے ہیں ۔ جبکہ بھارتی وزارت صحت کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق 1,57,435 بھارتی شہری کورونا کی وجہ سے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ بھارت کا دعویٰ ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف اس کی تیار کردہ ویکسین Covaxin کورونا وائرس کے مقابلے کے لیے81 فیصد موثر ہے اور برطانیہ سے آنے والے نئے کورونا وائرس کے خلاف بھی کام کرتی ہے۔ بھارتی ویکسین کو بھارت بائیوٹیک نے تیار کیا ہے۔
بھارت نے ویکسین ڈپلومیسی کے نام پر اپنے باجگزار پڑوسی ملکوں کو ویکسین تحفے میں دی اور یہ دعویٰ کیا کہ اس نے ایک ارب ڈوز تیار کی ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارت نے کورونا ویکسین کی 2 ڈوز تجویز کی ہیں۔ پہلی ڈوز برطانیہ کی تیار کردہ AstraZeneca ویکسین کی ہے اور دوسری ڈوز بھارت کی تیار کردہ Covaxin کی ہوگی۔ یہ وہ فراڈ ہے، جو بھارت اپنے شہریوں اور اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ کر رہا ہے۔
آکسفورڈ کی آسترازینیکا Oxford-AstraZeneca کوبھارت پونا میں Covishield کے نام سے تیار کر رہا ہے اور دنیا کو دھوکہ دے رہا ہے کہ اس نے خود کورونا ویکسین تیار کی ہے۔ ایک ارب ویکسین کا تجربہ اپنے ملک میں کرنے کے بجائے پڑوسی ملکوں میں کر رہا ہے۔ حالانکہ بھارت دنیا بھر میں کورونا کے مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کا منصوبہ ہے کہ وہ 30 کروڑ لوگوں کو کورونا ویکسین لگائے گا۔ لیکن ابھی تک بھارت اپنا یہ ہدف نہیں حاصل کر سکا۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت کی ویکسین اتنی ہی موثر ہے تو بھارت دنیا بھر کو یہ ویکسین ایکسپورٹ کیوں کر رہا ہے خود اپنے ملک میں کیوں استعمال نہیں کر رہا۔ سابق بھارتی سفیر کے سی سنگھ نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بھارت کی توجہ ویکسین ڈپلومیسی پر ہے۔ جتنی ویکسین کی ملک میں ضرورت ہے اس سے زیادہ حکومت نے ایکسپورٹ کر دی ہے۔
بھارتی ویکسین کی تشہیر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے بھارت نژاد ہندو صحافی کر رہے ہیں۔ بھارت تجارتی پیمانے پر اس ویکسین کی فروخت برازیل اور افریقی ممالک میں کرنا چاہتا ہے۔ اس کے لیے مودی سرکار نے امریکہ میں موجود بھارتی نژاد صحافیوں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔ اگر یہ ویکسین اتنی ہی موثر ہے تو بھارت اسے اپنے یہاں کیوں نہیں استعمال کرتا۔ جمعرات کو ہی مہاراشٹرا، کیرالا، پنجاب، تامل ناڈو، گجرات اور کرناٹکا میں کورونا کے نئے وائرس کے کیسز سامنے آئے ہیں اور مرکزی حکومت کے مطابق یہ 85.51 فیصد کیسز بالکل نئے ہیں۔
مہاراشٹرا میں جمعرات کو 9,855 کیسز آئے۔ یہ 18 اکتوبر 2020ء کی شرح کو پہنچ رہا ہے جب ایک دن میںکورونا کے 10,259 مریض سامنے آئے تھے۔ بھارت میں کورونا سے صحت یاب ہونے کی شرح کم ہو کر 97.03 رہ گئی ہے۔ جبکہ شرح اموات 1.41 فیصد ہے۔ مہاراشٹر کورونا کے فعال کیسز کے معاملے میں سرفہرست ہے۔ کیرالہ میں جمعرات کو2,765 نئے کیسز رپورٹ ہوئے۔ پنجاب میں 772 نئے مریض سامنے آئے۔ برطانیہ، جنوبی افریقہ اور برازیل سے نکلے ہوئے نئے وائرس SARS-CoV-2 کے شکار مریضوں کی کل تعداد242 ہے۔ یعنی بھارت کے ساتھ سفارتی، سماجی اور تجارتی تعلقات میں بھی احتیاط برتنی ہوگی کہ کہیں نیا کورونا وائرس پاکستان نہ منتقل ہوجائے۔