امت رپورٹ:
پاکستان کرکٹ بورڈ کے رویے اور اپنے مالی نقصان کے ازالے کے لیے پی ایس ایل فرنچائز مالکان نے وزیراعظم عمران خان سے ملاقات کا فیصلہ کیا ہے۔ دوسری جانب سابق ٹیسٹ کرکٹرزنے پی ایس ایل کے التوا سے ہونے والی بدنامی کا ذمے دار پی سی بی کو قرار دیا ہے۔ ان میں سے ایک کو اس سارے معاملے کے پیچھے سازش کی بو بھی محسوس ہورہی ہے۔
ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ پی ایس ایل فرنچائز مالکان کے درمیان ہفتہ کے روز ایک اہم میٹنگ ہوئی۔ اس اجلاس میں پی ایس ایل کے میچز ملتوی ہونے سے فرنچائز کو ہونے والے بھاری مالی نقصان اور براڈ کاسٹ ریونیو شیئر سے متعلق پی سی بی کی ہٹ دھرمی کے معاملات زیر بحث آئے۔ بعد ازاں فیصلہ کیا گیا کہ پہلے ایک خط لکھ کر وزیراعظم کو ان سارے ایشوز سے آگاہ کیا جائے گا۔
بعد ازاں رواں ہفتے ان سے ملاقات کا ٹائم لینے کی کوشش کی جائے گی تاکہ وزیراعظم کو پی ایس ایل کی تباہی میں پی سی بی کے کردار سے آگاہ کیا جاسکے۔ اور مالی نقصان کے ازالے کے لیے بات کی جائے۔ فرنچائز مالکان کا ارادہ ہے کہ وزیراعظم سے ملاقات کرکے براڈ کاسٹ ریونیو اور دیگر معاملات کے جائز حصے کی بات بھی کی جائے گی۔ یہ شیئر پی سی بی دینے پر تیار نہیں۔ حالانکہ کرکٹ بورڈ ہر پی ایس ایل ایڈیشن سے اربوں روپے کماتا ہے۔ وزیراعظم سے ملاقات کے لیے کراچی کنگز اور پشاور زلمی کے فرنچائز مالکان اپنا رول ادا کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں وزیراعظم سے خاصے قریب ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فرنچائز مالکان اور پی سی بی کے درمیان اختلافات مزید گہرے ہوگئے ہیں۔ یہ معاملات عدالت بھی پہنچ سکتا ہے۔
دوروز قبل پی سی بی کے نمائندوں اور فرنچائز مالکان کے ورچوئل ہنگامی اجلاس میں جو شدید تلخ کلامی ہوئی تھی، اس کے بعد سے فریقین میں تنائو برقرار ہے۔ اربوں کی سرمایہ کاری کرنے والے ٹیم مالکان نے اس اجلاس میں بائیو سیکیور ببل میں نامناسب انتظامات پر پی سی بی کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ اور کہا تھا کہ پی ایس ایل گانے کی تیاری انہیں بتائے بغیر ترکی میں کی گئی۔ اور اس پر خوب پیسہ خرچ کیا گیا۔ بعد ازاں جس ہوٹل میں ٹیمیں ٹھہری تھیں وہاں شادی کی تقریبات ہوتی رہیں ، لیکن حکام نے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ فرنچائز مالکان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پچھلے برس نومبر میں انہوں نے پی سی بی کو تجویز دی تھی کہ پاکستان میں بائیو سیکیور ببل ٹھیک نہیں بنے گا۔ لہٰذا ایونٹ دبئی میں کرالیا جائے۔ لیکن کسی نے ان کی بات نہیں مانی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم سے مجوزہ ملاقات میں فرنچائز مالکان نے یہ تمام معاملات ان کے سامنے اٹھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا جائے گا کہ ورچوئل اجلاس میں پی سی بی کے سی ای او وسیم خان اور دیگر نے بورڈ کی غلطیوں کا برملا اعتراف کیا تھا مگر بعد میں میڈیا کے سامنے سارا ملبہ فرنچائز پر ڈال دیا گیا۔ وزیراعظم سے یہ مطالبہ بھی کیا جائے گا کہ پی سی بی سے ان کی فیس واپس دلائی جائے ۔ کیونکہ ملتوی میچوں کا دوبارہ انعقاد ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔
ذرائع کے مطابق اگر پی سی بی کے سرپرست اعلیٰ وزیراعظم عمران خان فرنچائز مالکان کے تحفظات دور نہ کرسکے اور ان کے مالی نقصانات کے ازالے کا کوئی حل نہیں بتایا گیا تو پھر ٹیم اونرز عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائیں گے۔ گزشتہ برس ستمبر میں بھی پاکستان سپر لیگ کی تمام چھ فرنچائز نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے مالی معاملات کے خلاف لاہور ہائیکورٹ سے رجوع کیا تھا۔ فرنچائز مالکان نے اپنی درخواست میں پاکستان کرکٹ بورڈ اور چیف ایگزیکٹیو افسر وسیم خان کو فریق بنایا تھا۔ درخواست میں کہا گیا تھا کہ پی سی بی اگلے پورے سیزن کی سیکورٹی رقم کی ادائیگی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ذرائع کے مطابق کووڈ نائنٹین (کورونا) کے باعث پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل ) کے میچز ملتوی کئے جانے سے کرکٹ بورڈ کو بہت معمولی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیگ کے پلے آف مرحلے میں ففٹی پرسنٹ تماشائیوں اور بعد ازاں سو فیصد تماشائیوں کو اسٹیڈیم آنے کی اجازت دی گئی تھی۔ اس حوالے سے بڑی تعداد میں ٹکٹ فروخت کردیئے گئے تھے۔ ذرائع کے بقول پی سی بی ان ٹکٹوں کی رقم واپس کر رہا ہے۔ اسے زیادہ سے زیادہ یہی مالی نقصان ہوگا۔ جبکہ براڈکاسٹرز اوراسپانسرز کے علاوہ سب سے زیادہ مالی نقصان فرنچائز مالکان کو برداشت کرنا پڑے گا۔ کیونکہ فرنچائز مالکان کھلاڑیوں کو ستر فیصد کے قریب معاوضہ دے چکے ہیں۔ پچاس فیصد معاوضہ معاہدہ سائن کرتے وقت دیا گیا تھا۔ بیس فیصد رقم میدان میں اترنے سے قبل ادا کی گئی۔ کھلاڑیوں کا صرف تیس فیصد معاوضہ باقی بچا ہے۔ اور وہ اپنی رقم کا بڑا حصہ وصول کرچکے ہیں۔ یوں پی ایس ایل کے چھٹے ایڈیشن کے ملتوی ہونے سے جہاں فرنچائز مالکان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچا ہے۔ وہیں زیادہ فائدے میں کھلاڑی رہے ہیں۔
ذرائع کے بقول ملتوی شدہ میچوں کو دوبارہ کراکے اس نقصان کے ازالے کی امید زیادہ روشن نہیں۔ کیونکہ مئی میں باقی ماندہ میچز کا انعقاد ممکن دکھائی نہیں دے رہا۔ اس مہینے میں لاہور میں سخت گرمی ہوتی ہے۔ اسی طرح نومبر دسمبر میں بھی میچز کرانا آسان نہیں ہوگا کہ ان مہینوں کے دوران لاہور میں دھند کا راج ہوتا ہے۔ پھر سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ مئی یا نومبر دسمبر میں بین الاقوامی کھلاڑی دستیاب ہوں گے یا نہیں؟
سابق ٹیسٹ کرکٹر عبدالرئوف کو اس سارے معاملے کے پیچھے سازش کی بو آتی ہے۔ کورونا کے نام پر پی ایس ایل میچز ملتوی کیے جانے کے حوالے سے عبدالرئوف نے جو اہم سوالات اٹھائے ہیں ،وہ قابل غور ہیں۔’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر کا کہنا تھا ’’کرکٹ کا ایک اتنا بڑا ایونٹ، جس میں پاکستان کی عزت دائو پر لگی ہوئی تھی، اس کے لیے پی سی بی نے جس غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا۔ وہ انتہائی قابل افسوس ہے۔ پی سی بی کی نااہلی سے بھارت کے عزائم کو کامیابی ملی ہے اور پوری دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی ہے۔ سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد پاکستان پر جس طرح کئی برس تک بین الاقوامی کرکٹ کے دروازے بند رہے، سیکیورٹی اداروں اور قوم نے قربانیاں دے کر دوبارہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی رونقیں بحال کی تھیں۔ لیکن پی سی بی نے ان تمام قربانیوں اور کوششوں کو خاک میں ملادیا۔ ‘‘ عبدالرئوف کے بقول وہ سمجھتے ہیں کہ کورونا کے نام پر پی ایس ایل کی تباہی محض ایک بہانہ ہے۔ دراصل اس کے پیچھے ایک گہری سازش ہے۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سارے معاملے اور سازش کو بے نقاب کرنے کے لیے ایک بھرپور انکوائری کرائی جائے۔ انہیں یقین ہے کہ اس انکوائری کے نتیجے میں پی ایس ایل ملتوی ہونے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ نکلے گا۔
حالیہ ڈومیسٹک سیزن میں بڑے پیمانے پر ملک بھر کے مختلف شہروں میں میچز ہوئے۔ ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزیاں کی گئیں۔ لیکن کورونا کا ایک کیس بھی سامنے نہیں آیا۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پی ایس ایل میں جہاں کسی حد تک پھر بھی ایس او پیز پر عمل کرایا جارہا تھا۔ اچانک کورونا کے پے درپے کیسز سامنے آنے لگے اور پھر اس بنیاد پر پی ایس ایل ملتوی کردیا گیا۔ ایس او پیز کی خلاف ورزی پر اگر پہلے دن ہی ڈیرن سمی اور عبدالوہاب کو باہر کردیا جاتا، تو دیگر کھلاڑیوں اور فرنچائز مالکان کو بھی سخت پیغام جاتا۔ لیکن حیران کن طور پر اس سارے معاملے کو صرف نظر کیا گیا۔ اور پھر یہ خبریں آنی شروع ہوگئیں کہ مزید اتنے کھلاڑی کورونا کا شکار ہوگئے ہیں۔ بالآخر یہ معاملہ پی ایس ایل کے ملتوی ہونے پر منتج ہوا۔ عبدالرئوف کے بقول اسی لئے وہ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے کی بھرپور انکوائری کرائی جائے کہ کہیں اس معاملے میں بھارتی حمایت یافتہ لابی اور جواریوں نے تو اپنا رول ادا نہیں کیا۔ بھاری رقوم کے عوض اس کام کے لئے کھلاڑیوں کو خریدنا مشکل نہیں۔ یہ بھی حیران کن بات ہے کہ مختلف کھلاڑیوں کے کورونا میں مبتلا ہونے کے ایشو کو بڑے پیمانے پر ہائی لائٹ کیا گیا۔ اس معاملے میں پی سی بی کے کئی ذمہ داران پیش پیش تھے۔
عبدالرئوف کے بقول بھارت شروع سے ہی پی ایس ایل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ اس کے لئے وہ آئی سی سی میں موجود اپنی لابی اور انٹرنیشنل جواریوں سے مدد بھی لیتا رہا ہے۔ یہ بھی ذہن میں رکھا جائے کہ دنیا کے سب سے بڑے بکیز بھارتی ہیں۔ گزشتہ ایڈیشن میں پی ایس ایل کے تمام تیس میچز کی جوئے کی انٹرنیشنل ویب سائٹ پر لائیو اسٹریمنگ ہوئی تھی۔ بعد ازاں یہ معاملہ عدالت میں بھی گیا۔ پی سی بی کا موقف تھا کہ اس نے یہ میچز جوئے کی انٹرنیشنل ویب سائٹ کو دکھانے کی اجازت نہیں دی۔ بلکہ جس کمپنی کو پی سی بی نے یہ رائٹس دیئے تھے، اس نے جوئے کی انٹرنیشنل ویب سائٹ کے ذمہ داران سے معاہدہ کیا تھا۔ حالانکہ یہ ممکن نہیں کہ پی سی بی کو علم میں لائے بغیر یا اس کی اجازت کے بغیر مذکورہ کمپنی یہ قدم اٹھالیتی۔
ادھر پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کوچ اور ٹیسٹ کرکٹر محسن حسن خان نے بھی پاکستان سپر لیگ کے ملتوی ہونے کا ذمہ دار کرکٹ بورڈ کو قرار دیا ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے محسن حسن خان کا کہنا تھا ’’انسان کی نیت خراب ہو تو ایسے ہی ہوتا ہے۔ کرکٹ بورڈ نے جو تباہی مچارکھی ہے ۔ عمران خان کے ہوتے ہوئے یہ سب ہونے کی توقع نہیں تھی۔ یہ درست ہے کہ فرنچائز مالکان نے بائیو سیکیور ببل کی خلاف ورزیاں کیں۔ لیکن ایس او پیز پر عمل کرانا پی سی بی کا کام تھا۔ ابتدا میں ہی اگر ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے والے کھلاڑیوں کو گھر بھیج دیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ لیکن پی سی بی نے فرنچائز کو ایسی ٹھوس ہدایات نہیں دیں اور ایس او پیز کی کھلم کھلا خلاف ورزی پر آنکھیں بند کئے رکھیں۔ لہٰذا فرنچائز مالکان پر ملبہ ڈالنے کے بجائے پی سی بی کو ذمہ داری قبول کرنی چاہئے۔ اور تحقیقات کراکے کالی بھیڑوں کو باہر نکالاجائے۔ ‘‘