حضرت اسحاق بن عباد بصریؒ اپنے وقت کے نیک اور عابد وزاہد بزرگ تھے، ایک مرتبہ آپؒ نے آدھی رات کو خواب میں دیکھا کہ ایک شخص ان سے کہہ رہا ہے : ’’اَغِثِ المَلہوفَ‘‘ یعنی مجبور کی مدد کرو۔ وہ نیند سے بیدار ہوئے اور اپنے پڑوسیوں سے دریافت کیا کہ کوئی محتاج تو نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا:
ہمیں پتہ نہیں ہے، پھر وہ آکر بستر پر لیٹ گئے، پھر انہیں وہی خواب آیا، پھر انہوں نے لوگوں سے دریافت کیا، انہوں نے وہی جواب دیا، پھر بستر پر دراز ہوگئے تو خواب میں دیکھتے ہیں کہ وہی شخص انہیں ڈانٹتے ہوئے کہہ رہا ہے: تم اس مجبور کی مدد کئے بغیر ہی سو رہے ہو؟
اب وہ بیدار ہوئے اور اپنے ساتھ تین سو درہم لئے۔ خچر پر سوار ہوئے اور بصرہ کی گلیوں کا گشت کرتے ہوئے ایک ایسی مسجد کے دروازے پر پہنچے، جس میں مُردوں پر نمازِ جنازہ پڑھی جاتی تھی، انہوں نے دیکھا کہ مسجد میں ایک شخص نماز اور دعا میں مشغول ہے، جب دعا کرنے والے نے کسی کی آمد کو محسوس کیا تو دعا ختم کرکے اس کی طرف متوجہ ہوا۔
اسحاق بن عبادؒ نے اس سے پوچھا: اے خدا کے بندے! اس وقت اور اس مقام پر تجھے کوئی ضرورت تو نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا کل سرمایہ ایک سو درہم تھا، وہ میرے ہاتھ سے نکل گیا، پھر مجھ پر دو سو درہم کا قرض بھی چڑھ گیا، جس کے لیے رب تعالیٰ سے فریاد کر رہا تھا۔
انہوں نے اس کی یہ بات سن کر اپنی جیب سے تین سو درہم کی تھیلی نکالی اور اسے پیش کرتے ہوئے کہا: کیا آپ کو پتہ ہے کہ میں کون ہوں؟ اس نے کہا: نہیں۔ انہوں نے کہا: مجھے اسحاق بن عباد کہتے ہیں اور میں بصرہ میں فلاں جگہ رہتا ہوں، اگر آپ کو کبھی کوئی ضرورت پیش آجائے تو میرے گھر پر چلے آنا۔ اس شخص نے جواب دیا : خدا آپ پر رحم کرے! جب ہمیں کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو اس رب العالمین کی بارگاہ میں فریاد کرتے ہیں، جس نے رات کے اس حصے میں جس میں کہ لوگ خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے ہیں، آپ کو اپنے بستر سے اٹھا کر اور گھر سے نکال کر ہم تک پہنچایا۔ (نور الاقتباس فی مشکاۃ وصیۃ النبی لابن عباس لابن رجب الحنبلی: 87)
مرضِ گناہ سے شفایابی کی بہترین دوا:
حضرت عطاء سلمیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے کوفہ کی ایک گلی میں دیکھا کہ علیانؒ ایک طبیب کے پاس کھڑے ہیں اور بلند آواز سے ہنس رہے ہیں، حالانکہ ان کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ وہ ہنستے نہیں ہیں۔
میں نے انہیں کہا کہ اے علیان! آپ کس وجہ سے ہنس رہے ہیں؟ فرمایا کہ مجھے اس طبیب کی وجہ سے ہنسی آئی، جو دوسروں کو دوا دے رہا ہے، حالانکہ وہ خود سخت بیمار ہے۔
میں نے کہا: اے علیان! آپ کوئی دوا جانتے ہیں، جس سے اس مریض طبیب کو شفاء حاصل ہو جائے اور بیماری سے نجات مل جائے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں، میں ایک خاص شربت جانتا ہوں، جو آدمی اس شربت کو ایک دفعہ پی لے گا، رب تعالیٰ اسے شفا نصیب فرمائیں گے۔
میں نے کہا: اے علیان! آپ اس دوائی یعنی شربت کے نسخے کی تفصیل بتا دیں (تاکہ وہ تیار کیا جا سکے) تو انہوں نے فرمایا کہ اس دوائی کے اجزائے ترکیبی یہ ہیں کہ درختِ فقر و احتیاط کے چند پتے، درختِ صبر کی جڑ، تواضع کی ہریڑ، معرفت الٰہی کے درخت کا پھل، فکرِ آخرت کے درخت کا گوند۔
یہ سب اجزاء گناہوں پر ندامت کے ہاون دستہ میں اچھی طرح کوٹ کر باریک پیس لیں، پھر یہ چیزیں تقویٰ کی کڑاہی میں ڈال دیں اور انہیں حیاء کے پانی سے اچھی طرح بھگو دیں، پھر اس کڑاہی کے نیچے محبت ربانیہ کی لکڑیوں کی آگ جلائیں اور اتنا جوش دیں کہ جھاگ اوپر آ جائے۔
پھر یہ مرکب معجون رضائے الٰہی کے برتن میں ڈال دیں اور اس پر رب تعالیٰ کی حمد و ثنا کا پنکھا اسے ٹھنڈا کرنے کے لیے خوب چلائیں، پھر فکر آخرت کے پیالے میں اسے تھوڑا تھوڑا ڈالتے جائیں اور وقتاً فوقتاً استغفار کے چمچ سے اسے چکھتے اور کھاتے رہیں، اس دوا کا فائدہ یہ ہو گا کہ آپ کبھی بھی گناہوں کے قریب نہیں جائیں گے۔ (مواعظ و عبر)