اقبال اعوان/ حسام فاروقی:
دودھ فروش مافیا نے کراچی کے عوام پر دودھ کی قیمت فی لیٹر 130 روپے کرکے مہنگائی کا ایک اور بم گرا دیا ہے۔ دوسری جانب دودھ کے کاروبار سے منسلک ذرائع کا دعویٰ ہے کہ مصنوعی بحران پیدا کرکے رمضان المبارک میں دودھ کے ریٹ 160 روپے فی لیٹر تک پہنچانے کی تیاریاں جاری ہیں۔ ادھر پریشان حال عوام دودھ کی ہوش ربا گرانی کو ایسی سوچی سمجھی سازش قرار دے رہے ہیں۔ جس میں کمشنر کراچی کا عملہ بھی ملوث ہے۔ جس کی سرپرستی دودھ مافیا کو حاصل ہونے کے بعد عوام سے لوٹ مار کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈیری صنعت سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کراچی میں دودھ کی یومیہ کھپت لگ بھگ 48 لاکھ لیٹر ہے، جو رمضان المبارک میں بڑھ کر 60 لاکھ لیٹر تک جا پہنچتی ہے۔ جبکہ فی لیٹر دودھ پر 10 روپے کا اضافہ کرکے رمضان سے قبل ہی عوام کی جیب سے چار کروڑ روپے اضافی بٹورے جا رہے ہیں۔ واضح رہے کہ قیمت میں اضافے سے دودھ سے بنی تما اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔
اس ضمن میں ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے باڑا مالکان اور دودھ فروشوں محمد رفیق، عنایت اور دیگر کا کہنا تھا کہ ہر چیز کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ساتھ دودھ کی قیمت میں اضافہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ گاڑیوں کا فیول، جانوروں کا چارہ اور برف سمیت ہر چیز مہنگی ہو گئی ہے۔ اس لیے اب دودھ کی قیمت میں بھی اضافہ ضروری ہے۔ کیونکہ وہ لوگ نقصان کرکے دودھ فروخت نہیں کر سکتے۔
ملک شاپس مالکان کا کہنا تھا کہ انہیں ایک من دودھ 360 روپے اضافے کے ساتھ مل رہا ہے۔ یعنی ایک لیٹر دودھ 119روپے کا پڑ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دودھ 11 روپے منافع کے ساتھ 130 روپے فی لیٹر فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے دودھ پیک کرنے والی تھیلی کا پیکٹ انہیں 240 روپے کا ملتا تھا۔ اب وہ 380 سے 390 روپے تک کا مل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی دودھ کو محفوظ رکھنے کیلیے فریزر کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور بجلی مہنگی ہونے کی وجہ سے بھی خرچہ بڑھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جو دکاندار دودھ 130روپے فی لیٹر کے حساب سے فروخت کر رہے ہیں۔ ان کا دودھ بڑی حد تک خالص کہا جا سکتا ہے۔ مگر جو لوگ دودھ اس سے کم قیمت پر فروخت کر رہے ہیں، ان کا دودھ کسی بھی صورت خالص نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر وہ دودھ کم قیمت پر بیچ رہے ہیں تو یا اس میں پانی کی آمیزش زیادہ کر دی گئی ہے۔ یعنی ایک من میں 5 سے 6 لیٹر پانی ملایا جا رہا ہے، یا پھر اس دودھ میں مضر صحت کیمیکل استعمال کیے جا رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ دکاندار کبھی بھی نہیں چاہتا کہ دودھ پر ریٹ بڑھیں۔ کیونکہ اس سے دکاندار کے پاس بندھا ہوا گاہک ٹوٹنے لگتا ہے اور وہ اس جانب بھاگتا ہے جہاں سے دودھ سستا ملتا ہے۔ اس وجہ سے دکاندار کبھی بھی نہیں چاہے گا کہ دودھ کی قیمتوں میں اضافہ ہو۔ مگر جب دودھ پیچھے سے ہی مہنگا آئے گا تو مجبوری میں ہم لوگوں کو بھی دودھ مہنگا فروخت کرنا پڑے گا۔ انہیں بھی اپنے بیوی بچے پالنا ہوتے ہیں اور دکان کا خرچہ بھی نکالنا ہوتا ہے۔
باڑا مالکان کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ دودھ مہنگا ہونے کی بڑی وجہ جانوروں کو کھلایا جانے والا چارہ بھی ہے، جس کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا ہے۔ یہ سب موجودہ حکومت کی نا اہلی کے سبب ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ 2019ء میں چوکر کی بوری ہمیں 900 روپے کی ملتی تھی، اب وہ ہمیں 1300سے 1400 روپے میں مل رہی ہے۔ اسی طرح بھوسا پہلے 400 روپے من ملتا تھا، اب اس کی قیمت 680 روپے ہوگئی ہے۔ مکس چارہ پہلے ہمیں 1350روپے میں ملتا تھا اب وہ ہمیں 1750روپے میں مل رہا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ بھینسوں کے ڈاکٹروں نے بھی اپنی فیسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ پہلے ایک بھینس کو ڈاکٹر سے چیک کروانے کی فیس ایک ہزار روپے تھی، جس میں دوائیں بھی دی جاتی تھیں۔ مگر اب ڈاکٹر بھینس کو چیک کرنے کی فیس دو ہزار روپے لیتے ہیں۔ اس کے علاوہ گوالوں کی تنخواہیں پہلے 12 سے 14 ہزار روپے کے درمیان ہوتی تھیں۔ مگر اب انہیں 22 ہزار روپے تک تنخواہ دینی پڑ رہی ہے۔ پہلے جو اچھی نسل کی صحت مند بھینس جو یومیہ 5 لیٹر دودھ دیتی تھی، اس کی قیمت ایک لاکھ 60 ہزار روہے تک تھی۔ اب وہی بھینس ڈھائی لاکھ روپے سے اوپر کی قیمت میں ملتی ہے۔ جب اتنی مہنگائی ہمیں برداشت کرنا پڑتی ہے تو لازمی سی بات ہے کہ دودھ کی قیمتوں میں بھی اضافہ کرنا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لوگ ہر چیز پر قیمتیں بڑھنے پر خاموش رہتے ہیں، لیکن جیسے ہی دودھ کی قیمتوں میں اضافے کا سنتے ہیں تو باڑا مالکان کو برا بھلا کہنے لگ جاتے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ ہم بھی پیچھے سے چیزیں مہنگی ہونے کی وجہ سے دودھ کی قیمت میں اضافہ کرتے ہیں۔ اگر ہمیں چارہ اور دیگر اشیا مناسب دام میں ملنے لگیں، تو ہم بھی دودھ کو کم قیمت پر فروخت کرنے پر تیار ہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ بہت سے باڑا مالکان نے اب اس کام کو ختم کر دیا ہے اور سرجانی ٹائون میں واقع کئی باڑے ختم ہو گئے ہیں۔ باڑا مالکان اب دیگر کاروبار میں اپنی قسمت آزما رہے ہیں۔ جبکہ جو باڑا مالکان اب بھی دودھ کے کام سے منسلک ہیں، ان کی یہ مجبوری ہے کہ دودھ کا کام ان کا جدی پشتی کاروبار ہے اور وہ اس کے علاوہ کوئی اور کام کرنا جانتے نہیں۔
دوسری جانب ماہ رمضان کے دوران کھپت بڑھنے پر دودھ کا مصنوعی بحران کرکے اس کی قیمت فی لیٹر 160 روپے تک لے جانے کی تیاری بھی جاری ہے۔ ڈیری فارمز ایسوسی ایشن کے شاکر گجر کا کہنا ہے حکومت کی جانب سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کرنے پر اب دودھ 140 روپے لیٹر تک فروخت ہو رہا ہے۔ بعض دکاندار 130 روپے فی لیٹر فروخت کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ کراچی میں دودھ مافیا آج کل بے لگاہ ہو چکی ہے۔ کمشنر کراچی کی جانب سے 94 روپے فی لیٹر دودھ فروخت کرنے کا کہا گیا۔ اور اب قیمتیں بڑھ چکی ہیں اور ماہ رمضان سر پر آ چکا ہے۔ دودھ مافیا مزید قیمتیں بڑھانے کی تیاری کر رہی ہے۔ کراچی میں دیری فارمز ذرائع کے مطابق 40 لاکھ لیٹر دودھ روزانہ کراچی کو ملتا ہے۔ عام دنوں میں کھپت 50 لاکھ لیٹرز ہوتی ہے اور رمضان میں کھپت 60 لاکھ لیٹرز تک جاتی ہے۔ شہر میں مضر صحت ملاوٹ والے دودھ یا پانی ملے دودھ کو سندھ فورڈز اتھارٹی کا کوئی آفیسر چیک نہیں کرتا ہے۔
اندرون سندھ کا دودھ لی مارکیٹ کی دودھ منڈی اور کراچی کی 29 بھینس کالونیوں سے دودھ شہر کی 12 ہزار سے زائد دکانوں پر سپلائی کیا جاتا ہے۔ زیادہ دودھ بھینس کالونی کے باڑوں سے آتا ہے۔ کئی ماہ سے کمشنر کراچی اور ڈیری فارمز ایسوسی ایشن کے رہنمائوں کی بات چیت چلتی رہی جو بے سود ثابت ہوئی۔ جبکہ کراچی کی کیٹل کالونیوں میں موجود 7 لاکھ مویشیوں سے دودھ حاصل کیا جاتا ہے۔
ڈیری فارم والوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ڈھائی سال کے دوران موجودہ حکومت میں مہنگائی بڑھی ہے۔ ٹرانسپورٹ کے اخراجات بار بار تیل کی قیمت بڑھنے پر زیادہ آ رہے ہیں۔ کم وقت میں بھینس کی قیمت ڈیڑھ دو لاکھ سے تین لاکھ ہو گئی ہے۔ بھوسہ، چارا، کھل، چوکر مہنگا ہے۔ وہاں مختلف دالیں جو بیرون ملک سے آتی ہیں۔ مہنگی ہو چکی ہیں۔ ایک نارمل بھینس 270 روز تک روزانہ 8 لیٹرز دودھ دیتی ہے۔ اب گوالوں کی دیہاڑیاں بڑھ گئی ہیں۔ اس لئے دودھ مہنگا کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان 45 فیصد دودھ پائوڈر کمپنی والوں کو دیتا ہے۔ جبکہ کراچی میں دودھ مختلف بھینس کالونی سے آتا ہے۔ اندرون سندھ سے بھی آتا ہے۔ اس دودھ میں ملاوٹ بھی ہوتی ہے۔ بعض مافیا کے لوگ بھینس کالونی سے شہر میں سپلائی کے دوران پانی ملاتے ہیں۔ جبکہ دودھ کی دکانوں پر پانی نہ ملائیں تو دودھ ٹھنڈا کرنے کے نا م پر برف کی سلیں دودھ کے ٹب میں ڈالتے ہیں۔ جو اندر پانی بن جاتی ہے۔ اس طرح سندھ کے شہروں سے آنے والا دودھ کیمیکل ملا یا گائے، بھینس، اونٹ، بھیڑ ، بکری کے دودھ کو مکس کر کے ڈبوں میں لاتے ہیں۔ وہ بھی پہلے کم قیمت فروخت کرتے تھے۔ اب پورے ریٹ لے رہے ہیں۔ بعض دودھ مافیا والے دودھ میں سے کریم نکال کر دودھ اسٹالوں یا سوزوکی پرفروخت کرتے ہیں۔
کراچی میں دودھ پر نگرانی کا عمل گزشتہ کئی سالوں سے نہیں۔ گزشتہ سال ضلعی انتظامیہ نے نمائشی چھاپے مارے تھے۔ جرمانے کیے۔ چند دودھ والوں کو جیل بھیجا۔ اور پھر خاموشی اختیار کر لی۔ اب دودھ والے دھڑلے سے من مانے ریٹ وصول کر رہے ہیں۔ شہر میں رمضان اور محرم کے مہینے میں دودھ کی کھپت بڑھ جاتی ہے۔ اب 10 لاکھ لیٹر دودھ شہر میں کم آتا ہے۔ اس کا فائدہ اٹھایا جاتا ہے کہ شہر کی دکانوں پر اگر شہری فی لیٹر قیمت پر جھگڑا کریں تو وہ دکاندار کم دودھ منگوا کر فروخت کر کے شٹر بند کر کے چلا جاتا ہے اور شہری دودھ کے لئے ادھر ادھر گھومتے ہیں۔ دودھ خالص ملنا الگ بات ہے کہ پنجاب فوڈز اتھارٹی کی طرح سندھ فوڈز اتھارٹی اتنی متحرک نہیں کہ دودھ کا معیار چیک کرکے کیمیکل یا اضافی پانی ملانے کی صورت میں دودھ ضائع کرا دیں۔ دودھ ایسی خوراک ہے کہ شہر بھر کے لوگ ایک دو روز دودھ کا بائیکاٹ کر دیں تو خراب دودھ ضائع کرنا پڑے گا۔
دودھ کی گراں فروشی کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کراچی ڈیری فارمز ایسوسی ایشن کے صدر شاکر گجر نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اس وقت دودھ 130 اور بعض دکانوں پر 140 روپے فی لیٹر تک فروخت ہو رہا ہے۔ تاہم اس مہنگائی کا سدِ باب کرنے میں کوئی سنجیدہ نہیں۔ جبکہ رمضان کے دوران دودھ کے ریٹ 160 سے 175 روپے فی لیٹر تک جا سکتے ہیں۔ اس وقت منڈی میں دودھ کی فی من قیمت 3700 اور 3800 روپے ہے جو رمضان المبارک میں 5 ہزار روپے من تک جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ گائے، کراچی میں بھینس کے مقابلے میں صرف 25 فیصد ہیں اور اس کے دودھ کا نرخ 88.53 فی لیٹر چل رہا ہے۔ کراچی کے مختلف فارمز زیادہ تر فریش دودھ کے ڈبے بنانے والی کمپنیوں کو سپلائی دیتے ہیں۔ شاکر گجر کے بقول گزشتہ عرصہ میں بھوسہ، چارہ، ٹرانسپورٹیشن اور ویٹرنری اخراجات سمیت ہر چیز کے دام بڑھے ہیں۔ بھوسہ 300 سے 600 روپے من ہو گیا۔ چارہ 600 سے 1200 روپے ہو گیا۔ ہم نے متعدد بار انتظامیہ کو خطوط لکھے کہ لی مارکیٹ کی منڈی میں جو اندرونِ سندھ سے مکس دودھ آتا ہے، اس کی جانچ کی جائے اور اس کیخلاف کارروائی کی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ بوسٹن انجکشن پر پابندی سے بھی بھینس کے دودھ میں کمی آئی ہے۔ انتظامیہ رمضان سے قبل دودھ کے معاملے کو حل کرائے، ورنہ بڑا بحران پیدا ہو گا۔ بھینس کالونی کے باڑے والے ہاشم کا کہنا تھا کہ تیزی سے مہنگائی ہو رہی ہے۔ تیل کی قیمتیں بڑھنے سے ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بڑھ گیا ہے۔ بھینسوں کی بیماریوں کے علاج پر خرچہ بڑھ چکا ہے۔ چارہ، بھوسہ، کَھل، چوکر ہر چیز مہنگی مل رہی ہے۔ دودھ 140 روپے فی لیٹر تک کرنے کے باوجود قیمتوں میں ٹھہرائو نہیں آیا ہے۔ دودھ کی قیمتیں مزید بڑھیں گی۔
کورنگی کے دودھ فروش رانا اشتیاق کا کہنا تھا کہ اب روزانہ دودھ کی گاڑی آتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ریٹ مزید بڑھانے کے صلاح مشورے ہو رہے ہیں۔ کمشنر کراچی اور ڈیری فارمز ایسوسی ایشن والے مل بیٹھ کر رمضان سے قبل قیمت طے کر لیں اور پورے شہر دودھ کی قیمتوں پر نگرانی رکھی جائے، تب بات بن سکتی ہے۔ ورنہ مصنوعی بحران پیدا ہونے سے صورتحال مزید خراب ہوجائے گی۔
شاہ فیصل کالونی کے دکاندار رفیق کا کہنا ہے کہ ہر وقت یہ خطرہ رہتا ہے کہ دودھ 130 روپے فروخت کر رہے ہیں، جبکہ سرکاری ریٹ فی لیٹر 94 روپے تک ہے۔ دکانداروں کا کہنا تھا کہ کمشنر کراچی، ڈیری فارمز والوں کے دبائو میں نہ آئیں اور رمضان سے قبل دودھ کے ریٹ فکس کرکے ہمیں بتا دیں۔