آصف زرداری نے مختلف نظریات کے باوجود پی ڈی ایم اتحاد کو ناگزیر قرار دیا۔فائل فوٹو
آصف زرداری نے مختلف نظریات کے باوجود پی ڈی ایم اتحاد کو ناگزیر قرار دیا۔فائل فوٹو

پی ڈی ایم نے پارلیمان کے ذریعے تبدیلی لانے کی امید ترک کردی

امت رپورٹ:
چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کے بعد اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے پارلیمان کے اندر سے تبدیلی لانے کی امید ترک کردی ہے۔ پی ڈی ایم کے اندرونی ذرائع کے بقول اس شکست نے پارلیمانی جدوجہد کے لئے حکومت گرانے سے متعلق آصف زرداری کا بیانیہ دفن کردیا۔ نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نے فیصلہ کیا ہے کہ اب فیصلہ کن جدوجہد سڑکوں پر کی جائے گی۔ اس تناظر میں لانگ مارچ جارحانہ ہونے جارہا ہے جبکہ اجتماعی استعفوں کے لیے مولانا فضل الرحمن کا اصرار بڑھ گیا ہے۔ اس حوالے سے انہیں نواز شریف کی تائید حاصل ہے۔

چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کے بعد پی ڈی ایم کے تینوں بڑوں کی مابین ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو میں بھی مولانا اور نواز شریف نے زرداری کو باورکرایا ہے کہ اب پارلیمان کی طرف دیکھنے کے بجائے لانگ مارچ اور دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے کی ٹھوس اسٹریٹجی تیارکی جائے۔

اسلام آباد میں موجود دیگر باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے سیناریو میں آصف زرداری کے لئے پی ڈی ایم کو اپنی لائن پر چلانا اب مشکل ہوگیا ہے۔ جبکہ ان کی بیرون ملک جانے میں حائل رکاوٹ تاحال دور نہیں ہوسکی ہے۔
اس سارے معاملے پر لندن، لاہور اور اسلام آباد میں موجود ذرائع سے بات چیت کے بعد جو مجموعی صورتحال سامنے آئی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ چیئرمین سینیٹ اورڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن امیدواروں کو ہونے والی شکست نے آصف زرداری کے اس بیانیہ کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کے ذریعے وہ پی ڈی ایم کو سڑکوں پر فیصلہ لینے کے بجائے پارلیمانی جدوجہد کے راستے پر چلا رہے تھے۔

پی ڈی ایم کے ایک سے زائد ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کی جنرل سیٹ پر یوسف رضا گیلانی کی فتح نے پی ڈی ایم پر آصف زرداری کے بیانیہ کی دھاک بٹھادی تھی۔ نون لیگ اور جے یو آئی کو نہ چاہتے ہوئے بھی ضمنی الیکشن اور سینیٹ الیکشن میں حصہ لینے سے متعلق آصف زرداری کی حکمت عملی پر چلنا پڑا تھا۔ لندن اورلاہور میں موجود نون لیگی ذرائع کے مطابق بالخصوص ضمنی الیکشن اور پھر اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں حکومت کی شکست کے بعد نون لیگ اور جے یو آئی کے پاس آصف زرداری کی اسٹریٹجی سے اختلاف کا جواز نہیں تھا تاہم چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں جس طرح امیدواروں کو شکست سے دوچار کیا گیا۔ اس نے سیناریو بدل دیا ہے۔ ساتھ ہی نون لیگ اور جے یو آئی کے ہاتھ یہ موقع آگیا ہے کہ اب وہ زرداری کو اس پر قائل کریں کہ حکومت کے خلاف محض پارلیمانی جدوجہد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ کیونکہ دوسری جانب سے کسی بھی پارلیمانی محاذ پر حکومت کی شکست کو فتح میں تبدیل کرنے کی حکمت عملی طے کی جاچکی ہے۔ لہٰذا پارلیمنٹ کے ذریعے تبدیلی لانے کی لاحاصل کوششیں ترک کرکے عوام کی طاقت سے حکومت کو گھر بھیجنے کا لائحہ عمل طے کیا جائے۔

ذرائع نے بتایا کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں شکست کے بعد نواز شریف، آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے درمیان ہونے والے ٹیلی فونک رابطے میں پی ڈی ایم کے ان بڑوں کے درمیان جو گفتگو ہوئی، اس کا لب لباب یہی تھا۔ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایک بار پھر آصف زرداری کو قائل کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پارلیمانی سیاست اور جدوجہد کو فی الحال ترک کرکے سڑکوں پر احتجاج کو نتیجہ خیز بنانے کی حکمت عملی پر عمل کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ لانگ مارچ پر نکلنے سے پہلے اجتماعی استعفے دے دیے جائیں یا پھر اسلام آباد پہنچ کر اجتماعی استعفوں کا اعلان کردیا جائے۔

ذرائع کے مطابق نواز شریف نے بھی مولانا کی اس تجویز کی تائید کی۔ تاہم آصف علی زرداری کو فوری طور پر قائل نہیں کیا جاسکا۔ اور پندرہ مارچ کے پی ڈی ایم اجلاس میں اس حوالے سے کسی فیصلے پر پہنچنے کیلئے مشاورت پر اتفاق کیا گیا۔ ٹیلی فونک رابطے میں تینوں رہنمائوں کے مابین چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں اپوزیشن امیدواروں کی شکست کی وجوہات کا پتا چلانے اور اسے عوام کے سامنے لانے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ جن لیگی سینیٹرز نے نامعلوم نمبروں سے کالیں آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ ان سے حاصل شدہ تمام تفصیلات پی ڈی ایم کے اجلاس میں رکھی جائیں گی اور اس حوالے سے کوئی متفقہ لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔
پی ڈی ایم ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر یوسف رضا گیلانی چیئرمین سینیٹ کا انتخاب جیت جاتے تو پھر اپوزیشن پارٹیوں کا قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی طرف جانا یقینی تھا۔ یہ لائن آصف زرداری کی تھی۔ ابتدا میں پیپلز پارٹی کو یقین تھا کہ گیلانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے کے نتیجے میں نون لیگ اور جے یو آئی کے پاس اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق بلاول اور زرداری کی تجویز مسترد کرنے کا آپشن نہیں ہوگا۔ اور پھر آگے چل کر نواز شریف کو پنجاب میں اِن ہائوس تبدیلی پر بھی راضی کرلیا جائے۔ فی الوقت نون لیگی قائد اس پر کسی صورت تیار نہیں ہیں۔ لیکن گیلانی ہارگئے اور ساتھ ہی آصف زرداری کی حکمت عملی بھی ڈھیر ہوگئی۔ اب نون لیگ اور جمعیت علمائے اسلام نے آصف زرداری کی لائن پر نہ چلنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیبر پختون خوا سے تعلق رکھنے والے ایک جے یو آئی رہنما کے بقول اس حوالے سے پی ڈی ایم میں شامل چھوٹی پارٹیاں بھی نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی ہمنوا ہیں۔ صرف ایک اے این پی کا جھکائو پیپلز پارٹی کے موقف کی طرف ہے۔ تاہم اپوزیشن اتحاد کی آٹھ پارٹیاں جب ایک طرف ہوں گی تو باقی دو پارٹیوں کو بھی ساتھ چلنا پڑے گا۔ رہنما کے بقول اگر پھر بھی پیپلز پارٹی نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو نون لیگ اور جے یو آئی چھوٹی اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر لانگ مارچ اور دھرنے کو نتیجہ خیز بنانے کی کوشش کریں گی۔

جے یو آئی رہنما کے مطابق مولانا فضل الرحمان سمجھتے ہیں کہ اجتماعی استعفے دینے کی صورت میں لانگ مارچ کو زیادہ موثر اور نتیجہ خیز بنایا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس صورت میں اپوزیشن پارٹیاں زیادہ عزم و حوصلے کے ساتھ لانگ مارچ کے لئے نکلیںگی اور ان سب کے ذہن میں ہوگا کہ اجتماعی استعفوں کے بعد پارلیمانی جدوجہد کا دروازہ بند ہوچکا ہے لہٰذا حکومت کو گھر بھیجنے کا واحد راستہ عوام کو ساتھ ملا کر سڑکوں پر فیصلہ کن ’’جنگ‘‘ لڑنا رہ گیا ہے۔ اجتماعی استعفے ایک طرح سے تمام کشتیاں جلانے کے مترادف ہوں گے۔ اس کے بعد آصف زرداری کی مفاہمت کی سیاست کا دروازہ بند ہوگا اور اپوزیشن اتحاد تحاریک عدم اعتماد کی لایعنی تجاویز اور چکروں سے بھی باہر نکل جائے گا۔

جے یو آئی رہنما کے مطابق اس حوالے سے پندرہ مارچ کو پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس نہایت اہمیت کا حامل ہوگا۔ تمام حل طلب ایشوز کو اس موقع پر فائنل شکل دے دی جائے گی۔ بالخصوص دھرنے کی مدت اور اجتماعی استعفوں کا معاملہ، اجلاس کے ایجنڈے میں سرفہرست ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے بعد لانگ مارچ کی حکمت عملی جارحانہ ہوگی۔ اس جارحانہ حکمت عملی کا طریقہ کار اجلاس میں باہمی مشاورت سے طے کیا جائے گا۔
اسلام آباد میں موجود باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر جدوجہد کرکے حکومت کو گھر بھیجنے سے متعلق آصف زرداری اپنی جس لائن پر پی ڈی ایم قیادت کو چلارہے تھے۔ یہ لائن انہوں نے ان دوستوں سے مستعارلی تھی، جن کے ساتھ ان کے پس پردہ رابطے چل رہے ہیں۔ ان رابطوں کا اب تک یہ فائدہ ہوا ہے کہ آصف علی زرداری کے خلاف جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کیس سست پڑگیا ہے۔ ایک طرح سے انہیں مستقل ضمانت بھی مل چکی ہے۔ وہ احتساب عدالت میں حاضری سے استثنیٰ بھی حاصل کرچکے ہیں تاہم ان کی سب سے بڑی خواہش اب تک پوری نہیں ہوسکی ہے۔ جس میں وزیر اعظم عمران خان رکاوٹ ہیں۔ یہ خواہش بیرون ملک جانے سے متعلق ہے۔ آصف زرداری بھی چاہتے ہیں کہ نواز شریف کی طرح علاج کے لیے باہر چلے جائیں جبکہ بلاول پاکستان میں رہ کر حکومت مخالف تحریک کی قیادت کرتے رہیں۔ جس کے لیے وہ انہیں باہر رہ کر بھی وقتاً فوقتاً گائیڈ لائن دیتے رہا کریں گے۔

ذرائع کے مطابق یہ ڈیل بھی کسی حد تک طے پاگئی تھی، لیکن وزیر اعظم عمران خان نے انکار کردیا۔ وہ کسی طور پر نہیں چاہتے کہ آصف زرداری بھی علاج کے نام پر بیرون ملک چلے جائیں۔ ان کے خیال میں نواز شریف کے لندن جانے کے سبب پہلے ہی ان کے بیانیہ کو نقصان پہنچا ہے۔ زرداری بھی چلے گئے تو پی ٹی آئی کو مزید سیاسی نقصان پہنچے گا، جس کے منفی اثرات آئندہ عام انتخابات پر مرتب ہوں گے۔ ذرائع کے بقول وزیر اعظم عمران خان اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کو بیرون ملک بھیج کر ان کے ساتھ ہاتھ کیا گیا۔ لہٰذا وہ زرداری کو بھی اجازت دے کر یہ کہانی دوہرانا نہیں چاہتے۔

ذرائع کے مطابق دوسری جانب یوسف رضا گیلانی کو اسلام آباد کے سینیٹ الیکشن میں کامیابی دلانے کے لئے تو آصف زرداری نے بھرپور رول ادا کیا تھا۔ لیکن گیلانی کو چیئرمین سینیٹ کے عہدے کے لئے میدان میں اتارے جانے کے حوالے سے پی پی شریک چیئرمین سے یہ آزادی واپس لے لی گئی تھی۔ اس انتخاب سے چند روز پہلے ملنے والے خاموش پیغام کے بعد آصف زرداری نے اپنا رول محدود کرلیا تھا۔ اور وہ الگ تھلگ ہوگئے تھے۔ اس کے نتیجے میں دوسرے فریق کے پاس میدان کھلا تھا۔ جس کا پورا فائدہ اٹھایا گیا۔
ادھر ذرائع کا کہنا ہے کہ خفیہ کیمروں کی مخبری خود پارلیمنٹ عملے کے ان بعض ارکان نے کی تھی، جو پچھلے کئی برس سے وہاں ملازم ہیں اور پیپلزپارٹی کے ہمدرد ہیں۔ بصورت دیگر انتہائی مہارت کے ساتھ لگائے جانے والے چھوٹے سائز کے خفیہ کیمروں کا سراغ لگانا ممکن نہیں تھا۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو جب یہ علم ہوا کہ رات کے پچھلے پہر پارلیمنٹ میں خفیہ آپریشن ہوتا رہا ہے تو اس کی جانب سے پی ڈی ایم کی باقی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔ بعد ازاں مشترکہ حکمت عملی کے تحت پولنگ بوتھ میں لگے یہ کیمرے بے نقاب کرنے کا ٹاسک الیکشن والے روز پیپلز پارٹی کے مصطفیٰ نوازکھوکھراور نون لیگ کے مصدق ملک کو دیا گیا۔ چونکہ دونوں کو خفیہ کیمروں کا مقام سوفیصد معلوم تھا، لہٰذا انہوں نے ووٹنگ سے قبل ہی پولنگ بوتھ میں جاکر یہ کیمرے دریافت کرلیے۔