عارف انجم:
قسط نمبر 23
کئی روایات سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس 9 تلواریں تھیں۔ ان میں سے 8 ترکی کے توپ کاپی میوزیم میں محفوظ ہیں۔ توپ کاپی میوزیم میں مجموعی طور پر 21 تاریخی تلواریں ہیں۔ جن میں سے کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی ہیں یا ان سے منسوب ہیں۔ تقریباً تمام تلواروں کے صرف لوہے کے حصے یعنی بلیڈ محفوظ ہیں۔ ان تلواروں کے اصل دستے اور میانیں چمڑے اور لکڑی سے بنی تھیں۔ جو وقت کے ساتھ شکست و ریخت کا شکار ہوکر ختم ہو گئیں۔ لہٰذا گزری صدیوں میں انہیں وقتاً فوقتاً دوبارہ بنایا گیا۔ سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترک سلاطین نے ہر نئے دستے اور میان کو پہلے سے زیادہ خوبصورت بنوایا۔ کئی ایک پر قیمتی ہیرے جوہرات جڑے گئے ہیں۔
یہاں موجود سب سے تاریخی تلوار وہ ہے۔ جسے ’’سیف الانبیا‘‘ یعنی انبیا کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔ یہ تلوار سب سے پہلے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس تھی اور ان کے بعد مختلف انبیاؑ سے ہوتی ہوئی سیدالمرسلین حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے پاس پہنچی۔ اس تلوار کا نام ’’ البتّار‘‘ ہے۔ اس تلوار مبارک کی تاریخ ایک تانبے کی تختی پر تحریر ہے اور یہ تختی بھی توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ اس تلوار کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اسی تلوار سے دجال کا مقابلہ کریں گے۔
حنفی اسکالر ملا علی قاری کی کتاب ’’جمع الوسائل فی شرح الشمائل‘‘ کے مطابق حضرت داؤد علیہ السلام کی یہ تلوار مبارک اس وقت نبی کریم ﷺ کے پاس آئی۔ جب جنگ بدر کے بعد یہودی قبیلے بنی قینقاع کو مدینہ بدر کیا گیا۔ بنی قینقاع نے نہ صرف میثاق مدینہ کی خلاف ورزی کی تھی۔ بلکہ مسلمانوں کے خلاف شر انگیزی کر رہے تھے۔ غزوہ بدر کے ایک مہینے بعد ہی 15 شوال 2ھ میں غزوہ بنی قینقاع کا واقعہ درپیش ہوا۔ واقعہ یہ ہوا کہ ایک برقع پوش مسلمان خاتون یہودیوں کے صرافہ بازار میں آئی۔ دکاندار نے شرارت کی اور خاتون کا لباس اس طرح کسی چیز میں پھنسا دیا کہ جب وہ اٹھی تو کپڑے پھٹ گئے اور اس کی ٹانگیں برہنہ ہوگئیں۔ تمام یہودی قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے۔ خاتون چلائی تو ایک مسلمان آیا اور دکان دار کو قتل کر دیا۔ اس پر یہودیوں اور عربوں میں لڑائی شروع ہو گئی۔
حضور اکرم ﷺ کو خبر ہوئی تو تشریف لائے اور یہودیوں کی اس غیر شریفانہ حرکت پر ملامت فرمانے لگے۔ اس پر بنو قینقاع کے خبیث یہودی بگڑ گئے اور بولے کہ جنگِ بدر کی فتح سے آپ مغرور نہ ہو جائیں۔ مکہ والے جنگ کے معاملہ میں بے ڈھنگے تھے۔ اس لیے آپ نے ان کو مار لیا۔ اگر ہم سے آپ کا سابقہ پڑا تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ جنگ کس چیز کا نام ہے؟ اور لڑنے والے کیسے ہوتے ہیں؟ علما کے نزدیک ان کا یہ جواب اعلان جنگ تھا۔ جب یہودیوں نے معاہدہ توڑ دیا تو حضور اکرم ﷺ نے 15شوال 2 ھ پیر کے دن ان یہودیوں پر حملہ کر دیا۔ یہودی جنگ کی تاب نہ لا سکے اور اپنے قلعوں کا پھاٹک بند کرکے قلعہ بند ہو گئے۔ مگر پندرہ دن کے محاصرے کے بعد بالآخر یہودی مغلوب ہو گئے اور ذی القعدہ کی چاند رات کو یہودی ہتھیار ڈال دینے پر مجبور ہو گئے۔ انہیں خیبر سے جلا وطن کر دیا گیا۔ مسلمانوں کو مال غنیمت میں کئی اشیا حاصل ہوئیں۔ ان میں ایک کمان (جس کا پہلے انہی صفحات پر ذکر آچکا ہے) اور یہ تلوار’’البتار‘‘ شامل تھیں۔ جمع الوسائل کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بنو قینقاع سے مال غنیمت میں تین تلواریں ملیں۔
’’البتار‘‘ کا مطلب ہے کاٹنے والی۔ اس تلوار کے دستے کے قریب ایک تصویر بنی ہے۔ جو حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت کا سر کاٹے جانے کے واقعے سے متعلق ہے۔ بعض روایات کے مطابق یہ تلوار جالوت کی تھی اور حضرت داؤد علیہ السلام نے 20 برس کی عمر میں اس سے چھین کر اسی کا سر قلم کیا تھا۔ بعض دیگر روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تلوار حضرت داؤد علیہ السلام نے خود تیار کی تھی اور پھر اس سے جالوت کا سر قلم کیا۔ تلوار مبارک پر حضرت دائود علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، ہارون علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، ذکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسی علیہ السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اسمائے مبارکہ عربی رسم الخط میں کندہ ہیں۔ تلوار پر کچھ تحریر انباطی زبان میں بھی ہے۔ انباط شمالی عرب کے لوگ تھے۔ جو چار صدی قبل مسیح کے لگ بھگ اس علاقے میں آباد تھے۔ تلوار پر ایک ایسا نشان بھی بنا ہوا ہے۔ جو موجودہ اردن کے علاقے ’’ بترا‘‘ کے قدیمی انباط باشندے اپنی ملکیتی اَشیاء پر بنایا کرتے تھے۔ مورخین کا کہنا ہے کہ بترا ممکنہ طور پر انباط کا دارالحکومت حکومت تھا۔ انباط کو انگریزی میں Nabataeans کہا جاتا ہے۔
بعض روایات میں یہ بات بھی ملتی ہے کہ یہی وہ تلوار ہے۔ جس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دنیا میں واپس آنے کے بعد دجال کا خاتمہ کریں گے اور دشمنانِ اسلام سے جہاد کریں گے۔
اس تلوار کی تاریخ پر تانبے کی جو تختی توپ کاپی میوزیم میں موجود ہے۔ وہ 880 ہجری (1475 عیسوی) میں تیار کی گئی۔ یعنی قسطنطنیہ کی عثمانی فتح سے تقریبا نصف صدی قبل۔ مذکورہ تختی پر درج عبارت بھی عربی اور انباطی زبانوں میں ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے حکام کے مطابق یہ تحریر انتہائی مبہم ہے۔ اس میں ترکوں کی فتوحات کی پیش گوئی بھی موجود ہے۔ مذکورہ تحریر سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ تلوار کے بارے میں یہ پیش گوئی پہلے سے موجود تھی کہ یہ مختلف انبیائے کرام سے ہوتی ہوئی بالآخر نبی اکرم حضرت محمد صلی اللہ وعلیہ وسلم کے پاس پہنچے گی۔ پھر یہ عثمانیوں کو ملے گی۔ اور اس کے بعد بالآخر قیامت کے قریب یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ہاتھ میں آئے گی۔ (جو دجال کا خاتمہ کریں گے)۔ (جاری ہے)
توپ کاپی میوزیم میں محفوظ انبیائے کرام علیہم السلام کی تلوار ’’البتار‘‘- سیف الانبیا رسول پاک ﷺ کے پاس بھی رہی۔فائل فوٹوحضرت داؤد علیہ السلام اور ان کے بعد کئی انبیائے کرامؑ کے پاس رہنے والی یہ تلوار ’’سیف الانبیا‘‘ کہلائی جاتی ہے۔ اس تلوار مبارک کو نبی آخرالزمان حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملکیت میں رہنے کا شرف بھی حاصل ہوا اور اس کا نام ’’البتار‘‘ پڑ گیا۔ جب کہ اسے حضرت داؤد علیہ السلام کی تلوار بھی کہا جاتا ہے۔
تلوار مبارک 101 سینٹی میٹر لمبی ہے۔ اس کا دستہ چمڑے سے بنا ہے۔ دستے کے آخر میں جو گولائی یا گانٹھ ہے۔ وہ چاندی سے بنی ہے۔ دستے اور پھل کے بیچ میں موجود حفاظتی حد لوہے سے بنائی گئی ہے۔ تلوار مبارک کا وزن 2986 گرام ہے۔ اس کا پھل چوڑا ہے۔ جس پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت ان انبیائے کرامؑ کے نام عربی رسم الخط میں کندہ ہیں۔ جن کی ملکیت میں یہ رہی۔ دستے کے قریب کندہ کاری کے ذریعے ایک تصویر بنائی گئی ہے۔ جس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت کا قتل دکھایا گیا ہے۔
تلوار پر کچھ تحریر انباطی زبان میں ہے۔ توپ کاپی میوزیم کے حکام کے مطابق پھل کے بغور جائزے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس پر مزید تحریر بھی موجود تھی۔ جو وقت کے ساتھ مبہم ہو چکی ہے۔ تاہم تلوار پر معرکہ داؤد و جالوت کی تصویر اور کچھ تحریر اب بھی واضح پر دیکھی جا سکتی ہے۔ تلوار مبارک کی میان پر چمڑا چڑھایا گیا ہے۔ میان کی لمبائی 93 سینٹی میٹر ہے۔ اس کے ساتھ چاندی سے بنا ایک بکل لگا ہوا ہے۔